Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
52 - 157
اور مرسل کی نسبت آپ خود فرماچکے ف۱ روایت مرسل حجت نہیں ہوتی نزدیک جماعت فقہا وجمہور محدثین کے۔ یہ آپ نے اُس حدیث صحیح متصل کو مردود و مرسل بناکر فرما یا تھا جس کا ذکر لطیفہ دہم میں گزرا جھوٹے ادعائے ارسال پر تو یہ جوش وخروش اور سچّے ارسال میں یوں گنگ وخاموش، یہ کیا مقتضائے حیا ودیانت ہے۔
 (ف۱: معیارالحق    ص ۴۰۱)
جواب سوم : حدیث مذکور کے اصلاً کسی طریق میں نہیں کہ حضور پُرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد غروب شفق ابیض نماز مغرب پڑھی نہ ہرگز ہرگز کسی روایت میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعدازسفر وقت حقیقۃً قضا کرکے دوسری نماز کے وقت میں پڑھنے کو فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا مذہب یہ ہے کہ وقت مغرب شفق احمر تک ہے
الدارقطنی عن ابن عمر، رفعہ، والصحیح وقفہ، افادہ البیھقی والنووی، انہ قال:الشفق الحمرۃ۔
دارقطنی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، جیسا کہ بہیقی اور نووی نے افادہ کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا ہے کہ شفق سُرخی کو کہتے ہیں۔ (ت)
اور ہمارے نزدیک شفق ابیض تک ہے ھو الصحیح روایۃ والرجیح درایۃ وقضیۃ الدلیل فعلیہ التعویل
 (یہی روایۃً صحیح ہے، اسی کو درایۃً ترجیح ہے اور دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے اس لئے اسی پر اعتماد ہے۔ ت) ہمارا مذہب اجلّائے صحابہ مثل افضل الخلق بعدالرسل صدیق اکبر واُمّ المومنین صدّیقہ وامام العلماء معاذبن جبل وسید القرأ اُبی بّن کعب وسید الحفّاظ ابوہریرہ وعبداللہ بن زبیر وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم واکابر تابعین مثل امام اجل محمد باقر وامیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز واجلّائے تبع تابعین مثل امام الشام اوزاعی وامام الفقہاء والمحدثین والصالحین عبداللہ بن مبارک وزفر بن الہذیل وائمہ لغت مثل مبرد وثعلب وفرأ وبعض کبرائے شافعیہ مثل ابوسلیمان خطابی وامام مزنی تلمیذ خاص امام شافعی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم سے منقول کمافی عمدۃ القاری وغنیۃ المستملی وغیرھما۔ اب اگر ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صراحۃً ثابت بھی ہوکہ انہوں نے بعد غروب ابیض مغرب پڑھی تو صاف محتمل کہ انہوں نے کسی سفر میں سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد شفقِ احمر شفق ابیض میں مغرب اور اُس کے بعد عشاء پڑھتے دیکھا اور اپنے اجتہاد کی بنا پر یہی سمجھا ہوکہ حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے وقت قضا کرکے جمع فرمائی اب چاہے ابنِ عمر سے ثابت ہوجائے کہ انہوں نے پہر رات گئے بلکہ آدھی رات ڈھلے مغرب پڑھی یہ اُن کے اپنے مذہب پر مبنی ہوگا کہ جب وقت قضا ہوگیا تو گھڑی اور پہر سب یکساں مگر ہم پر حجت نہ ہوسکے گا کہ ہمارے مذہب پر وہ جمع صوری ہی تھی جسے جمع حقیقی سے اصلاً علاقہ نہ تھا یہ تقریر بحمداللہ تعالٰی وافی وکافی اور مخالف کے تمام دلائل وشبہات کی دافع ونافی ہے اگر ہمّت ہے تو کوئی حدیث صحیح صریح ایسی لاؤ جس سے صاف صاف ثابت ہوکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حقیقۃً شفق ابیض گزار کر وقت اجتماعی عشاء میں مغرب پڑھی یا اس طور پڑھنے کا حکم فرمایا مگر بحول اللہ تعالٰی قیامت تک کوئی حدیث ایسی نہ دکھاسکوگے بلکہ احادیث صحیحہ صریحہ جن میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جمع فرمانا اور اس کا حکم دینا آیا وہ صراحۃً ہمارے موافق اور جمع صوری میں ناطق ہیں جن کا بیان واضح ہوچکا پھر ہم پر کیا جبر ہے کہ ایسی احتمالی باتوں مذبذب خیالوں پر عمل کریں اور اُن کے سبب نمازوں کی تعیین وتخصیص اوقات کہ نصوص قاطعہ قرآن وحدیث واجماعِ امت سے ثابت ہے چھوڑ دیں۔ ھکذا ینبغی التحقیق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مروی بطریق عُقیل بن خالد عن ابن شھاب عن انس جس کے ایک لفظ میں ہے کہ ظہر کو وقتِ عصر تک تاخیر فرماتے،
الشیخان وابوداود والنسائی، حدثنا قتیبۃ، زاد ابوداؤد وابن موھب المعنی، قالانا المفضل ح والبخاری وحدہ، حدثنا حسان الواسطی، وھذا لفظہ، ثنا المفضل بن فضالۃ عن عقیل عن ابن شھاب عن انس بن مالک، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس، اخر الظھر الی وقت العصر، ثم یجمع بینھما، واذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل،صلی الظھر ثم رکب ۱؎۔
بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی کہتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے قتیبہ نے ابوداؤد نے اضافہ کیا ہے ''اور ابن موہب المعنی نے'' دونوں مفضل سے روایت کرتے ہیں۔ یہی روایت بخاری نے بواسطہ حسان واسطی تنہا بھی کی ہے، اور آئندہ الفاظ اسی کے ہیں۔ حدیث بیان کی ہم سے مفضل نے عقیل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر زوال سے پہلے روانہ ہوجاتے تھے تو ظہر کو عصر تک مؤخر کردیتے تھے، پھر دونوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں: ''پھر اُترتے تھے اور دونوں کو اکٹھا پڑھتے تھے'' او ر اگر  زوال ہوجاتا تھا قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں: ''اور اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تھا'' تو ظہر پڑھ کے سوار ہوتے تھے۔ (ت)
 (۱؎ صحیح البخاری    باب یؤخر الظہر الی العصر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۵۰)
دُوسرے لفظ میں ہے ظہر کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کا اوّل وقت داخل ہوتا پھر جمع کرتے۔
صحیح مسلم میں ہے، حدثنی عمروالناقد نا شبابۃ بن سوار المدائنی نالیث بن سعد عن عقیل، فذکرہ، وفیہ: اخر الظھر حتی یدخل اول وقت العصر، ثم یجمع بینھما ۲؎۔
حدیث بیان کی ہم سے عمرو الناقد نے شبابہ سے، اس نے لیث سے، اس نے سعد سے، اس نے عقیل سے، اس کے بعد روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ عصر کا ابتدائی وقت داخل ہوجاتا، پھر دونوں کو جمع کرلیتے۔ (ت)
 (۲؎ صحیح لمسلم    باب جواز الجمع بین الصلاتین      مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵)
تیسرے لفظ میں یہ لفظ زائد ہے کہ مغرب کو تاخیر کرتے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے وقت اُسے اور عشا کو ملاتے یا اُنہیں جمع فرماتے کہ شفق ڈوب جاتی۔
صحیح مسلم میں ہے، حدثنی ابوالطاھر وعمروبن السواد قالانا ابن وھب ثنی جابر بن اسماعیل عن عقیل، وفیہ: یؤخر المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء حین یغیب الشفق ۱؎۔ ورواہ النسائی، قال: اخبرنی عمروبن سوّاد بن الاسود بن عمرو، وابوداود مختصرا، قال: حدثنا سلیمٰن بن داود المھری کلاھما عن ابن وھب، بہ، ورواہ الطحاوی حدثنا یونس، قال:انا ابن وھب،  وفیہ، حتی یغیب الشفق ۲؎۔
حدیث بیان کی مجھ سے ابوالطاہر اور عمروبن سواد نے ابن وہب سے، اس نے جابر سے، اس نے عقیل سے۔ اس میں ہے کہ مغرب کو مؤخر کرتے تھے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو جمع کرلیتے جب شفق غائب ہوتی تھی۔ اس روایت کو نسائی نے بھی بواسطہ عمرو ابن سواد ابن اسود ابن عمر، اور ابوداود نے بھی مختصراً بواسطہ سلیمان ابن داود المہری بیان کیا ہے (عمرو اور سلیمان) دونوں نے یہ روایت ابن وہب سے لی ہے۔ اور طحاوی نے اس کو بواسطہ یونس، ابن وہب سے لیا ہے۔ اس میں ہے ''یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتی تھی''۔ (ت)
 (۱؎ الصحیح لمسلم    باب جواز الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵

سنن ابی داؤد    ۱/۱۷۲        شرح معانی الآثار        ۱/۱۱۳)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء        مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب 

کراچی    ۱/۹۹)
غیبتِ شفق کے جوابات شافعیہ تو بحمداللہ اوپر گزرے ملّاجی کو بڑا ناز یہاں ان لفظوں پر ہے کہ ظہر کو وقت عصر تک مؤخر فرماکر جمع کرتے اُس پر حتی کے معنی میں لاطائل س نحو یت بگھار کر فرما تے ہیں ف۱ پس مطلب یہ ہواکہ تاخیر ظہر کی اس حد تک کرتے کہ منتہ تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ عصر کا وقت آجاتا ان معنی سے کسی کو انکار نہیں مگر محرفین للنصوص کو اوّل وقت عصر کا منتہی تاخیر کا ہے نہ نماز ظہر کا اگر ظہر کا ہوتو ثم یجمع بینہما کے کچھ معنی نہیں بنتے کہ بعد ہوچکنے ظہر کے اول وقت عصر تک پھر جمع کرنا ساتھ عصر کے کس طرح ہو اھ ملخصا مہذبا۔

اِن لن ترانیوں کا جواب تو بہت واضح ہے عصر یا وقت عصر یا اول وقت عصر یا دخول وقت عصر تک ظہر کو مؤخر کرنے کے جس طرح یہ معنے ممکن کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ وقت عصر داخل ہوا یونہی یہ بھی متصور کہ ظہر میں اس قدر تاخیر فرمائی کہ اس کے ختم ہوتے ہی وقتِ عصر آگیا خود علمائے شافعیہ ان معنی کو تسلیم کرتے ہیں صحیح بخاری شریف میں فرمایا: باب تاخیر الظھر الی العصر ۳؎ امام عسقلانی شافعی نے فتح الباری پھر قسطلانی شافعی نے ارشاد الساری میں اس کی شرح فرمائی:
باب تاخیر الظھر الٰی اول وقت العصر، بحیث انہ اذافرغ منھا یدخل وقت تالیھا، لاانہ یجمع بینھما فی وقت واحد ۴؎۔
باب، ظہر کی تاخیر عصر کے ابتدائی وقت تک کہ جب ظہر سے فارغ ہو، عصر کا وقت داخل ہوجائے، نہ یہ کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو جمع کرے۔ (ت)
 (۳؎ صحیح البخاری    باب تاخیر الظھر الی العصر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۷)

(۴؎ ارشاد الساری        باب تاخیر الظھر الی العصر   دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۱/۴۹۱)

(ف۱ معیارالحق    ص۳۷۷، ۳۷۸)
حافظ الشان کے لفظ یہ ہیں: المراد انہ عند فراغہ منھا دخل وقت العصر، کماسیاتی عن ابی الشعثاء ۱؎ الخ۔
مراد یہ ہے کہ ظہر سے فارغ ہوتے ہی عصر کا وقت داخل ہوگیا، جیسا کہ عنقریب ابوالشعثاء سے آرہا ہے۔ (ت)
(۱؎ فتح الباری شرح البخاری    باب تاخیر الظہر الی العصر    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۱۹)
Flag Counter