فصل سوم تضعیف دلائل جمع تاخیر
الحمداللہ جمع تقدیم کے جواب سے فراغِ تام ملا، اب جمع تاخیر کی طرف چلیے۔ ملّاجی بہزار کاوش وکاہش یہاں بھی دو۲ ہی حدیثیں چھانٹ پائے جن کے الفاظ متعددہ کے ذکر سے شاید عوام کو یہ وہم دلانا ہوکہ اتنی حدیثیں ہیں، یہ دو۲ حدیثیں وہی احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم مذکورہ صدر فصل اول وافاضہ ثالثہ ہیں جن کے بعض طرق والفاظ حدیث اول جمع صوری وحدیث اول ودوم حدیث مجملہ میں گزرے ان کے بعض الفاظِ بعض طرق کوملّاجی جمع حقیقی میں نص صریح سمجھ کر لائے اور بزعمِ خود بہت چمک چمک کر دعوے فرمائے ادھر کے متکلمین نے اکثر افادات علمائے سابقین اور بعض اپنے سوانح جدیدہ سے اُن کے جوابوں میں کلام طویل کیے، فقیر غفرلہ المولی القدیر کا یہ مختصر جواب نقل اقاویل وجمع ماقال وقیل کےلئے نہیں لہذا بعونہٖ تعالٰی وہ افادات تازہ سُنیے کہ فیض مولائے اجل سے قلب عبدِ اذل پر فائض ہُوئے اہلِ نظر اگر مقابلہ کریں جلیل وعظیم فرق پر خود ہی مطلع ہوں گے
واللّٰہ یختص برحمتہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم
(اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص فرمادے اور اللہ تعالٰی علم وفضل والا ہے۔ ت)
اقول وبحول اللّٰہ اصول حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے چالیس سے زیادہ طرق اس وقت پیشِ نظر فقیر ہیں اُن میں نصف سے زائد تو محض مجمل جن میں اٹھارہ کی طرف ہم نے احادیث مجملہ میں اشارہ کیا ر ہے نصف سے کم اُن میں اکثر صاف صاف جمع صوری کی تصریح کررہے ہیں جن میں سے چودہ۱۴ روایات بخاری وابوداؤد ونسائی وغیرہم سے اُوپر مذکور ہُوئے، ہاں بعض میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بعد غروب شفق جمع کرنا مذکور، ان میں بھی بعض محض موقوف مثل روایت(۱) موطائے امام محمد:
اخبرنا مالک عن نافع ان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالی عنھما حین جمع بین المغرب والعشاء، سارحتی غاب الشفق ۱؎۔
مالک، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب مغرب وعشاء کو جمع کیا تھا تو چلتے رہے تھے یہاں تک شفق غائب ہوگئی تھی۔ (ت)
(۱؎ مؤطا امام محمد باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر مطبوعہ مجتبائی لاہور ص۱۳۱)
اور بعض میں رفع ہے تو بالفاظ اجمال یعنی حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تصریحاً اسی قدر منقول کہ جمع فرمائی قدر مرفوع میں غیبت شفق پر تنصیص نہیں مثل روایت(۲) بخاری:
حدثنا سعید بن ابی مریم اخبرنا محمد بن جعفر قال اخبرنی زید، ھو ابن اسلم، عن ابیہ، قال: کنت مع عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما بطریق مکّۃ، فبلغہ عن صفیۃ بنت ابی عبید شدۃ وجع، فاسرع السیر، حتی اذاکان بعد غروب الشفق، ثم نزل فصلی المغرب والعتمۃ، یجمع بینھما، فقال: انی رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر اخر المغرب وجمع بینھما ۱؎۔
حدیث بیان کی ہم سے سعید ابن ابی مریم نے، اس کو خبر دی محمد ابن جعفر نے، اس کو زید بن اسلم نے اپنے والدی سے کہ میں مکّہ کے راستے میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تھا تو ان کو صفیہ بنت ابی عبید کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ سخت درد میں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اترے اورمغرب وعشاء کی نماز پڑھی، دونوں کو جمع کیا، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب انہیں سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب کو مؤخر کرکے دونوں کو جمع کرلیتے تھے۔ (ت)
وروایت(۳) مسلم:حدثنا محمد بن مثنی نایحیی عن عبیداللّٰہ عن نافع ان ابن عمر کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء، بعد ان یغیب الشمس، ویقول: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء ۲؎۔ ورواہ الطحاوی فقال: حدثنا ابن ابی داؤد ثنا مسدد ثنا یحییی ۳؎ بہ، سنداً ومتنا۔
حدیث بیان کی ہم سے محمد ابن مثنٰی نے یحٰیی سے، اس نے عبیداللہ سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو شفق غائب ہونے کے بعد مغرب وعشا کو جمع کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب وعشاء کو جمع کرلیتے تھے۔ طحاوی نے بھی ابن ابی داؤد سے، اس نے مسدد سے، اس نے یحیٰی سے یہی روایت کی ہے، ایک ہی سند اور متن کے ساتھ۔ (ت)
(۲؎ صحیح لمسلم باب جواز الجمع بین الصلاتین فی السفر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲۴۵)
(۳؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین کیف ھو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱۲)
وروایت(۴) ابی داؤد:حدثنا سلیمٰن بن داود العتکی نا عماد نا ایوب عن نافع ان ابن عمر، استصرخ علی صفیۃ، وھو بمکۃ، فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم، فقال: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امر فی سفربین ھاتین الصلاتین،فسار حتی غاب الشفق، فنزل فجمع بینھما ۱؎۔
حدیث بیان کی ہم سے سلیمان ابن داؤد عتکی نے عماد سے، اس نے ایوب سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر جب مکّہ میں تھے تو ان کو صفیہ کی شدید بیماری کی اطلاع ملی اور وہ چل پڑے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے، تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں کسی کام کی جلدی ہوتی تھی تو ان دو۲ نمازوں کو جمع کرلیتے تھے۔ پھر چلتے رہے، یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو اُترے اور دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)
(۱؎ سُنن ابی داؤد باب الجمع بین الصلاتین مطبوعہ مجتبائی لاہور ۱/۱۷۰)
ضمیر سار ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی طرف ہے بدلیل روایت طحاوی:حدثنا ابن مرزوق ثنا عازم بن الفضل ثنا حماد بن زید عن ایوب عن نافع ان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما، استصرخ علی صفیۃ بنت عبید، وھو بمکۃ، فاقبل الی المدینۃ، فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم، وکان رجل ءیصحبہ، یقول: الصلاۃ 'الصلاۃ، وقال لہ سالم: الصلاۃ، فقال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، کان اذاعجل بہ السیر فی سفر جمع بین ھاتین الصلاتین، وانی ارید ان اجمع بینھما، فسار حتی غاب الشفق، ثم نزل فجمع بینھما ۲؎۔
حدیث بیان کی ہم سے ابن مرزوق نے عازم ابن فضل سے، اس نے حماد ابن زید سے، اس نے ایوب سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکّہ میں تھے تو آپ کو صفیہ بنت ابی عبید کی شدید علالت کی خبر ملی۔ چنانچہ آپ مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے اور مسلسل چلتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ابن عمر کے ساتھ ایک شخص تھا جو کہہ رہا تھا ''نماز، نماز''۔ سالم نے بھی کہا ''نماز'' (یعنی نماز کا وقت جارہا ہے) تو ابن عمر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو ان دو۲ نمازوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے اور میں بھی چاہتا ہوں کہ اکٹھّا پڑھ لُوں۔ پھر چلتے رہے، یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی، اس وقت اتر کر دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)
(۲؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱۲)
ولہذا امامِ اجل ابوجعفر اس حدیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں:انما اخبر بذلک من فعل ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، وذکر عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الجمع، ولم یذکر کیف جمع ۳؎۔0
اس میں تو صرف ابنِ عمر کا عمل مذکور ہے اور انہوں نے اگرچہ یہ تو بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمع کیا کرتے تھے مگر یہ ذکر نہیں کیا کہ کیسے جمع کیا کرتے تھے۔ (ت)
(۳؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱۲)
البتہ غیر صحیحین کی بعض روایات میں فعل یکتف کی طرف اشارہ کرکے رفع ہے وہ یہ ہیں، روایت(۵) ابی داؤد:
حدثنا عبدالملک ابن شعیب ناابن وھب عن اللیث، قال: قال ربیعۃ، یعنی کتب الیہ، حدثنی عبداللّٰہ بن دینار، قال: غابت الشمس، وانا عند عبداللّٰہ بن عمر، فسرنا، فلما رأیناہ قدامسی، قلنا: الصلاۃ، فسار حتی غاب الشفق وتصوبت النجوم، ثمّ انہ نزل فصلی صلاتین جمیعا، ثم قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر صلی صلاتی ھذہ، یقول یجمع بینھما بعد لیل ۱؎۔
حدیث بیان کی ہم سے عبدالملک ابن شعیب نے، اس نے ابن وہب سے، اس نے لیث سے، اس نے کہا کہ ربیعہ، نے میری طرف لکھا کہ عبداللہ ابن دینار نے مجھے بتایا ہے کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا کہ سُورج ڈوب گیا تو ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب شام ہوگئی تو ہم نے کہا ''نماز''۔ مگر وہ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوئی اور تارے نمایاں ہوگئے، اس وقت آپ اُترے اور دونوں نمازیں اکٹھی پڑھیں، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تھی تو جس طرح میں نے نماز پڑھی ہے اسی طرح آپ بھی پڑھا کرتے تھے، یعنی رات ہونے کے بعد اکٹھا پڑھتے تھے۔ (ت)
(۱؎ سُنن ابی داؤد باب الجمع بین الصلاتین مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۷۲)
روایت(۶) ترمذی:حدثنا ھناد نا عبدۃ عبیداللّٰہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما،انہ استغیث علی بعض اھلہ فجدبہ السیر ،واٰخر المغرب حتی غاب الشفق، ثم نزل فجمع بینھما، ثم اخبرھم: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان یفعل ذلک اذاجدبہ السیر۔ قال ابوعیسی: ھذا حدیث حسن صحیح ۲؎۔
حدیث بیان کی ہم سے ہناد نے عبدۃ سے، اس نے عبیداللہ بن عمر سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے اہل خانہ میں سے کسی کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تو تیزی سے روانہ ہُوئے اور مغرب کو اتنا مؤخر کیا کہ شفق ڈوب گئی، پھر دونوں کو ملاکر پڑھا، بعد میں ساتھیوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو اسی طرح کرتے تھے۔ ابوعیسٰی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ت)
(۲؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بین الصلاتین مطبوعہ امین کمپنی دہلی ۱/۷۲)