حدیث ۷:سائل نے جو خدمت اقدس حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر اوقاتِ نماز پُوچھے اور حضورِ والا نے ارشاد فرمایا ہے کہ دو۲ دن حاضر رہ کر ہمارے پیچھے نماز پڑھ۔ پہلے دن ہر نماز اپنے اول وقت میں اور دوسرے دن ہر نماز آخر وقت پڑھا کر ارشاد ہوا ہے:
الوقت بین ھذین
(وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے)
اس حدیث میں نسائی وطحاوی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی:
سأل رجل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن مواقیت الصلاۃ، فقال: صل معی، فصلی الظھر حین زاغت الشمس،
والعصر حین کان فی کل شیئ مثلہ، قال: ثم صلی الظھر حین کان فیئ الانسان مثلہ ۲؎۔
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں پُوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ نماز پڑھ! تو آپ نے ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب سُورج ڈھل گیا اور عصر کی اس وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ راوی نے کہا کہ پھر (اگلے دن) ظہر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ (ت)
(۲؎ شرح معانی الاثار باب مواقیت الصلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی ۱/۱۰۲(
اس حدیث میں بھی عصر دیروز وظہر امروز کا وہی حال اور علماء کے وہی مقال۔
حدیث ۸:سُنن ابی داؤد میں بسند صحیح عــہ ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث سائل یوں ہے:
ان سائلا سأل النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فلم یرد علیہ شیا، حتی امر بلالا، فاقام الفجر حین انشق الفجر، وفیہ فلما کان من الغد، اقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ، وصلی العصر وقداصفرت الشمس، اوقال: امسی ۱؎۔
ایک پُوچھنے والے نے رسول اللہ سے (اوقات نماز) پُوچھے تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب ابھی پَو پُھٹی ہی تھی۔ اس روایت (کے آخر) میں ہے کہ اگلے دن ظہر کی اقامت کہی جس وقت پچھلے دن عصر کی کہی تھی، اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سُورج زرد ہوچکا تھا، یا یوں کہا کہ شام ہوچکی تھی۔ (ت)
عــہ حیث قال: (حدثنا مسدد) ثقۃ، حافظ، من رجال البخاری۔ (ناعبداللّٰہ بن داؤد) ھو ابن عامر الھمدانی، ثقۃ، عابد من رجال البخاری والاربعۃ۔ دون الواسطی الذی لیس الامن رجال الترمذی (نابدربن عثمٰن) ثقۃ، من رجال مسلم۔ (ناابوکر بن ابی موسٰی ف۱) ثقۃ، من رجال الستۃ۔ (عن ابی موسٰی) الاشعری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
چنانچہ (ابوداؤد نے) کہا (حدثنا مسدد) ثقہ ہے، حافظ ہے، بخاری کے راویوں میں سے ہے (ناعبداللّٰہ ابن داؤد) اس سے مراد ابن عامر ہمدانی ہے، جو ثقہ ہے عابد ہے اور بخاری کے علاوہ صحاح کی چار کتابوں کے راویوں میں سے ہے۔ واسطی مراد نہیں ہے جوکہ صرف ترمذی کے راویوں میں سے ہے (نا، بدر ابن عثمٰن) ثقہ ہے، مسلم کے راویوں میں سے ہے۔ (نا، ابوبکر ابن موسٰی) ثقہ ہے، صحاح ستّہ کا راوی ہے (عن ابی موسٰی) شعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلٰوۃ مطبوعہ مجتبائی لاہور، پاکستان ۱/۵۷)
(ف۱ سنن ابی داؤد ۱/۵۷)
اس حدیث سے دو۲ فائدہ زائدہ حاصل ہُوئے:
اوّلاً اس میں صاف تصریح ہے کہ آج کی ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی حالانکہ یہی حدیث ابی موسٰی اسی طریق بدر بن عثمٰن ناابوبکر بن ابی موسٰی بن ابیہ سے مسلم ونسائی وابن ابان وطحاوی کے یہاں ان لفظوں سے ہے:
ثم اخر الظھر حتی کان قریبا من وقت العصر بالامس ۲؎ ولفظ النسائی الی قریب۔
پھر ظہر کی تاخیر فرمائی یہاں تک کہ وقت عصر دیروزہ سے قریب ہوگئی۔
)۲؎ شرح معانی الآثار باب مواقیت الصلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۰۳)
ثابت ہُوا کہ وہاں بھی قُرب ہی مراد ہے اور قرب وقت کو نامِ وقت سے تعبیر درکنار صراحۃً ان لفظوں سے بھی تعبیر کرلیتے ہیں کہ دوسری نماز کے وقت میں نماز پڑھی، یہ فائدہ یاد رکھنے کا ہے۔
ثانیا اس میں یہ بھی تصریح ہے کہ عصر اس حال میں پڑھی کہ سورج زرد ہوگیا تھا یا کہا شام ہوگئی، یہ بھی قطعاً قرب شام پر محمول۔
حدیث ۹ :صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
وقت الظھر اذازالت الشمس وکان ظل الرجل کطولہ مالم یحضر العصر ۱؎۔
ظہر کا وقت اُس وقت ہے جب سورج ڈھلے اور سایہ آدمی کا اس کے قد کے برابر ہوجائے جب تک عصر کا وقت نہ آئے۔
حدیث ۱۰ :امام طحاوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث امامتِ جبریل میں راوی حضورِ والا صلوات اللہ تعالٰی علیہ وسلامہ نے فرمایا:
صلی الظھر وفیئ کل شیئ مثلہ ۲؎۔
اس وقت (نماز) پڑھی کہ سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہوگیا۔
(۲؎ شرح معانی الآثار باب مواقیت الصّلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۰۲)
جن کے نزدیک ایک مثل کے بعد وقتِ ظہر نہیں رہتا ان حدیثوں میں ایک مثل ہونے کو ایک مثل کے قریب پہنچنے پر عمل کرتے ہیں۔
حدیث ۱۱: امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک روز نمازِ عصر کو بہت اخیر کرنا اور عروہ بن زبیر کا آکر حدیث امامتِ جبریل سنانا کہ صحیحین وغیرہما میں مروی اس میں طبرانی کی روایت یوں ہے:
دعا المؤذن لصلاۃ العصر فامسی عمر بن عبدالعزیز قبل ان یصلیھا ۳؎۔
مؤذن نے نمازِ عصر کےلئے بلایا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے شام کردی اور ابھی نمازِ عصر نہ پڑھی۔ (ت)
یعنی عمر نے شام کردی اور ہنوز نمازِ عصر نہ پڑھی۔ امام قسطلانی شافعی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری اور علّامہ عبدالباقی زرقانی مالکی شرح مؤطا میں فرماتے ہیں :
محمول علی انہ قارب المساء لاانہ دخل فیہ ۱؎۔
حدیث کی مراد یہ ہے کہ شام قریب آئی نہ یہ کہ شام ہوہی گئی۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب بدئ الخلق باب ذکر الملائکۃ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۴۵۷)
حدیث ۱۲ :حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ ''سحری کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابنِ اُمِّ مکتوم اذان
دے''۔ اس پر صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے :
قال کان رجلا لاینادی حتی یقال لہ اصبحت اصبحت ۳؎۔
وہ اذان نہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ اُن سے کہاجاتا تمہیں صبح ہوگئی صبح گئی۔
اگر اُن کی اذان سے پہلے صبح ہوچکتی تھی تو اس ارشاد کے کیا معنی کہ ''جب تک وہ اذان نہ دیں کھاتے پیتے رہو''۔ لہذا قسطلانی شافعی ارشاد اور امام عینی عمدہ میں فرماتی:
واللفظ للارشاد المعنی قاربت الصبح علی حد قولہ تعالٰی
فاذا بلغن اجلھن ۴؎
یعنی لوگوں کے اس قول کے کہ ''صبح ہوگئی صبح ہوگئی'' یہ معنی ہیں کہ صبح قریب آئی قریب آئی، جیسے آیت میں فرمایا کہ عورتیں میعاد کو پہنچیں یعنی قریب میعاد۔
(۴؎ ارشاد الساری شرح بخاری باب اذان الاعمٰی الخ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ۲/۱۱)