فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
ابومحمد دارمی نے کہا کہ ميں نے يزيد ابن ہارون سے سنا کہ وہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی کو جھُوٹا قرار ديتے تھے۔ (ت)
(۳؎ ميزان الاعتدال ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ۱/۶۰)
تذہيب التہذيب ميں ہے: عن الزھری وصالح مولی التوأمۃ وعنہ الشافعی واٰخرون، قال عبداللّٰہ بن احمد عن ابيہ: کان قدريا، معتزليا، جھميا، کل بلاء فيہ۔ قال ابوطالب عن احمد بن حنبل: ترک الناس حديثہ، وکان يأخذ احاديث الناس فيضعفھا فی کتبہ۔ وقال يحيی القطان: کذاب۔ وقال احمد بن سعيد بن ابی مريم: قلت ليحيی بن معين، فابن ابی يحيٰی؟ قال: کذاب ۱؎۔
زہری اور صالح مولی التوأمہ سے اور اس سے شافعی اور ديگر علماء نقل کرتے ہيں کہ عبداللہ بن احمد اپنے والد سے بيان کرتے ہيں کہ (ابراہيم مذکور) قدری تھا، معتزلی تھا، جہمی تھا، ہر بلا اس ميں موجود تھی۔ ابوطالب نے احمد بن حنبل سے نقل کيا کہ لوگوں نے اس کیج حديث چھوڑدی تھی، وہ لوگوں کی حديثيں لے کر اپنی کتابوں ميں لکھ ليتا تھا۔ يحيٰی قطان نے کہا: جھُوٹا ہے۔ احمد ابن سعيد ابن ابی مريم نے کہا: ميں نےيحيٰی ابن معين سے ابن ابی يحيٰی کے بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا: کذّاب ہے۔ (ت)
(۱؎ خلاصہ تذھيب تہذيب الکمال الخ ، ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۲۷۴ ، مطبوعہ مکتبہ اثريہ سانگلہ ہل (شیخوپورہ) ۱/۵۵)
تذکرۃ الحفاظ ميں ہے: قال ابن معين وابوداؤد: رافضی کذاب ۲؎
(ابن معين اور ابوداؤد نے کہا: رافضی ہے، کذاب ہے۔ ت)
(۲؎ تذکرۃ الحفاظ ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن ۱/۲۲۷)
لاجرم تقريب ميں ہے: متروک ۳؎ اھ الکل باختصار۔
(۳؎ تقريب التہذيب ، ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی مطبوعہ الکتب الاسلاميہ گوجرانوالہ، پاکستان ص۲۳)
يہاں تک کہ ابوعمر بن عبدالبر نے کہا اُس کے ضعف پر اجماع ہے
کمانقلہ فی الميزان ۴؎ فی ترجمۃ عبدالکريم بن ابی المخارق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
(۴؎ ميزان الاعتدال ترجمہ عبدالکريم ابن ابی المخارق ۱۵۷۲ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت لبنان ۲/۶۴۶)
افاضہ ثالثہ: يوں ہی حديث دارقطنی: حدثنا احمد بن محمد بن سعيد ثنا المنذر بن محمدثنا ابی ثنا ابی ثنا محمد بن الحسين بن علی بن الحسين ثنی ابن عن ابيہ عن جدہ عن علی رضی اللّٰہ تعالٰی قال كان صلی اللہ عليہ وسلم اذا ارتحل حين تزول الشمس جمع بين الظھر وعجل العصر، ثم جمع بينھما ۵؎۔
حديث بيان کی ہم سے احمد ابن محمد ابن سعيد نے منذر ابن محمد سے، اس نے اپنے باپ سے، اس نے اپنے باپ سے، اس نے محمد سے، اس نے اپنے والد حسين سے، اس نے اپنے والد علٰی ابن امام حسين رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، انہوں نے اپنے دادا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم اگر زوال کے وقت روانگی اختيار فرماتے تھے تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر روانگی ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر کو مؤخر کرکے اور عصر کو مقدم کرکے دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)
(۵؎ سنن الدارقطنی ، باب الجمع بين الصلٰوتين فی السفر مطبوعہ نشہ السنّۃ ملتان ۱/۲۹۱)
اس ميں سو اعترت طاہرہ کے کوئی راوی ثقہ معروف نہيں۔
عمدۃ القاری ميں فرمايا:لايصح اسنادہ، شيخ الدارقطنی ھو ابوالعباس بن عقدۃ، احدالحفاظ،لکنہ شيعی
اس کا اسناد صحيح نہيں ہے کيونکہ دارقطنی کا استاد (احمد) ابوالعباس ابن عقدہ ہے، جو اگرچہ حفّاظِ حديث ميں سے ہے ليکن شيعہ ہے۔
(قلت: بل نص فی موضع اخر من الميزان، فيہ وفی ابن خراش، ان فيھما رفضا وبدعۃ۔اھ ) وقد تکلم فيہ الدارقطنی وحمزۃ السھمی وغيرھما۔ وشيخہ المنذر بن محمد بن المنذر، ليس بالقوی ايضا قالہ الدارقطنی ايضا۔ وابوہ وجدہ يحتاج الٰی معرفتھما ۱؎۔
ميں نے کہا: بلکہ ميزان کے ايک اور مقام ميں اس کے اور ابن خراش کے متعلق لکھا ہے کہ ان ميں رفض اور بدعت پائی جاتی ہے۔ خود دارقطنی اور حمزہ سہمی وغيرہ نے بھی اس پر جرح کی ہے، اور اس کا استاد منذر ابن محمد بن منذر بھی زيادہ قوی نہيں ہے۔ يہ بات بھی دارقطنی نے کہی ہے۔ اور منذر کا باپ اور دادا دونوں غير معروف ہيں۔ (ت)
(۱؎ عمدۃ القاری باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء مطبوعہ الطباعۃ الخيريۃ دمشق ۷/۱۴۹)
اقول: وہ صحيح ہی سہی تو انصافاً صاف صاف ہمارے مفيد وموافق ہے اُس کا صريح مفاد يہ کہ سُورج ڈھلتے ہی کُوچ ہوتا توظہرين جمع فرماتے پُرظاہر کہ زوال ہوتے ہی کوچ اور جمع تقديم کا جمع محال۔ کيا پيش از زوال ظہر وعصر پڑھ ليتے لاجرم وہی جمع مرادجس کاصاف بيان خود آگےموجود کہ ظہر بدير اور عصرجلد پڑھتے، يہی جمع صوری ہےکمالایخفی۔ افاضہ رابعہ: حديث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اِن شاء اللہ العزيز جمع تاخير ميں آتی ہے اُس ميں معروف ومحفوظ ومروی جماہير ائمہ ثقات وعدول مذکور صحيح بخاری وصحيح مسلم وسُنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی وغيرہا عامہ دوا دين اسلام صرف اس قدر ہے کہ حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰیوسلامہ عليہ اگر دوپہر ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے ظہر ميں عصر تک تاخير کرکے ساتھ ساتھ پڑھتے اور اگر منزل ہی پر وقت ظہر آجاتا صلی الظھر ثم رکب ۲؎ ظہر پڑھ کر سوار ہوجاتے جس سے بحکم مقابلہ وسکوت فی معرض البيان صاف ظاہر کہ تنہا ظہر پڑھتے عصر اس کے ساتھ نہ ملاتے ۔
(۲؎ صحيح بخاری باب اذا ارتحل بعد مازاغت الشمس قديمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۵۰ )