Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
46 - 157
اُسی ميں ہے: قال ابوحاتم: صدوق، يکتب حديث ولايحتج بہ ۳؎
(ابوحاتم نے کہا ہےکہ سچّا ہے، اس کی حديث لکھی جائے مگر اس کو حجت نہ بنايا جائے۔ ت)
 (۳؎  تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری    مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن ۴/۳۰۱)
اُسی ميں ہے: قال ابوبکر الاثرم عن احمد بن حنبل: کان يدعو الی الارجاء، وحکی عنہ قول اخبث من ھذہ الاقاويل، قال: اذا قال فقد عمل بجارحتہ۔ وھذا قول خبيث، ماسمعت احدا يقولہ ۱؎۔
ابوبکر اثرم نے احمد بن حنبل سے نقل کيا ہے کہ اسحٰق عقيدہ ارجاء کی دعوت ديتا تھا اور اس سے ايک ايسا قول بھی منقول ہے جو ان تمام باتوں سے زيادہ خبيث ہے۔ اس نے کہا کہ جب (اللہ تعالٰی) کوئی بات کہتا ہے تو يقينا اپنے ايک عضو (زبان) کو کام ميں لاتا ہے۔ يہ ايک خبيث قول ہے، ميں نے کسی کو يہ بات کہتے نہيں سُنا۔ (ت)
 (۱؎تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن    ۴/۳۰۲)
اُسی ميں ہے:قال ابوبکر محمد بن ابی الثلج، حدثنی ابوعلی بن سختی المدائنی، حدثنی رجل معروف من اھل المدائن، قال: رأيت فی المنام رجلا نظيف الثوب حسن الھيأۃ، فقال لی: من اين انت؟ قلت: من اھل المدائن، قال: من  اھل الجانب الذی فيہ شبابۃ؟ قلت: نعم! قال فانی ادعو اللّٰہ، فامن علی دعائی: اللھم! ان کان شبابۃ يبغض اھل نبيک فاضربہ الساعۃ  بفالج قال: فانتبھت، وجئت الی المدائن  وقت الظھر، واذا  الناس فی ھرج، فقلت، ماللناس؟ قالوا: فلج شبابۃ فی السحر،  ومات الساعۃ ۲؎۔
ابوبکر محمد بن ابی الثلج نے کہا کہ مجھے ابوعلی ابن سختی مدائنی نے بتایا کہ مجھ سے مدائن کے ايک مشہور آدمی نے بيان کيا کہ ميں نے خواب ميں ايک خوش لباس اور خوش شکل شخص کو ديکھا اس نے مجھ سے پُوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ ميں نے کہا ميں ا ہلِ مدائن ميں سے ہوں۔ اس نے پوچھا مدائن کے اُس حصے ميں رہتے ہو جس ميں ابوشبابہ  رہتا ہے؟ ميں نے کہا ہاں، اس نے کہا کہ پھر ميں ايک دعا کرتا ہوں اور تم آمين کہو۔ (اس نے يوں دُعاکی:) اے اللہ! اگر شبابہ تيرے نبی کے اہل سے بغض رکھتا ہے تو اس کو اسی وقت فالج ميں مبتلا کردے۔ اس آدمی نے کہا کہ يہ ديکھ کر ميں جاگ گيا اور ظہر کے وقت مدائن (کے اس حصّے ميں جہاں شبابہ رہتا تھا) گيا تو ديکھا کہ لوگوں ميں اضطراب پايا جاتا ہے، ميں نے پوچھا کہ لوگ کيوں پريشان ہيں؟ انہوں نے جواب ديا کہ آج سحر کے وقت شبابہ پر فالج گرا اور ابھی ابھی مرگيا ہے۔ (ت)
 (۲؎ تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن    ۴/۳۰۲)
روايت حاکم وطبرانی کو خود مُلّاجی بھی ضعيف مان چکے، فرماتے ہيں ف ۱: مؤلف نے دلائل ميں وہ حديثيں بيان کی ہيں جن کی طرف ہم کو کچھ التفات نہيں يعنی ايک روايت ابوداؤد جس کے راوی ميں ضعف تھا ايک روايت معجم اوسط طبرانی ايک روايت اربعين حاکم نقل کرکے اُن پر طعن کرديا اور جو روايتيں صحيحہ متداول تھيں نقل کرکے اُن کا جواب نہيں ديا يہ کيا دينداری ہے اور کيا مردانگی کہ بخاری ومسلم کو چھوڑ کر اربعين حاکم اور اوسط طبرانی کو جاپکڑا اور اُن سے دو۲ روايتيں ضعيف نقل کرکے اُن کا جواب ديا۔
 (ف۱ معيار الحق    ص ۳۶۵، ۳۶۶    )
لہذا ہميں ان کے باب ميں تفصيل کلام کی حاجت نہ رہی ع : مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تيری 

خير يہ تو ملّاجی سے خدا جانے کس مجبوری نے کہلوا چھوڑ مگر ستم۔
لطيفہ: اس مافات کی تلافی يہ ہے کہ جب يہ روايتيں ناقابل احتجاج نکل گئيں خود روايت صحيحين ميں لفظ والعصر بڑھاديا، فرماتے ف۲  ہيں روايت کی بخاری اور مسلم نے انس سے
(الی قولہ) فان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب۔
   (ف۲ معيارالحق    ص ۳۷۹)
اقول: ملّاجی حنفیہ کی مروی تو بحمداللہ آپ نے دیکھ لی اب بعونہٖ تعالٰی اور دیکھئے گا یہاں تک کہ آپ کی سب ہوسوں کی تسکین ہوجائے مگر دینداری  و مردانگی اس کا نام ہوگا کہ مشہور و متداول کتب میں تحریف کےلئے مردانہ پن کا دعوٰی ہے تو صحیحین میں اس عبارت کا نشان دیجئے ایک زمانہ میں آپ کو خبط کفری جاگا تھا کہ زمین کے طبقاتِ زیریں میں حضور پُرنور منزہ عن المثل والنظیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معاذاللہ چھ مثل موجود ہیں یہ بخاری مسلم شاید  اُنہیں طبقات کی ہوں گی۔



ثم اقول: وباللہ التوفیق یہ سب کلام بالائی تھی فرض کرلیجئے کہ یہ روایت صحیحہ بلکہ خود صحیحین  موجود سہی پھر تمھیں کیا نفع اور ہمیں کیا ضرر اُس کا تو اتنا حاصل کہ سورج منزل ہی میں ڈھل جاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر سوار ہوتے اس سے عصر کا پیش از وقت پڑھ لینا کہاں سے نکلا۔
اوّلا :واو مطلق جمع کےلئے ہے نہ معیت وتعقیب کے واسطے، جمیعا بھی اُسی مطلق جمع کی تاکید کرتا ہے جو مفاد واو ہے اُس کا منطوق صریح اجتماع فی الحکم ہے عـہ نہ خواہی نخواہی اجتماع فی الوقت آیہ کریمہ
وتوبوا الی اللّٰہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون ۲؂
(اور توبہ کرو اللہ تعالٰی کی طرف تم سب اے اہلِ ایمان! تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ت)
 (۱؎القرآن    ۴ ۲/۳۱ )
نے یہ ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان توبہ کریں حکمِ توبہ سب کو شامل ہو یا یہ فرض کیا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک وقت ایک ساتھ مل کر معاً توبہ کریں۔
عـہ: بیضاوی شریف میں زیر آیہ کریمہ قلنا اھبطوا منھا جمیعا ہے: جمیعا،حال فی اللفظ، تاکید فی المعنی، کانہ قیل: اھبطوا انتم اجمعون؛ ولذلک لایستدعی اجتماعھم علی الھبوط فی زمان واحد کقولک جاؤا جمیعا۔۱؎ اھ ۱۲ منہ رضی جاللّٰہ تعالٰی عنہ (م)۔

''جمیعا'' لفظاً حال ہے، معنیً تاکید ہے، گویا کہ کہا گیا، تم سب اترو۔ اسی لئے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سب ایک ہی وقت میں اتریں، جیسا کہ تم کہتے ہو کہ سب آئے اھ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۲؎ انوار التنزیل علی ہامش القرآن الکریم     مصطفی البابی مصر    ص ۱۸)
ثانیاً :اجتماع فی الوقت کہ بذریعہ فردیتِ اجتماع فی الحکم مفاد ہویا خود اس کے لئے بھی وضع مانو اُس وقت سے وقتِ نماز مراد نہیں ہوسکتا کہ وضع الفاظ تعیین اوقات نماز سے مقدم ہے لفظ جمیعا اپنے معنی لغوی پر اہل جاہلیت بھی بولتے تھے جنہیں نماز سے خبر تھی نہ اُس کے وقت سے، تو لاجرم اس تقدیر پر اس کا مفاد اتحاد زمانہ وقوع ومقارنت فی الصدور ہوگا وہ دو۲ نماز فرض میں ناممکن اور اتصال بروجہ تعقیب اس معنی جمیعا کا فرد نہیں بلکہ صریح مباین، لاجرم پھر اُسی معنی واضح وروشن واقل متیقن یعنی اجتماع فی الحکم کی طرف رجوع لازم کہ تاصحت حقیقت مجاز کی طرف مصیر  نامجاز خصوصاً مستدل کو۔
ثالثاً :تعقیب ہی سہی پھر جمع صوری کی نفی کہاں سے ہوئی صلّی جمیعا یوں بھی صادق اور ادعائے تقدیم باطل وزاہق ھکذا ینبغی  التحقیق  واللّٰہ  ولی التوفیق بحمداللہ  آفتاب کی طرح روشن ہُوا کہ جمع تقدیم پر اصلاً کوئی دلیل نہیں کسی حدیث صحیح میں اس کی بُو بھی نہیں، ملّاجی کا قطعی ومفسر کہہ دینا خدا جانے کس نشہ کی ترنگ تھی، سبحٰن اللہ! کیا ایسی ہی ہوسوں  پر توقیت منصوص قرآن ونصوص اور پیش ازوقت نماز کے بطلان پر اجماعِ اُمت ترک کردئی جائیں گے اور خدا ورسول جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باندھے ہُوئے اوقات اُلٹ پُلٹ ہوسکیں گے، یہ اچھا عمل بالحدیث ہے کہ اپنی خیال بندیوں  پر  رگ دعوٰی بلند اور قرآن عظیم وحدیث واجماع سب سے آنکھیں بند ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید المرسلین سیدنا ومولانا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔
Flag Counter