Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
48 - 157
روایت (۷) نسائی:

اخبرنا اسحٰق بن ابرھیم ثنا سفیٰن عن ابن ابی نجیح عن اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن عن شیخ من قریش، قال: صحبت ابن عمر الی الحمی، فلما غربت الشمس، ھبت ان اقول لہ: الصلاۃ، فسار حتی ذھب بیاض الافق وفحمۃ العشاء، ثم نزل فصلی المغرب ثلث رکعات، ثم صلی رکعتین علی اثرھما، قال: ھکذا ارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یفعل ۱؎۔
خبر دی ہمیں اسحٰق ابن ابراہیم نے سفیان سے، اس نے ابونجیح سے، اس نے اسمٰعیل ابن عبدالرحمان سے جو کہ ایک قریشی شیخ ہے کہ میں ابن عمر کے ساتھ تھا جب وہ چراگاہ کو گئے اور سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے میں ان کو نماز کے بارے میں نہ کہہ سکا چنانچہ وہ چلتے رہے یہاں تک کہ اُفق کی سفیدی ختم ہوگئی اور عشاء کی سیاہی ماند پڑگئی، اس وقت اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر متصلاً (عشاء کی) دو رکعتیں پڑھیں کہ کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے دیکھا ہے۔ (ت)
 (۱؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت، الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۹)
بظاہر زیادہ مستحقِ جواب یہی تین روایتیں تھیں مگر فقیر بعون الملک القدیر عزوجل وہ جوابات شافیہ وکافیہ وتقریرات صافیہ ووافیہ بیان کرے کہ یہ ساتوں طرق اور ان کے سوا اور بھی کچھ ہو تو سب کو بحول اللہ تعالٰی کفایت کریں۔

فاقول وباللہ التوفیق وبہ العروج علی اوج التحقیق۔

جواب اوّل اسی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے طرق کثیرہ جلیلہ صحیحہ کہ سابقاً ہم نے ذکر کیے صاف دواشگاف بآواز بلند تصریحات قاہرہ فرمارہے ہیں کہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے نمازِ مغرب غروبِ شفق سے پہلے پڑھی اور عشاء غروبِ شفق کے بعد، اور اسی کو حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا اُن روایات صحاح وحسان وجلیلۃ الشان پر پھر نگاہِ تازہ کیجئے۔ امام سالم صاحبزادہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم اپنی روایات مرویہ صحیح بخاری وسُنن نسائی وصحیح اسمٰعیلی وغیرہا میں فرمارہے ہیں کہ دو تین میل چل کر جب تارے کھل آئے اُتر کر مغرب پڑھی پھر ٹہر کر عشاء۔ عبداللہ واقد شاگرد حضرت ابن عمر اپنی روایات مرویہ سنن ابی داؤد میں روشن تر فرماتے ہیں کہ غروبِ شفق سے پہلے اُتر کر مغرب پڑھی پھر منتظر رہے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشاء پڑھی، طرفہ یہ کہ وہی امام نافع تلمیذ خاص ورفیق سفر وحضر ابن عمر کہ ان غروب شفق والی سات روایتوں میں چار اُنہیں سے ہیں وہی وہاں اپنی روایات کثیرہ مرویہ سُنن ابی داؤد وسنن نسائی وغیرہا میں یوں ہی واضح وجلی تر فرمارہے ہیں کہ جب تک مغرب پڑھی ہے شفق ہرگز نہ ڈوبی تھی بلکہ بعد کو بھی انتظار فرمانا پڑا جب ڈوب گئی اُس وقت عشا کی تکبیر کہی اور اوّل تا آخر ان سب روایات میں تصریح صریح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے بلکہ حدیث امام سالم میں یوں ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جسے جلدی ہو وہ اس طرح پڑھا کرے، للہ انصاف! ان صاف الفاظ مفسر نصوص میں کہیں بھی گنجائشِ تاویل وتبدیل ہے اور شک نہیں کہ قصّہ صفیہ زوجہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم جو وہاں اور یہاں دونوں طرف کی روایات میں مذکور ایک ہی بار تھا بلکہ انہیں امام نافع سے مروی کہ ابن عمر سے عمر بھر میں صرف اسی بار جمع معلوم ہے اس کے سوا کسی سفر میں انہیں جمع کرتے نہیں دیکھا، سُنن ابی داؤد میں بطریق امام ایوب سختیانی مذکور:
انہ لم یرابن عمر جمع بینھما قط، الاتلک اللیلہ، یعنی لیلۃ استصرخ علی صفیۃ ۱؎ اھ اماما قال: وروی من حدیث مکحول عن نافع: انہ رأی ابن عمر فعل ذلک مرۃ اومرتین ۲؎۔ اھ فاقول: فیہ شک والشک لایعارض الجزم۔
کہ اس نے ابن عمر کو کبھی دو۲ نمازیں جمع کرتے نہیں دیکھا مگر اس رات۔ یعنی صفیہ کی بیماری کی اطلاع والی رات۔

اور وہ جو اس نے کہا ہے کہ مکحول کی حدیث میں نافع سے مروی ہے کہ اس نے ابن عمر کو ایک بار جمع کرتے دیکھا تھا یا دوبار، تو میں کہتا ہوں کہ اس میں شک ہے اور شک سے یقین کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا۔ (ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۱)

(۲  ؎سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/  ۱۷۱)
حدیث نسائی وطحاوی میں انہیں امام نافع سے گزرا کہ میں نے اُن کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے۔ 

حدیث کتاب الحجج میں انہیں نافع سے تھا کہ ابن عمر اذان ہوتے ہی مغرب کے لئے اُترے اس بار دیر لگائی، روایت نسائی وطحاوی وحجج میں تھا ہمیں گمان ہوا کہ اس وقت نماز اُنہیں یاد نہ رہی یہ سب اُسی قول نافع کے مؤید ہیں معہذا شک نہیں کہ اصل عدم تعدد ہے تو جب تک صراحۃً تعدد ثابت نہ ہوتا اُس کے ادعا کی طرف راہ نہ تھی خصوصاً مستدل کو جسے احتمال کافی نہیں دفع تعارض کےلئے اس کا اختیار اس وقت کام دیتا کہ خود قصہ صفیہ میں دونوں روایات صحیحہ قبل غروب وبعد غروب موجود نہ ہوتیں۔
فسقط ماالتجأ الیہ بعض المتأخرین، من العلماء المخالفین فی المسألۃ، ظنا منہ انہ یدرؤبہ التعارض، وماکان لیندرئ بہ۔
وہ توجیہ ساقط ہوگئی جس کو اس مسئلے کے مخالف علماء متاخرین نے اس خیال سے اختیار کیا ہے کہ اس طرح تعارض رفع ہوجائیگا، حالانکہ اس توجیہ سے تعارض رفع نہیں ہوتا۔ (ت)

ناچار خود ملّاجی کو بھی ماننا پڑا کہ یہ سب طرق وروایات ایک ہی واقعے کی حکایات ہیں۔ قصہ صفیہ میں حدیث سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم بطریق کثیر بن قارؤندا مروی سنن نسائی پر براہِ عیاری بھی جب کوئی طعن نہ گھڑ سکے تو اُسے مخالف حدیث شیخین ٹہرا کر رَد کردیا کہ اس میں مغرب کا بین الوقتین پڑھنا ہے اور ان میں بعد غروب شفق، لہذا یہ شاذو مردود ہے جس کی نقل لطیفہ ہفتم افادہ یکم میں گزری حالانکہ حدیث مسلم کے لفظ ابھی سُن چکے اُس میں قصہ صفیہ کا ذکر نہیں، تو جب تک روایت مطلقہ بھی اسی قصہ صفیہ پر محمول نہ ہو حدیث قصہ صفیہ کو مخالف روایت شیخین کہنا چہ معنی بالجملہ اس حدیث کی اتنی روایات کثیرہ میں یہ تصریح صریح ہے کہ مغرب غروبِ شفق سے پہلے پڑھی اور اسی کی اُن روایات میں یہ کہ شفق ڈوبے پر پڑھی اور دونوں جانب طرق صحاح وحسان ہیں جن کے رَد کی طرف کوئی سبیل نہیں، تو اب یہ دیکھنا واجب ہوا کہ ان میں کون سا نص مفسر ناقابلِ تاویل ہے جسے چارو ناچار معتمد رکھیں اور کون سا محتمل کہ اُسے مفسر کی طرف پھیر کر رفع تعارض کریں ہر عاقل جانتا ہے کہ ہماری طرف کے نصوص اصلاً احتمال معنی خلاف نہیں رکھتے شفق ڈوبنے سے پہلے پڑھی اتنے ہی لفظ کے یہ معنی کسی طرح نہ ہوسکتے کہ جب شفق ڈوب گئی اُس وقت پڑھی نہ یہ کہ جب اُس کے ساتھ یہ تصریحات جلیہ ہوں کہ پھر مغرب پڑھ کر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اس کے بعد عشا پڑھی ان لفظوں کو کوئی نیم مجنون بھی مغرب بعدِ شفق پڑھنے پر عمل نہ کرسکے گا، ہاں پُورے پاگل میں کلام نہیں مگر اُدھر کے نصوص کہ چلے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی پھر مغرب پڑھی یا جمع کی یا بعد غروب شفق اُتر کر جمع کی یہ اچھے خاصے محتمل وصالح تاویل ہیں جن کا اُن نصوص صریح مفسرہ سے موافق ومطابق ہوجانا بہت آسان۔ عربی فارسی اردو سب کا محاورہ عامہ شائعہ مشہورہ واضحہ ہے کہ قربِ وقت کو اس وقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ عصر کے اخیر وقت کہتے ہیں شام ہوگئی حالانکہ ہنوز سورج باقی ہے۔ کسی سے اوّل وقت آنے کا وعدہ تھا وہ اس وقت آئے تو کہتے ہیں اب سُورج چھپے آئے۔ قریب طلوع تک کوئی سوتا ہوتو اُسے اُٹھانے میں کہیں گے سُورج نکل آیا۔ شروع چاشت کے وقت کسی کام کو کہا تھا مامور نے قریب نصف النہار آغاز کیا تو کہیے گا اَب دوپہر ڈھلے لے کر بیٹھے۔ ان کی صدہا مثالیں ہیں کہ خود ملّاجی اور اُن کے موافقین بھی اپنے کلاموں میں رات دن اُن کا استعمال کرتے ہوں گے۔ بعینہٖ اسی طرح یہ محاورے زبان مبارک عرب خود قرآن عظیم واحادیث میں شائع وذائع ہیں، قال اللہ تعالٰی:
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف ۱؎۔
جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی میعاد کو پہنچ جائیں تو اب انہیں اچھی طرح اپنے نکاح میں روک لو یعنی رجعت کر لو یا اچھی طرح چھوڑدو۔
(۱؎ القرآن    ۲/۲۳۱)
Flag Counter