Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
45 - 157
ولہذا نافيان جمع تقديم نے اُس سے تمسک کيا کمافی عمدۃ القاری وارشاد الساری وغيرھما مگر بعض روايات غريبہ ميں آيا کہ ظہر وعصر دونوں پڑھ کر سوار ہوتے۔ حاکم نے اربعين ميں
بطريق ابی العباس محمد بن يعقوب عن محمد بن اسحٰق الصاغانی عن حسان بن عبداللّٰہ عن المفضل بن فضالۃ عن عقيل عن ابن شھاب عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ روايت کیفان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب ۱؎۔
ابوالعباس محمد ابن يعقوب نے محمد بن اسحٰق صاغانی سے، اس نے حسان ابن عبداللہ سے، اس نے مفضل ابن فضالہ سے، اس نے عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کی کہ اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تو ظہر وعصر پڑھ کر سوار ہُواکرتے تھے۔ (ت)
 (۱؎ اربعين للحاکم)
جعفر فريابی نے بتفرد خود اسحٰق بن راہويہ سے روايت کی: عن شبابۃ بن سوار عن الليث عن عقيل عن الزھری عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ  وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم ارتحل ۲؎۔
شبابہ ابن سواد سے، اس نے ليث سے، اس نے عقيل سے، اس نے زہری سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور زوال ہوجاتا تھا، تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ (ت)
 (۲؎ ميزان الاعتدال بحوالہ جعفر فريابی ترجمہ (۷۳۳ دارالمعرفۃ بيروت     ۱/۸۳)
اوسط طبرانی ميں ہے: حدثنا محمد بن ابرھيم بن نصر بن شبيب الاصبھانی قال ثناھارون بن عبداللّٰہ الحمال ثنا يعقوب بن محمد الزھری ثنا محمد بن سعد ان ثنا ابن عجلان عن عبداللّٰہ بن الفضل عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان اذاکان فی سفر فزاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر جميعا ۳؎۔
حديث بيان کی ہم سے محمد ابن ابراہيم ابن نصر بن سندر اصبہانی نے ہارون ابن عبداللہ حمال سے، اس نے يعقوب ابن محمد زہری سے، اس نے محمد ابن سوان سے، اس نے ابن عجلان سے، اس نے عبداللہ بن فضل سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے تو اگر روانگی سے پہلے سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)
(۳؎ معجم الاوسط    حديث ۷۵۴۸ مکتب المعارف رياض    ۸/۲۷۱۔۲۷۲)
روايت اسحٰق پر امام ابوداؤد نے انکار کيا اسمٰعيل نے اُسے معلول بتايا
کمافی العمدۃ وغيرھا۔
اقول: الامام اسحٰق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، لاکلام فی جلالۃ قدرہ وعظمۃ فخرہ، لکن نص الامام ابوداؤد انہ کان تغير قبل موتہ باشھر، قال: وسمعت منہ فی تلک الايام فرميت بہ۱؎ ۔ کمافی التذھيب ۔
ميں کہتا ہوں: امام اسحٰق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قدر  اور  عظمت  افتخار ميں کوئی شک نہيں ہے ليکن امام ابوداؤد نے تصريح کی ہے کہ وفات سےچند ماہ پہلے اس کے حافظے ميں تغيير آگيا تھا۔ ابوداؤد نے کہا کہ انہی دنوں ميں مَيں نے اُس سے کچھ سنا تھا اور اس کی وجہ سے مجھے مطعون کياگيا۔ جيسا کہ تذہيب ميں ہے۔
 (۱؎ ميزان الاعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ     مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت    ۱/۱۸۳ )
وذکر الحافظ المزی حديثہ الذی زاد فيہ علی اصحاب سفيٰن، فقال: اسحٰق اختلط فی اٰخر عمرہ ۲؎۔ کمافی الميزان۔
اور حافط مزی نے اس کی وہ حديث ذکر کرنے کے بعد، جس ميں اس نے اصحاب سفيٰن کے الفاظ پر اضافہ کيا ہے، کہا ہے کہ اسحٰق کے بارے ميں کہا گيا ہے کہ آخر عمر ميں اس کو اختلاط ہوگيا تھا، جيسا کہ ميزان ميں ہے۔
 (۲؎  ميزان الاعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ     مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت    ۱/۱۸۳ )
ولاشک انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی کان کثير التحديث عن ظھر قلبہ، املی المسند کلہ من حفظہ ۳؎۔ کمافی التذھيب، قال: قال احمد بن اسحٰق الضبعی: سمعت ابرھيم بن ابی طالب، يقول: فذکرہ۔ فلاغروان يعتريہ خطؤ فی حديث  او حديثين، ومن المعصوم عن مثل ذلک فی سعۃ ماروی وکثرتہ؟
اس ميں تو کوئی شک نہيں کہ اسحٰق (رحمہ اللہ تعالیٰ) بےشتر حديثيں محض ياد کے سہارے بيان کيا کرتے تھے۔ ايک مرتبہ انہوں نے پُورا مسند اپنی ياد سے املا کراديا تھا، جيسا کہ تذہيب ميں ہے کہ احمد بن اسحٰق ضبعی نے کہا ہے کہ ميں نے ابراہيم بن ابی طالب کو يہ بات کہتے سنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہی (مسند کے املاء والی بات) ذکر کی ہے۔ تو اس صورت ميں اگر اسحٰق سے ايک يا دو حديثوں ميں خطا واقع ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے۔ اس قدر وسےع اور کثير روايات ميں اتنی تھوڑی سی خطا سے اور کون معصوم ہے؟ (ت)
 (۳؎ خلاصہ تذہیب تذہیب المکمال    ترجمہ اسحٰق بن راہویہ    مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل    ۱/۶۹)
لاجرم امام ذہبی شافعی نے اس حدیث کو منکر کہا، اور امام اسحٰق کی لغزش حفظ واشتباہ سے گنا۔
حيث قال: وکذا حديث رواہ جعفر الفريابی ثنا اسحٰق بن راھويہ ثنا شبابۃ عن الليث عن عقيل عن ابی شھاب عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر ثم ارتحل۔ فھذا علی نبل رواتہ منکر، فقد رواہ مسلم عن الناقد عن شبابۃ (وذکر لفظہ) تابعہ الزعفرانی عن شبابۃ، واخرجہ خ م من حديث عقيل عن ابن شھاب عن انس (وذکر لفظہ، ای وليس فی شیئ منھا: والعصر۔ قال:) ولاريب ان اسحٰق کان يحدث الناس من حفظہ، فلعلہ اشتبہ عليہ ۱؎۔
چنانچہ اس نے کہا ہے کہ اسی طرح وہ حديث جسے روايت کيا ہے فريابی نے اسحٰق ابن راہويہ سے، اس نے شبابہ سے، اس نے ليث سے، اس نے عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر پڑھتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ تو يہ حديث راويوں کی عمدگی کے باوجود منکر ہے کيونکہ اس کو مسلم نے ناقد سے، اس نے شبابہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے اس کے الفاظ ذکر کيے ہيں) اسی طرح زعفرانی نے بھی اس کو شبابہ سے روايت کيا ہے اور مسلم نے بھی اس کو عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے مسلم کے الفاظ ذکر کيے ہيں، مقصد يہ ہے کہ بخاری ومسلم کی کسی روايت ميں عصر کا ذکر نہيں ہے (صرف ظہر کا ذکر ہے۔ ذہبی نے کہا) اس ميں کوئی شک نہيں کہ اسحٰق لوگوں کے سامنے اپنی ياد سے حديثيں بيان کيا کرتا تھا، ہوسکتا ہے کہ اس کو اشتباہ واقع ہُوا ہو۔ (ت)
 (۱؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ اسحٰق بن راہويہ ۷۳۳    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت    ۱/۱۸۳)
اس کے بعد ہميں شبابہ بن سوار ميں کلام کی حاجت نہيں کہ وہ اگرچہ رجال جماعہ وموثقين ابنائے معين وسعد وابی شيبہ سے ہے مگر مبتدع مکلّب تھا امام احمد نے اُسے ترک کيا، امام ابوحاتم رازی نے درجہ حجيت سے ساقط بتايا۔ تہذيب التہذيب امام ابنِ حجر عسقلانی ميں ہے:
شبابۃ بن سوار الفزاری، قال احمد بن حنبل: ترکتہ، لم اکتب عنہ للارجا۔ قيل لہ: يا اباعبداللّٰہ!وابومعويۃ، قال: شبابۃ کان داعيۃ۔ وقال زکريا الساجی: صدوق، يدعو الی الارجا، کان احمد يحمل عليہ ۲؎۔
شبابہ ابن سوار فزاری احمد بن حنبل نے کہا کہ ميں نے اس کو چھوڑديا اور اس سے حديثيں نہيں لکھيں کيونکہ وہ ارجاء کا عقيدہ رکھتا تھا۔ کسی نے کہا کہ (ارجاء کا عقيدہ تو) ابومعاويہ بھی رکھتا ہے۔ احمد نے کہا (ہاں، مگر) شبابہ ارجاء کا داعی تھا۔ زکريا ساجی نے کہا کہ سچّا ہے، ارجاء کا داعی ہے۔ احمد اس پر تنقيد کيا کرتے تھے۔ ت)
 (۲؎ تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری    مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن         ۴/۳۰۱)
Flag Counter