حادی عشر :طرفہ نزاکت صدر کلام ميں يہ بيڑا ا ٹھا کر چلے کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل مخالف کو دخل نہيں ذکر کرتے ہيں اور يہاں ايسے گرے کہ صرف ظاہر سے سند لائے تاويل خود ہی مان گئے۔
ثانی عشر :آپ کی فضوليات کی گنتی کہاں تک اصل مقصود کی دھجياں ليجئے صحيحين ميں حديث مذکور کے يہ لفظ تو ديکھيے جن ميں فاء سے يہ فی نکالی، مگر يہی حديث انہيں صحيحين ميں متعدد طرق سے بلفظ ثم آئی جو آپ کی تعقيب بے مہلت کو تعاقب سے دم لينے کی مہلت نہيں ديتی۔ صحيح بخاری شريف باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم۔
بطريق شعبۃ عن الحکم، قال: سمعت اباجحيفۃ، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی البطحاء فتوضأ، ثم صلی الظھررکعتين والعصر رکعتين ۱؎۔
بطريقہ شعبہ، وہ حکم سے راوی ہے کہ ميں نے ابوجحيفہ کو کہتے سُنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے تو وضو کيا، پھر ظہر کی دو۲ رکعتيں پڑھيں اورعصر کی دو۲ رکعتيں۔ (ت)
(۱؎ صحيح بخاری کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی،۱/۵۰۲)
نيز باب مذکوربطريق مالک بن مغول عن عون عن ابیہ، وفيہ، خرج بلال فنادی بالصلاۃ، ثم دخل فاخرج فضل وضوء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، فوقع الناس عليہ ياخذون منہ، ثم دخل فاخرج العنزۃ، وخرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، کانی انظر الی وبيض ساقيہ، فرکز العنزۃ، ثم صلی الظھر رکعتين والعصر رکعتين ۲؎۔
بطريقہ مالک ابن مغول، وہ عون سے، وہ اپنے والد سے۔ اس روايت ميں ہے کہ بلال (خيمے سے) نکلے اور نماز کے لئے پکارا، پھر اندر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے آئے تو اس کو حاصل کرنے کےلئے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے، بلال پھر اندر گئے اور عصا نکال لائے، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم بھی باہر تشريف لے آئے گويا کہ ميں اب بھی آپ کی ساقين کی چمک ديکھ رہا ہوں بلال نے عصا (بطور سُترہ) زمين پر گاڑ ديا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو۲ دو۲ رکعتيں پڑھيں۔ (ت)
(۲؎ صحيح بخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ،مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی،۱/۵۰۳)
لے کہاں کو، ان دو۲ نے تو آپ کی تعقيب ہی بگاڑی ہے، تيسرا اور نہ لیے جاؤ جو خود ظہر وعصر مويں فاصلہ کر دکھائے،
صحيح مسلم شريف بطريق سفيٰن ناعون بن ابی جحيفۃ عن ابيہ، وفيہ، فخرج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم فتوضأ، واذن بلال، ثم رکزت العنزۃ، فتقدم فصلی الظھر رکعتين،ثم صلی العصر رکعتين، ثم لم يزل يصلی رکعتين حتی رجع الی المدينۃ۳؎۔
بطريقہ سفيان، وہ عون سے، وہ اپنے والد ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے۔ اس روايت ميں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم باہر تشريف لائے تو وضو کيا اور بلال نے اذان دی، پھر عصاگاڑا گيا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کھڑے ہوگئے، تو ظہر کی دو۲ رکعتيں پڑھيں، پھر عصر کی دو۲ رکعتيں پڑھيں، اس کے بعد مدينہ کو واپسی تک دوہی رکعتيں پڑھتے رہے۔ (ت)
(۳؎ صحيح مسلم کتاب الصلوۃ باب سترۃ المصلی الخ مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۹۶)
ملّاجی! اب مزاج کا حال بتائیے ع
حفظت شیئا وغابت عنک اشياء
(تُونے ايک چيز ياد رکھی اور بہت سی چيزيں تُجھ سے اوجھل رہ گئيں۔ ت)
الحمداللہ اس فصل کے بھی اصل کلام نے وصل ختام بروجہ احسن پايا۔ اب حسبِ فصل اول چند افاضات ليجئے:
افاضہ اولٰی: ہمارے اجلّہ ائمہ حنفيہ مالکيہ شافعيہ اور ملّاجی کے امام ظاہر يہ سب بالاتفاق اپنی کتب ميں نقل کررہے ہيں کہ امام اجل ابوداؤد صاحبِ سُنن نے فرمايا:
ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۱؎۔
جمع تقديم ميں کوئی حديث ثابت نہيں۔ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المؤطا الجمع بين الصلاتين مطبوعہ مطبعۃ الاستقامۃ قاہرہ مصر ۱/۲۹۲)
امام زيلعی فرماتے ہيں:قال ابوداؤد: وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۲؎۔
ابوداؤد نے فرمايا: تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)
امام بدرمحمود عينی حنفی عمدۃ القاری شرح صحيح بخار ی میں فرماتے ہيں: قلت: حکی عن ابی داؤد انہ انکر ھذا الحديث، وحکی عنہ ايضا، انہ قال: ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۳؎۔
ميں نے کہا: ابوداؤد سے منقول ہے کہ انہوں نے اس حديث کو منکر کہا ہے۔ ان سے يہ بھی منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)
(۳؎ عمدۃ القاری شرح بخاری باب الجمع فی السفر الخ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ دمشق ۷/۱۵۱)
اسی طرح علامہ سيد ميرک شاہ حنفی نے نفل فرمايا مولانا علی قاری مکّی مرقاۃ شرح مشکٰوۃ میں فرماتے ہيں:
حکی عن ابی داؤد انہ قال: ليس فی تقديم الوقت حديث قائم۔ نقلہ ميرک۔ فھذا شھادۃ بضعف الحديث وعدم قيام الحجۃ للشافعيۃ ۴؎۔
ابوداؤد سے منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے، يہ بات ميرک نے نقل کی ہے۔ يہ حديث کے ضعيف ہونے اور شافعيوں کی دليل قائم نہ ہونے پر شہادت ہے۔ (ت)
(۴؎ مرقاۃ شرح مشکٰوۃ باب صلٰوۃ السفر مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان ۳/۲۲۵)
امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرع صحيح البخاری ميں فرماتے ہيں: قدقال ابوداؤد: وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۱؎۔
(ابو داؤد نے فرمايا: تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ ت)
(۱؎ ارشاد الساری شرح صحيح بخاری باب يؤخر الظہر الی العصر الخ مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت ۲/۳۰۲)
بعينہٖ اسی طرح علّامہ زرقانی مالکی نے شرح مؤطائے امام مالک و نيز شرح مواہب لدنيہ ومنح محمديہ ميں فرمايا شوکانی غير مقلد کی نيل الاوطار ميں ہے:
قال ابوداؤد: ھذا حديث منکر وليس فی جمع التقديم حديث قائم ۲؎۔
(۲؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار ابواب الجمع بين الصلويتين مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۳)
بھلا ابوداؤد سا امام جليل الشان يہ تصريح فرماگيا جسے علمائے مابعد حتی کہ قائلانِ جمع بھی بلانکير وانکار نقل فرماتے آئے، نہ آج تک کوئی اس کا پتادے سکا، اب مُلّاجی چاہيں کہ ميں حديث صحيحين سے ثابت کردوں يہ کيونکر بنی مگر قيامت لطيفہ دلربا کھسيانی ادا يہ ہے کہ جھنجھلائی نظروں سے جل کر فرمايا ف: کُچھ غيرت آوے تو نشان دہی کريں کہ ابُوداؤد نے کون سی کتاب ميں يہ قول کہا ہے، يعنی نقول ثقات عدول محض مردود ونامقبول جب تک قائل خود اپنی کتاب ميں تصريح نہ کرے اُس سے کوئی نقل معتبر نہ ہوگی۔
(ف معيارالحق ص ۳۷۴)
اقول مُلّاجی! ان جھنجھلا ہٹوں ميں حق بجانب تمہارے ہے تم دلی کی ٹھنڈی سڑک پر ہوا کھلانے کے قابل نہ تھے يہ حنفی لوگ عبث تمہيں چھوڑ کر بوکھلائے ديتے ہيں بھلا اوّلا اتنا تو ارشاد ہوکہ بہت ائمہ جرح وتعديل وتصحيح وتضعيف وغيرہم ايسے گزرے جن کی کوئی کتاب تصنيف نہيں بيان سے نقل معتبر ہونے کا کيا ذريعہ ہوگا۔
ثانياً: آپ جو اپنی مبلغ علم تقريب کے بھروسے رواۃ ميں کسی کو ثقہ کسی کو ضعيف کسی کو چنيں کسی کو چناں کہہ رہے ہيں ظاہر ہے کہ مصنف تقريب نے اُن ميں کسی کا زمانہ تک نہ پايا صدہا سال بعد پيدا ہوئے انہيں ديکھنا اور اپنی نگاہ سے پرکھنا تو قطعاً نہيں اسی طرح ہر غير ناظر ميں يہی کلام ہوگا، اب رہی ديکھنے والوں سے نقل سوا مواضع عديدہ کے ثبوت تو ديجئے کہ ناظرين مبصرين نے اپنی کس کتاب ميں اُن کی نسبت يہ تصريحيں کی ہيں۔
ثالثا: آپ کی اسی کتاب ميں اور بيسيوں نقول سلف سے ايسی نکليں گی کہ آپ حکايات متاخرين کے اعتقاد پر نقل کر لائے اور اُن سے احتجاج کيا کچھ غيرت رکھاتے ہو تو نشان دہی کروکہ وہ باتيں منقول عنہم نے کس کتاب ميں لکھی ہيں مگر يہ کہيے کہ يجوز للوھابی مالايجوز لغيرہ (وہابی کےلئے وہ کچھ جائز ہے جو دوسروں کےلئے جائز نہيں۔ ت)
افاضہ ثانيہ:رہی اس باب ميں حديثِ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما مروی احمد وشافعی وعبدالرزاق وبيہقی:وھذا حديث احمد اذيقول حدثنا عبدالرزاق اخبرنا ابن جريج اخبرنی حسين بن عبداللہ بن عبيداللّٰہ بن عباس عن عکرمۃ وکريب عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال: الا اخبرکم عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم فی السفر؟ قلنا: بلٰی۔ قال: کان اذا زاغت الشمس فی منزلہ جمع بين الظھر والعصر، قبل ان يرکب، واذا لم تزغ لہ فی منزلۃ سار، حتی اذاکانت العصر، نزل فجمع بين الظھر والعصر۔ واشار اليہ ابوداؤد تعليقا ۱؎، فقال: رواہ ھشام بن عروۃ عن حسين بن عبداللّٰہ عن کريب عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، ولم يذکر لفظہ ۲؎۔
اور يہ احمد کی حديث ہے، حديث بےان کی ہم سے عبدالرزاق نے، اس کو خبر دی ابن جريج نے، اس کو خبر دی حسين بن عبداللہ بن عبيداللہ بن عباس نے کہ عکرمہ اورکريب، ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن عباس نے ہم سے پُوچھا: ''کيا ميں تمہيں سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کی نماز کے بارے ميں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: ''کيوں نہيں (ضرور بتائيں) انہوں نے کہا کہ اگر جائے قيام پر زوال ہوجاتا تھا تو سوار ہونے سے پہلے ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر جائے قيام پر زوال نہيں ہوتا تھا تو چل پڑتے تھے اور جب عصر ہوتی تھی تو اتر کر ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ اس روايت کی طرف ابوداؤد نے تعليقاً اشارہ کيا ہے اور کہا ہے کہ اس کو ہشام ابن عروہ نے حسين ابن عبداللہ سے، اس نے کريب سے، اس نے ابن عباس سے، انہوں نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے۔ مگر ابوداؤد نے اس کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہيں۔ (ت)
(۱؎ مسند امام احمد بن حنبل از مسند عبداللہ بن عباس مطبوعہ دارالفکر بيروت ۱/۳۲۷)
(۲؎ سنن ابی داؤد باب الجمع بين الصلاتين مطبوعہ مطبع مجتبائی لاہور ۱/۱۷۱)
(مصنف، ابی بکر عبدالرزاق بن ہمام جمع بين الصلاتين مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت ۲/۵۴۸)