Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
49 - 157
کہ بے قصد مراجعت عدّت بڑھانے کے لئے رجعت نہ کرو،
وقال تعالٰی : فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف ۱؎۔
جب طلاق والیاں اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ روک لو یا بھلائی کے ساتھ جُدا کردو۔ (ت)
 (۱؎ القرآن    ۶۵/۲)
ظاہر ہے کہ عورت جب عدّت کو پہنچ گئی نکاح سے نکل گئی اب رجعت کا کیا محل، اور اُسے روکنے چھوڑنے کا کیا اختیار، تو بالیقین قربِ وقت کو وقت سے تعبیر فرمایا ہے یعنی جب عدت کے قریب پہنچے اُس وقت تک تمہیں رجعت وترک دونوں کا اختیار ہے، یہ مثالیں تو آیاتِ قرآنیہ سے ہوئیں جنہیں امام طحاوی وغیرہ علماء مسئلہ وقتِ ظہر اور نیز اس مسئلہ میں افادہ فرماچکے۔ فقیر غفرلہ المولی القدیر احادیث سے بھی مثالیں اور علمائے قائلین بالجمع سے بھی اس معنی ومحاورہ کی تصریحیں ذکر کرے۔ فاقول وباللہ التوفیق:

حدیث ۱: جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے صبح اسرا بعد فرضیت نماز  اوقاتِ نماز معین کرنے اور اُن کا اوّل آخر بتانے کےلئے دو۲ روز حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امامت کی، پہلے دن ظہر سے فجر تک پانچوں نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسری دن ہر نماز آخر وقت، اس کے بعد گزارش کی:
الوقت مابین ھذین الوقتین ۲ ؎ ۔
وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہے۔ (ت)
 (۲؂ سُنن ابی داؤد    کتاب الصّلٰوۃ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۵۶)
اس حدیث میں ابوداؤد وترمذی وشافعی وطحاوی وابن حبان وحاکم کے یہاں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
صلی بی العصر حین کان ظلہ مثلہ فلما کان الغد صلی بی الظھر حین کان ظلہ مثلہ ۳؎۔
میرے ساتھ عصر کی نماز پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا، جب دُوسرا دن ہُوا تو ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سایہ ہر چیز کا اس کے برابر تھا۔ (ت)
 (۳؎ سُنن ابی داؤد    کتاب الصّلٰوۃ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۵۶)
ترمذی کے الفاظ یوں ہیں:
صلی المرۃ الثانیۃ، الظھر، حین کان ظل کل شیئ مثلہ، لوقت العصر بالامس ۴؎۔
دوسری مرتبہ ظہر کی نماز تب پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)
 (۴؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی مواقیت الصلٰوۃ     امین کمپنی دہلی    ۱/۲۱)
شافعی کے لفظ یہ ہیں : ثم صلی المرۃ الاخری، الظھر، حین کان کل شیئ قدرظلہ، قدر العصر بالامس ۱؎۔
پھر دوسری مرتبہ نماز پڑھی ظہر کی، جب ہر چیز اپنے سائے کے ساتھ برابر تھی یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)
(۱؎ الاُمّ للشافعی        جماع مواقیت الصلٰوۃ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۷۱)
حدیث ۲:نسائی وطحاوی وحاکم وبزار نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ھذا جبریل، جاء کم یعلمکم دینکم۔ وفیہ، ثم صلی العصر حین رأی الظل مثلہ، ثم جاء ہ الغد، ثم صلی بہ الظھر حین کان الظل مثلہ ۲؎۔
یہ جبریل ہیں، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں۔ اس روایت میں ہے کہ پھر عصر کی نماز پڑھی، جب دیکھا کہ سایہ ان کے برابر ہے۔ پھر دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور ظہر کی نماز پڑھی، جبکہ سایہ ان کے برابر تھا۔ (ت)
  (۲؎ سنن النسائی        آخر وقت الظہر    مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ، لاہور        ۱/۵۹)
بزار کے لفظ یوں ہیں : 

جاء نی، فصلی بی العصر حین کان فیئی مثلی، ثم جاء نی من الغد، فصلی بی الظھر حین کان فیئی مثلی ۳؎۔
جبریل میرے پاس آئے اور مجھے عصر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ میرے برابر تھا، پھر دوسرے دن آئے اور ظہر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ میرے برابر تھا۔ (ت)
 (۳؎ کشف الاستار عن زوائد البزّار باب ای حین یصلی    مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان    ۱/۱۸۷)
حدیث ۳:نیز نسائی وامام احمد واسحٰق بن راہویہ وابن حبان وحاکم جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
ان جبریل اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی العصر، ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ۱؎۔
جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور عصر کی نماز نہ پڑھی، پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور ظہرکی نماز پڑھی۔ (ت)
 (۱؎ سنن النسائی     آخر وقت العصر    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۰)
حدیث ۴:امام اسحٰق بن راہویہ اپنی مسند میں حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بطریق حدثنا بشر بن عمرو النھرانی ثنی مسلمۃ بن بلال ثنا یحیٰی بن سعید ثنی ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابی مسعود الانصاری ۲؎ او ر بیہقی کتاب المعرفۃ میں بطریق ایوب بن عتبۃ ثنا ابوبکر بن عمروبن حزم عن عروہ بن الزبیر عن ابن ابی مسعود عن ابیہ ۳؎ راوی اور یہ لفظ حدیث اسحٰق ہیں:
قال: جاء جبریل الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فقال: قم، فصل! وذلک لدلوک الشمس حین مالت، فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فصلی الظھر اربعا، ثم اتاہ حین کان ظلہ مثلہ، فقال: قم، فصل! فقام فصلی العصر اربعا، ثم اتاہ من الغد حین کان ظلہ مثلہ، فقال لہ: قم فصل! فقام فصلی الظھر اربعا ۴؎۔
کہا: جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! اور یہ سُورج ڈھلنے کا وقت تھا، جب وہ ایک طرف جھُک گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوبارہ آئے جب اُن کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! تو آپ نے اٹھ کر عصر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوسرے دن آئے، جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے، تو آپ نے اُٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ (ت)
)۲؎ مسند ابن اسحاق)	

(۳؎ کتاب المعرفۃ)

(۴؎ مسند ابن اسحاق)
حدیث ۵:ابن راہویہ مسند میں عبدالرزاق سے اور عبدالرزاق مصنف میں بطریق اخبرنا معمر عن عبداللّٰہ بن ابی بکر بن محمد بن عمروبن حزم عن ابیہ عن جدّہ ۵؎ عمروبن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال: جاء جبریل، فصلی بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، وصلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالناس، حین زالت الشمس، الظھر، ثم صلی العصر حین کان ظلہ مثلہ، قال: ثم جاء جبریل من الغد، فصلی الظھر بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، وصلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالناس، الظھر، حین کان ظلہ مثلہ ۱؎۔
کہا: جبریل آئے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظہر کی نماز پڑھائی اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی جب سورج کا زوال ہوگیا تھا، پھر عصر پڑھی جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا۔ راوی نے کہا: پھر دوسرے دن جبریل آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تھا۔ (ت)
 (۵؎ المصنف لعبد الرزاق    باب المواقیت    مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱/۵۳۴)

(۱؎ المصنف لعبدالرزاق    باب المویقیت    مطبوعہ المکتب اسلامی بیروت        ۱/۴۳۵)
حدیث ۶:دارقطنی سنن اور طبرانی معجم کبیر اور ابن عبدالبر تمہید میں بطریق ایوب بن عتبۃ عن ابی بکر بن حزن عن عروۃ بن الزبیر حضرت ابو مسعود انصاری وبشیر بن ابی مسعود دونوں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
ان جبریل جاء الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حین دلکت الشمس، فقال: یامحمد! صل الظھر، فصلی؛ ثم جاء حین کان ظل کل شیئ مثلہ، فقال: یامحمد! صل العصر، فصلی، ثم جاء ہ الغد حین کان ظل کل شیئ مثلہ، فقال: صلی الظھر۔ الحدیث ۲؎۔
جبریل، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جب سورج ڈھل چکا تھا اور کہا: یامحمد! ظہر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے ظہر پڑھی۔ پھر دوبارہ آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا: یا محمد! عصر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے عصر پڑھی۔ پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا: ظہر پڑھئے! الحدیث۔ (ت)
 (۲؎ المعجم الکبیر للطبرانی    مسند ابومسعود انصاری    حدیث ۷۱۸    مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۸/۲۶۰(
والکل مختصر ان سب حدیثوں میں کل کی عصر کی نسبت یہ ہے کہ جب سایہ ایک مثل ہوا نماز پڑھائی اور بعینہٖ یہی لفظ آج کی ظہر میں ہیں کہ جب سایہ ایک مثل ہُوا پڑھائی اور روایت ترمذی تو صاف صاف ہے کہ آج کی ظہر اُس وقت پڑھی جس وقت کل عصر پڑھی تھی حالانکہ مقصود اوقات کی تمیز اور ہر نماز کا اول وآخر وقت میں جداجدا بنانا ہے لاجرم امام ابوجعفر وغیرہ نے ظہر امروزہ میں ان لفظوں کے یہی معنی لیے کہ جب سایہ ایک مثل کے قریب آیا پڑھائی،
معانی الآثار میں فرمایا: احتمل ان یکون ذلک علی قرب ان یصیر ظل کل شیئ مثلہ، وھذا جائز فی اللغۃ، قال عزوجل، فذکر الایۃ، وشرح المراد، وافاد واجاد ۱؎۔
احتمال ہے کہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی ہو جب ہر چیزکا سایہ اس کے برابر ہونے کے قریب ہو۔ اور یہ لغت کے اعتبار سے جائز ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یہاں طحاوی نے آیت ذکر کی (یعنی فاذا بلغن اجلھن) اور مراد کی تشریح کی اور مفید وعمدہ گفتگو کی۔ (ت)
 (۱؎ شرح معانی الاثار    باب مواقیت الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی    ۱/۱۰۳(
Flag Counter