اس کے صاف معارض ہے کہ اُس سے روشن طور پر مستفاد کہ یہ پانچوں وقت اگلے انبیا کے تھے اگرچہ متفرق ہوں نہ مجموع۔ کسی وقت کے استثناء کی اُس میں بُو بھی نہیں، نہ ایسا استثناء بے دلیل مساوی قابل احتمال۔
اقول: والعجب من ابن حجر، کیف یقول بالتوزیع ثم یستثنی العشاء، فانی یصح التوزیع للجمیع۔
اور ابن حجر پر حیرت ہے کہ وہ ایک طرف تو سب نمازوں کی تقسیم کے قائل ہیں۔ پھر ان سے عشاء کی استثناء بھی کرتے ہیں، تو سب کی تقسیم کیسے ہُوئی؟ (ت)
ظاہراً اسی لئے شیخ محقق قدس سرہ نے اشعۃ اللمعات میں اُس سے رجوع فرماکر ترک کیا حیث قال (چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ ت):
ایں وقت نماز پیغمبران ست کہ پیش از توبودہ اندکہ ہرکدام از ایشاں بعضے اوقات داشتند اگرچہ مجموع اوقات مخصوص ایں امت است ۳؎ فافھم انتھی۔
یہ وقت ان پیغمبروں کی نماز کے ہیں جو آپ سے پہلے گزرے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو، ان میں سے بعض اوقات ملے تھے، اگرچہ پانچ کا مجموعہ اس امّت کے ساتھ خاص ہے۔ اسکو سمجھو۔ (ت)
(۳؎ اشعّۃ اللمعات کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت الفصل الثانی مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۲۸۷)
بلکہ بعض روایات واحادیث میں حضرت یونس وحضرت موسٰی کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہما الصلاۃ والسّلام کا نمازِ عشاء پڑھنا صراحۃً منقول کماسیأتی ذکرہ (جیسا کہ اس کا ذکر آرہا ہے۔ ت) اور حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما الصلاۃ والسلام کا پڑھنا اوپر گزرا بلکہ امام ابواللیث سمرقندی تنبیہ الغافلین میں بروایت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، ناقل کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوات اللّٰہ تعالٰی وتسلیماتہ علیہ وعلیھم اجمعین۔نمازِ عشاء وہ نماز ہے کہ مجھ سے پہلے پیغمبروں نے پڑھی۔ (ت)
(۱؎ تنبیہ الغافلین باب فضل امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۴۰۳)
عــہ: ھکذا ھو مثبت فی نسختی التنبیہ فاللّٰہ تعالٰی اعلم ولتراجع النسخ ۱۲ منہ (م) میرے پاس موجود تنبیہ الغافلین کے نسخہ میں عبارت اسی طرح ہے اللہ تعالٰی زیادہ جاننے والا ہے دوسرے نسخوں کو دیکھ لینا چاہئے ۱۲ منہ (ت)
لاجرم امام قاضی ناصرالدین بیضاوی شرح مصابیح میں فرماتے ہیں: ان العشاء کانت تصلیھا الرسل نافلۃ لھم ولم تکتب علی اممھم کالتہجد وجب علی نبینا دوننا ۲؎۔
پہلے رسول عشاء کی نماز اضافی طور پر پڑھتے تھے مگر ان کی اُمتوں پر فرض نہیں تھی، جس طرح تہجد کی نماز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی مگر ہم پر واجب نہیں ہے۔ (ت)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الرابع خصائص امۃ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۵/۴۲۶)
اسی طرح علامہ زرقانی امام ہروی وغیرہ سے ناقل: اذقال بعد ماقدمنا عنہ، من معارضۃ اثر العیشی بخبر الرافعی، ثم الاستدراک بحدیث معاذ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، مانصہ ''وجمع الھروی وغیرہ بان المصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اول من صلاھا مؤخرالھاالی ثلث اللیل أونحوہ، اما الرسل فکانوا یصلونھا عنداول مغیب الشفق ۱؎ اھ'' وغرضنا فیما سلموا من ثبوت العشاء لغیر نبینا من الانبیاء علیہ وعلیم الصّلاۃ والثناء اما ما حاول من الجمع، فاقول اولا: ان کان المراد الجمع بین حدیث فضلتم بھا وروایۃ ان العشاء لیونس علیہ الصلٰوۃ والسلام، کمایدل علیہ ذکرہ بعد ماقال ان قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فضلتم بھا یعارض روایۃ ان العشاء لیونس، فقد علمت ان لاتعارض بینھما حتی یحتاج الی الجمع۔ اوبین الروایۃ واثر العیشی، کمایدل علیہ زیادۃ لفظ ''نفسہ'' بعد لفظ اثر الطحاوی فیما یأتی، فماابعدہ جمعا، فان الاثر صریح فی نفی المطلق دون المقید بالتاخیر فانہ فی سیاق بیان من صلی الصلوات غیر معترض لاقسام الاوقات، فذکر لکل من الاربع من صلاھا، وقال فی العشاء: اول من صلاھا نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فاین ھذا مما تریدون!
زرقانی سے ہم پہلے نقل کرچکے ہیں کہ انہوں نے عیشی کے اثر کو رافعی کی خبر سے معارض قرار دیا ہے۔ پھر اس پر حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ سے استدراک کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ ہروی وغیرہ نے اس طرح تطبیق کی ہے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے عشاء کو تہائی رات یا اس کے لگ بھگ تک مؤخر کرکے پڑھا ہے۔ جبکہ پہلے گزرجانے والے رسول شفق غائب ہونے کے ساتھ ہی عشاء پڑھ لیا کرتے تھے اور اس نقل سے ہماری غرض صرف یہ بتانا ہے کہ ہروی وغیرہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی انبیاء کے لئے بھی عشاء تسلیم کرلی ہے، وہی ان کی تطبیق، تو میں کہتا ہوں کہ اس پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ تطبیق اگر اُن روایتوں کے درمیان ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ عشاء کے ذریعے تمہیں فضیلت دی گئی ہے۔ اور دوسری میں ہے کہ عشاء یونس علیہ السلام کیلئے تھی، جیسا کہ سباق سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ تطبیق زرقانی نے مذکورہ دو۲ روایتوں کے بعد بیان کی ہے تو (یہ تطبیق فضول ہے کیونکہ) تمہیں معلوم ہوچکا ہے کہ ان دو۲ روایتوں میں تعارض ہی نہیں ہے کہ تطبیق کی ضرورت پڑے۔ اگر یہ تطبیق روایت اور عیشی کے اثر کے درمیان ہے جیسا کہ طحاوی کے عنقریب آنے والے اثر میں طحاوی کے ساتھ ''نفسہ'' کا لفظ بڑھانے سے ظاہر ہوتا ہے تو یہ فہم سے بہت بعید تطبیق ہے کیونکہ اثر میں صراحتاً مطلق عشاء کی نفی ہے نہ کہ (تہائی رات تک) تاخیر سے مقید عشاء کی، کیونکہ اثر کے سیاق کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ نمازیں کس کس نبی نے پڑھی تھیں، قطع نظر اس سے کہ پہلے وقت میں پڑھی تھیں یا مؤخر کرکے، چنانچہ اثر میں چار نمازوں کے بارے میں بیان کیا ہے کہ انہیں ہمارے نبی کے علاوہ باقی انبیاء نے بھی پڑھا ہے۔ کہاں یہ بات اور کہاں وہ جو تم لوگ چاہتے ہو (کہ مراد تہائی رات تک مؤخر کرکے پڑھنا ہے)۔ (ت)
(۱؎ شرح المواہب اللدنیہ ومنہا مجموع الصلواۃ الخمس المطبعۃ العامرہ مصر ۵/۴۲۶)
وثانیا: کیفما کان، ھذا حامل للوحی الامین علیہ الصلٰوۃ والسلام صلی الخمس یومین، فعجل مرۃ واخر اخری، ثم قال: ھذا وقت الانبیاء من قبلک ۱؎، فمن این ان اول من اخرھا نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال: ویدل لذلک (ای لما ادعی من الجمع) بل یصرح بہ قولہ اثر الطحاوی نفسہ العشاء الاٰخرۃ ۲؎ اھ۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جو صورت بھی ہو، بہرحال حامل وحی جبریل امین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو۲ دن پانچ پانچ نمازیں پڑھائیں، پہلے دن ہر وقت کے بالکل ابتدائی حصّے میں اور دوسرے دن ہر وقت کے انتہائی حصّے میں، پھر کہا کہ یہ آپ سے پہلے انبیاء کا بھی وقت ہے (پھر یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے سے مختص تھے) زرقانی نے کہا کہ اِس پر یعنی اس تطبیق پر کہ تہائی رات تک مؤخر کرنا مراد ہے دلالت کرتی ہے، بلکہ صراحت کرتی ہے، یہ چیز کہ طحاوی نے خود اپنے اثر میں العشاء الآخرۃ (آخری عشاء) ترکیب استعمال کی ہے (اس سے معلوم ہواکہ عشاء کا آخری حصہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیلئے مختص ہے)۔ (ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد اول کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان ۱/۵۶)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب ومنہا مجموع الصلوات الخمس مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۵/۴۲۶)
اقول: یاسبحٰن اللّٰہ! بل لادلالۃ فیہ اصلا، فضلا عن التصریح، فان العشاء الاٰخرۃ ھی العشاء مطلقا دون التی اخرت۔ تسمی الاٰخرۃ نظرا الی العشاء الاولی وھی المغرب، علیہ تظافر محاورات الحدیث۔ وفصل القول مالاحمد ومسلم والنسائی عن جابر جبن سمرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یؤخر العشاء الاٰخرۃ ۳؎۔
(۳؎ سنن نسائی کتاب المواقیت مایستحب من تاخیر العشاء مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور ۱/۶۳)
میں کہتا ہوں: اے سبحان اللہ! صراحت تو کیا، یہ ترکیب اس پر دلالت بھی نہیں کرتی کیونکہ ''عشاء آخرۃ'' مطلق عشاء کو کہتے ہیں نہ کہ اس عشا کو جو مؤخر کی گئی ہو۔ اس کو آخرہ اس بناء پر کہتے ہیں کہ عشاءِ اولٰی مغرب کو کہتے ہیں۔ اس پر حدیث کے بہت سے محاورات شاہد ہیں۔ اور احمد، مسلم، نسائی کی یہ روایت تو اس میں قولِ فیصل کا درجہ رکھتی ہے کہ جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: ''رسول اللہ آخری عشاء کو مؤخرکیا کرتے تھے''۔
واعظم منہ ماللترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ان اول وقت العشاء الاٰخرۃ حین یغیب الافق ۱؎۔ فالمقطوع بہ ان لااثر لھذہ الدلالۃ فی الکلام، ولوارادہ لقال ''اول من اخر العشاء'' وھذا ظاھر جدا۔
اس سے بھی زیادہ اصح وہ روایت ہے جو ترمذی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آخری عشاء کا وقت شفق غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے''۔ بہرحال اس کلام میں ''عشاء آخرہ'' کا تاخیرِ عشاء پر دلالت کرنا قطعی طور پر بے نشان ہے اگر یہ مراد ہوتی تو اثر کے الفاظ یہ ہوتے ''سب سے پہلے جس نے عشاء مؤخر کی'' اور یہ بہت ہی ظاہر ہے۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الصلوات باب ماجاء فی مواقیت الصلوات مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ امین کمپنی دہلی ۱/۲۲)
بالجملہ اس قدر بلاشبہہ ثابت کہ نمازِ عشاء ہم سے پہلے کسی اُمّت نے نہ پڑھی نہ کسی کو پانچوں نمازیں ملیں اور انبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ظاہراً راجح یہی ہے کہ عشاء ان میں بھی بعض نے پڑھی تو اثر مذکور امام طحاوی سے اجتماع خمس کو تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں ہمارے حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے خاص ثابت کرنا جس کا مدار اسی نفی عشاء عن سائر الانبیاء علیہم الصّلوٰۃ والثناء پر تھا تام التقریب نہیں کہ جب ہر نماز کسی نہ کسی نبی سے ثابت تو ممکن کہ بعض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے کبھی یا ہمیشہ پانچوں بھی پڑھی ہوں اگرچہ کسی اُمّت نے نہ پڑھیں یہاں تک کہ مغرب کی اولیت سیدنا عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام ہی کے لئے مانے جیسا کہ قول دوم وسوم میں آتا ہے جب بھی وہ احتمال مندفع نہیں ممکن کہ سیدنا عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی نے پانچوں پڑھی ہوں اور اس میں حکمت یہ ہوکہ وہ دنیا کی نظر ظاہر میں بھی صاحب صلوات خمس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اُمتی ہوکر زمین پر تشریف لانے والے ہیں اگرچہ حقیقۃً تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہمارے حضور نبی الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اُمتی ہیں انہیں نبوت دی ہی اس وقت ہے جب انہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اُمتی بنالیا ہے جس پر قرآن عظیم ناطق اور ہمارے رسالہ تجلی الیقین بان نبینا سیدالمرسلین میں اُس کی تفصیل فائق وللہ الحمد۔