فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
اور اُس سے فارغ ہوتے ہی جو عصر اپنے شروع وقت میں پڑھی جائے بداہۃً دونوں نمازیں مجتمع ہوجائیں گی تو اس معنے کو تحریف یا جمع بینہما کے مخالف کہنا صریح جہالت ہے۔ اقول وباللہ التوفیق تحقیق مقام یہ ہے کہ یؤخر الظھر میں ظہر سے صلاۃِ ظہر مراد ہونا تو بدیہی نماز ہی قابل تاخیر وتعجیل ہے نہ وقت جس کی تاخیر وتعجیل مقدورات عباد میں نہیں اور صلاۃ ظہر حقیقۃً تکبیر تحریمہ سے سلام تک مجموع افعا ل کا نام ہے نہ ہر فعل یا آغاز نماز کا کہ جزء نماز ہے اور ایسے حقائق میں جز شے شے نہیں جو اسم کسی مرکب مجموع اجزائے متعاقبہ فی الوجود کے مقابل موضوع ہو بنظرِ حقیقت اُس کا صدق جزء آخر کے ساتھ ہوگا نہ اُس سے پہلے مثلاً مکان اس مجموع جدران وسقف وغیرہا کا نام ہے تو جب نیو بھری گئی یا پہلی اینٹ چنائی کی رکھی گئی مکان نہ کہیں گے پس قبل فراغ حقیقت صلاۃ جسی شرع مطہر نماز گنے اور معتبر رکھے متحقق نہیں تو بحکم حقیقت انتہائے تاخیر نماز عین وقت فراغ پر ہے نہ وقت تکبیر کہ ہنوز زمانہ عدم صدق اسم باقی ہے اب حدیث کے الفاظ دیکھیے تاخیر نماز کی انتہا ابتدائے وقتِ عصر پر بتائی گئی ہے اور اُس کی انتہا فراغ پر تھی تو ثابت ہوا کہ ظہر سے فراغ وقت ظہر کے جزء اخیر میں ہوا یہی بعینہٖ ہمارا مقصود ہے اگر معنے وہ لیے جائیں جو ملّاجی بتاتے ہیں کہ اول وقت عصر میں نماز ظہر شروع کی تو تاخیر ظہر اول وقت عصر پر منتہی نہ ہوئی بلکہ اوسط وقت عصر تک رہی یہ خلاف ارشاد حدیث ہے تو بلحاظ حقیقت شرعیہ معنی حدیث وہی ہیں جنہیں ملّاجی تحریہ نصوص بتارہے ہیں ہاں مجازاً آغاز نماز پر بھی اسم نماز اطلاق کرتے ہیں تو ہمارے اورر ملّاجی کے معنی میں وہی فرق ہے جو حقیقت ومجاز میں۔ بحمداللہ اس بیان جلی البرہان سے واضح ہوگیا کہ ملّاجی کا منتہائے تاخیر ومنتہائے نماز ظہر میں تفرقہ پر حکم کرنا جہالت تھا ملّاجی نے اتنا سچ کہا کہ منتہے تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا آگے جو یہ حاشیہ چڑھایا کہ یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ وقت عصر آجاتا نرا ادعائے بے دلیل ہے طرفہ یہ کہ خود بھی حضرت نے اُنہیں لفظوں سے تعبیر کی جن میں دونوں معنی محتمل مگر عقل ووہابیت تو باہم اقصی طرفین نقیض پر ہیں وللہ الحمد۔ ثم اقول وبحول اللّٰہ اصول (پھر میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی ہی کی طاقت سے جرح کرتا ہوں) ظہر کی وقتِ عصر تک تاخیر درکنار اگر صاف یہ لفظ آتے کہ ظہر اول وقت عصر میں پڑھی مدعائے مخالف میں نص نہ تھی ظہرین وعشائین میں آخر وقتِ اول واول وقت آخر آن واحد فصل مشترک بین الزمانین ہے اور صلاۃ بمعنے ابتدائے صلاۃ اور فراغ عن الصلٰوۃ دونوں مستعمل تو بحکم مقدمہ اولٰی جس نماز کے فراغ پر اُس کا وقت ختم ہوجائے اُسے جس طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ اپنے وقت کے جز اءخیر میں تمام ہوئی یونہی یہ بھی کہ وقت آئندہ کے جز ء اول میں اُس سے فراغ ہوا اور بحکم مقدمہ ثانیہ تعبیر ثانی کو ان لفظوں سے بھی ادا کرسکتے ہیں کہ نماز وقت آئندہ میں پڑھی کہ نماز پڑھنا فراغ عن الصلاۃ تھا اور فراغ عن الصلاۃ آخر وقت میں ہوا اور آخر وقت ماضی اولِ وقت آتی ہے ولہذا ساتوں احادیث مذکورہ امامت جبریل وسوال سائل میں جب کہ بظاہر عصر ماضی وظہر حال دونوں ایک وقت پڑھنا نکلتا تھا بلکہ حدیث امامت عندالترمذی وحدیث سائل عندابی داؤد میں صاف تصریح تھی کہ آج کی ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی خود امام شافعی وجمہور علمائے کرام رحمہم اللہ تعالٰی نے ان میں صلاۃ عصر دیروزہ کو ابتدائے نماز اور صلاۃ ظہر امروزہ کو فراغ نماز پر حمل کیا یعنی ایک مثل سایہ پر کل کی عصر شروع فرمائی تھی اور آج کی ظہر ختم، اسی کو یوں تعبیر فرمایاگیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی امام اجل ابوزکریا نووی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی شرح صحیح مسلم شریف میں زیرحدیث
اذاصلیتم الظھر فانہ وقت الی ان یحضر العصر
(جب تم ظہر کی نماز پڑھنا ہوتو عصر تک سارا وقت ظہر ہی کا ہے۔ ت) فرماتے ہیں:
احتج الشافعی والاکثرون بظاھر الحدیث الذی نحن فیہ، واجابوا عن حدیث جبریل علیہ السلام، بان معناہ فرغ من الظھر حین صارظل کل شیئ مثلہ، وشرع فی العصر فی الیوم الاول حین صار ظل کل شیئ مثلہ فلا اشتراک بینھما ۱؎۔
امام شافعی اور اکثر علمانے اسی حدیث کے ظاہر سے استدلال کیا ہے جس میں ہم گفتگو کررہے ہیں اور جبریل علیہ السلام کی حدیث سے یہ جواب دیا ہے کہ پہلے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا تو اس وقت ظہر کی نماز سے فارغ ہوگئے تھے اور دوسرے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہُوا تھا تو اس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی۔ اس طرح دونوں کا (ایک ہی وقت میں) اشتراک نہیں پایا جاتا۔ (ت)
(۱؎ شرح الصحیح لمسلم مع مسلم باب اوقات صلوات الخمس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲۲۲)
مرقات شرح مشکوٰۃ میں ہے : فی روایۃ، حین کان ظل کل شیئ مثلہ، کوقت العصر بالامس۔ ای فرغ من الظھر ح، کماشرع فی العصر فی الیوم الاول ح حینئذٍ قال الشافعی: وبہ نندفع اشتراکھا فی وقت واحد ۱؎۔
ایک روایت میں ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا، جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر کے وقت تھا۔ یعنی آج اُسی وقت ظہر سے فارغ ہوئے تھے جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر میں شروع ہوئے تھے امام شافعی نے کہا کہ اسی سے ایک وقت میں ان کے اشتراک کا احتمال ختم ہوجاتا ہے۔ (ت)۔
(۱؎ مرقات المفاتیح الفصل الثانی من باب المواقیت مکتبہ امدادیہ ملتان ۲/۱۲۴)
ثم اقول ہاں میں علما سے کیوں نقل کروں خود ملّاجی اپنے ہی لکھے کو نہ روئیں
اقرء کتابک کفی بنفسک الیوم علیک شھیدا ۲؎
عــہ۔ (پڑھو اپنی کتاب کو، آج تم خود ہی اپنے آپ پر شہید کافی ہو۔ ت
(۲؎ القرآن ۱۷/۱۴)
عــہ اقتباس ومناسب المقام ھھنا الشھادۃ لا الحساب ۱۲ منہ (م) قرآن کریم سے اقتباس ہے اور مقام کے مناسب یہاں پر شہادت ہے نہ کہ حساب (اس لئے حسیباً کی جگہ شھیداً لایاگیا ہے) (ت)
مسئلہ وقتِ ظہر میں جو ایک مثل کا اثبات پیشِ نظر تھا پاؤں تلے کی سوجھی آگا پیچھا بے سوچے سمجھے صاف صاف انہیں معنی کا اقرار کرگئے یہ کیا خبر تھی کہ دو۲ قدم چل کر یہ اقرار جان کا آزار ہوجائے گا حدیث سائل بروایت نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نقل کرکے فرماتے ہیں ف(۱): معنی اس کے یہ ہیں کہ پہلے دن عصر جب پڑھی کہ سایہ ایک مثل آگیا اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر فارغ ہوئے یہ معنی نہیں کہ ظہر پڑھنی شروع کی دُوسرے دن اُسی وقت میں جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اھ ملخصا۔
(ف۱ معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ مکتبہ نذیریہ لاہور ص۳۱۶)
کیوں مُلّاجی ! جب صلاۃ بمعنی فراغ عن الصلاۃ آپ خود لے رہے ہیں تو آخر الظہر کے معنی آخر الفراغ عن الظہر لینا کیوں تحریف نصوص ہوگیا، ہاں اس کا علاج نہیں کہ شریعت تمہارے گھر کی ہے اپنے لئے تحریف تبدیل انکار تکذیب جو چاہو حلال کرلو۔ مزہ یہ ہے کہ فقط اسی پر قناعت نہ کی لاج کا بھلا ہو حدیث امامت جبریل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی نقل کی اور ابو داؤد کے لفظ چھوڑ کر خاص ترمذی ہی کی روایت لی جس میں صاف نقل کیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی اور بکمال خوش طالعی اسے بھی لکھ ف(۲) دیا کہ معنے اس کے بھی وہی ہیں جو حدیث نسائی کے بیان کیے گئے یعنی پہلے دن عصر شروع کی ایک مثل پر اور دوسرے دن فارغ ہوئے ظہر سے ایک مثل پر۔
(ف۲ معیارالحق ص ۳۲۱)
مُلّاجی! جب ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھنا ان صریح لفظوں کے بھی خود یہ معنی لے رہے ہو کہ نماز پڑھی تو اپنے وقت میں مگر اس سے فراغ دوسری کے ابتدائے وقت پر ہوا تو اَب کس مُنہ سے یہ حدیثیں اثبات جمع میں پیش کرتے اور انہیں نص صریح ناقابل تاویل بتاتے ہو ان میں تصریح دکھا بھی نہ سکے جو صاف صاف اس حدیث ترمذی میں تھی جب اس کے یہ معنی بنارہے ہو ان کے بدرجہ اولٰی بنیں گے اور اول تا آخر تمہارے سب دعویقل موتوا بغیظکم سُنیں گے ا نصاف ہو تو ایک یہی حرف تمہاری ساری محنت کو پہلی منزل پہنچانے کے لئے بس ہے وللہ الحمد یہ کلام تو ملّاجی کی جہالتوں سے متعلق تھا اب مثل حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اس حدیث کے بھی جواب بعون الوہاب اُسی طرز صواب پر لیجئے وباللہ التوفیق۔
جواب اول: دخول عصر سے قرب عصر مراد ہے جس کی اکیس مثالیں آیات واحادیث سے گزریں خصوصا حدیث ہشتم میں ہم نے روایت صحیحہ صحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی سے روشن ثبوت دیا کہ دوسرے وقت تک تاخیر درکنار ایک نماز اپنے آخر وقت میں دوسرے وقت کے قریب پڑھنے کو کہا یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دوسری نماز کے وقت میں پڑھی
الی ھذا الجواب اشار الامام الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالٰی، حیث قال: قدیحتمل ان یکون قولہ: الی اول وقت العصر، الی قرب اول وقت العصر ۱؎۔
اسی جواب کی طرف امام طحاوی نے اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اول وقت عصر سے مراد اول وقت عصر کا قریب ہونا ہے۔ (ت)
(۱؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین الخ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱۳)