خود قائلانِ جمع اس کا ضعف تسليم کرگئے شايد اسی لئے کچھ سوچ سمجھ کر ملّاجی بھی اُس کا ذکر زبان پر نہ لائے لہذا اس ميں زيادہ کلام کی ہميں حاجت نہيں تاہم اتنا معلوم رہے کہ اُس کے راوی حسين مذکور ائمہ شان کے نزديک ضعيف ہيں۔ يحيٰی نے فرمايا: ضعيف۔ ابوحاتم رازی نے فرمايا:
ضعيف، يکتب حديثہ ولايحتج بہ ۳؎
(ضعيف ہے، اس کی حديث لکھی جائے مگر اس سے استدلال نہ کيا جائے۔ ت) ابوزرعہ وغيرہ نے کہا: ليس بقوی (قوی نہيں ہے۔ ت)
(۳؎ ارشاد الساری باب يؤخر الظہر الی العصر الخ مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت ۲/۵۴۸)
جوزجانی نے کہا: لايشتغل بہ ۴؎
(اس کے ساتھ مشغول نہيں ہونا چاہئے۔ ت)
(۴؎ ميزان الاعتدال ترجمہ حسين بن عبداللہ ۲۰۱۲ مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت ۱/۵۳۷)
ابنِ حبان نے کہا: يقلب الاسانيد ويرفع المراسيل ۵؎
(اسنادوں کو پلٹ ديتا تھا اور مراسيل کو مرفوع بناديتاتھا۔ ت)
(۵؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار ابواب الجمع بين الصلاتين مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۴)
محمد بن سعد نے کہا: کان کثير الحديث، ولم ارھم يحتجون بحديثہ
(حديثيں بہت بيان کرتاتھا، علماء اس کی احاديث سے استدلال نہيں کرتے تھے۔ ت) يہاں تک کہ نسائی نے فرمايا: متروک الحديث امام بخاری نے فرمايا علی بن مدينی نے کہا: ترکت حديثہ ۱؎ (ميں نے اسکی حديث کو ترک کرديا ہے۔ ت)
(۱؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار ابواب الجمع بين الصلاتين مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۴)
لاجرم حافظ نے تقريب ميں کہا: ضعيف۔ اس حديث کی تضعيف شرح بخاری قسطلانی شافعی وشرح مؤطا زرقانی مالکی وشرح منتقی شوکانی ظاہری ميں ديکھيے، ارشاد ميں فتح الباری سے ہے:
لکن لہ شاھد من طريق جماد عن ايوب عن ابی قلابۃ عن ابن عباس، لااعلمہ الا مرفوعا، انہ کان اذا انزل منزلا فی السفر فاعجبہ اقام فيہ، حتی يجمع بين الظھر والعصر، ثم يرتحل، فاذا لم يتھيألہ المنزل مدفی السير فسار حتی ينزل، فيجمع بين الظھر والعصر۔ خرجہ البيھقی، ورجالہ ثقات، الا انہ مشکوک فی رفعہ، والمحفوظ انہ موقوف۔ وقداخرجہ من وجہ اٰخر، مجزوما بوقفہ علی ابن عباس، ولفظہ: اذاکنتم سائرين، فذکر نحوہ ۲؎۔
ليکن اس کا ايک شاہد ہے جو بطريقہ حماد مروی ہے حماد ايوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ ابن عباس سے روايت کرتے ہيں (اور کہتے ہيں کہ) ميرے خيال ميں يہ روايت مرفوع ہی ہے کہ جب سفر کے دوران کسی منزل پر اُترتے تھے اور وہ جگہ پسند آجاتی تھی تو وہاں ٹہر جاتے تھے يہاں تک ظہر وعصر کو يکجا پڑھتے تھے پھر سفر شروع کرتے تھے اور اگر کوئی ايسی منزل مہيا نہيں ہوتی تھی تو چلتے رہتے تھے يہاں تک کہ کسی جگہ اُتر کر ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے۔ اس کو بيہقی نے روايت کيا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہيں ليکن اس کا مرفوع ہونا مشکوک ہے، محفوظ بات يہ ہے کہ يہ روايت موقوف ہے۔ بيہقی نے ايک اور سند سے بھی اس کو روايت کيا ہے جس کے مطابق اس کا ابن عباس پر موقوف ہونا يقينی ہے، اس کے الفاظ اس طرح ہيں جب تم چلنے والے ہو (تو يوں کيا کروکہ۔۔۔۔۔۔) اس کے بعد درج بالا طريقہ مذکور ہے۔ (ت)
(۲؎ ارشاد الساری شرح بخاری باب يوخر الظہر الی العصر اذاارتحل الخ مطبوعہ دارالکتاب العربی بيروت ۲/۲۰۳)
شرح مؤطا ميں اسے ذکر کرکے فرمايا: وقدقال ابوداؤد ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۳؎
(ابوداؤد نے فرمايا، تقديم وقت پر کوئی حديث ثابت نہيں۔ ت)
(۳؎ شرح الزرقانی علی المؤطا امام مالک ، الجمع بين الصلاتين والحضروالسفر ، مطبوعہ المکتبۃ التجاريۃ الکبرٰی مصر ۱/۲۹۲)
اقول: وہ ضعيف اور اُس کا يہ شاہد موقوف اگر بالفرض ومرفوع بھی ہوتے تو کيا کام ديتے کہ اُن کا حاصل تو يہ کہ جو منزل حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو پسند آتی اور دوپہر وہيں ہوجاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر سوار ہوتے اس ميں عصر کا پيش از وقت پڑھ لينا کہاں نکلا بعينہٖ اسی بيان سے شاہد کا سار حتی ينزل فيجمع جمع حقيقی پر اصلا شاہد نہيں اور کانت العصر کا جواب بعونہ تعالٰی بيانات آئندہ سے ليجئے وباللہ التوفيق اگر کہيے روايت شافعی يوں ہے:
اخبرنی ابن ابی يحيٰی عن حسين بن عبداللّٰہ بن عبيداللّٰہ بن عباس بن کريب عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، فذکر الحديث، وفيہ جمع بين الظھر والعصر فی الزوال ۱؎۔
خبر دی مجھے ابن ابی يحيٰی نے حسين ابن عبداللہ سے کہ کريب نے ابن عباس سے روايت کی ہے، اس کے بعد مندرجہ بالا روايت مذکور ہے اور اس ميں ہے کہ زوال کے وقت ظہر وعصر کو جمع کرتے تھے۔ (ت)
(۱؎ مسند الشافعی)
اقول: اس کی سند ميں ابن ابی يحيٰیرافضی قدوری معتزلی جہمی بھی متروک واقع ہے امام اجل يحيٰی بن سعيد بن قطعان وامام اجل يحيٰی بن معين وامام اجل علی بن مدينی وامام يزيد بن ہارون وامام ابوداؤد وغيرہم اکابر نے فرمايا: کذاب تھا۔ امام احمد نے فرمايا: ساری بلائيں اُس ميں تھيں۔ امام مالک نے فرمايا: نہ وہ حديث ميں ثقہ ہے نہ دين ميں۔ امام بخاری نے فرمايا: ائمہ محدثين کے نزديک متروک ہے۔ ميزان الاعتدال ميں ہے:
ابرھيم بن ابی يحيی، احدالعلماء الضعفاء، قال يحيی بن سعيد: سألت مالکاعنہ، اکان ثقۃ فی الحديث؟ قال: لا، ولافی دينہ۔ وقال يحيی بن معين: سمعت القطان يقول: ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔ وروی ابوطالب عن احمد بن حنبل، قال: ترکوا حديثہ، قدری، معتزلی، يروی احاديث ليس لھا اصل وقال البخاری: ترکہ ابن المبارک والناس۔ وروی عبداللّٰہ بن احمد عن ابيہ، قال: قدری، جھمی،کل بلاء فيہ، ترک النّاس حديثہ، وروی عباس عن ابن معين، کذاب، رافضی۔ وقال محمد بن عثمان بن ابی شييۃ: سمعت عليا يقول: ابرھيم بن ابی يحيٰی کذاب۔ وقال النسائی والدارقطنی وغيرھما، متروک ۱؎۔
ابراہيم بن ابی يحيٰی ضعيف علماء ميں سے ايک ہے۔ يحيٰی ابن سعيد نے کہا کہ ميں نے اس کے بارے ميں مالک سے پُوچھا کہ کيا وہ حديث ميں قابلِ اعتماد تھا؟ انہوں نے جواب ديا: نہ وہ حديث ميں قابلِ اعتماد تھا، نہ دين ميں۔ اور يحيٰی ابن معين نے کہا: ميں نے قطان کو کہتے سُنا ہے کہ ابرہيم ابن يحيٰی کذاب ہے۔ ابوطالب نے احمد ابن حنبل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: علماء نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے، قدری ہے، معتزلی ہے، بے اصل حديثيں روايت کرتا ہے۔ بخاری نے کہا: ابن مبارک نے اور لوگوں نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے۔ عبداللہ ابن احمد اپنے والد سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: قدری ہے، جہمی ہے، ہر بلا اس ميں پائی جاتی ہے، لوگوں نے اس کی حديث چھوڑدی ہے۔ عباس، ابنِ معين سے ناقل ہے کہ وہ کذاب ہے، رافضی ہے۔ محمد ابن عثمان ابن ابی شيبہ نے کہا ہے: ميں نے علی کو کہتے سُنا ہے کہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی کذاب ہے۔ نسائی، دارقطنی اور دُوسروں نے کہا کہ متروک ہے۔ (ت)
(۱؎ ميزان الاعتدال ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ۱/۵۷۔۵۸)
اُسی ميں ہے:قال ابن حبان: کان يکذب فی الحديث ۲؎۔
ابن حبان نے کہا کہ حديث ميں جھُوٹ بولتا تھا۔ (ت)
(۲؎ ميزان الاعتدال ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ۱/۶۰)