کماتقدم، ومن يشبہ اباء ہ فماظلم ثمّ اقول: وتحسين الترمذی يرجع الٰی حديث معاذ، لقولہ: حديث معاذ حديث حسن غريب۔ واذا اتی علی ھذہ الروايۃ لم يحسنہ، انما قال: وحديث الليث عن يزيد غريب۔ وافاد انہ خلاف المعروف، فقال: والمعروف عند اھل العلم حديث معاذ ۱؎۔ الخ
جيسا کہ گزرا اور جو شخص اپنے آباؤ سے مشابہت رکھے اس کا کوئی قصور نہيں۔ ثم اقول پھر ميں کہتا ہوں) کہ ترمذی کا حسن قرار دينا حديث معاذ سے متعلق ہے کيونکہ ترمذی نے کہا ہے کہ معاذ کی حديث حسن غريب ہے اور جب اس روايت کا ذکر کيا اسے حسن نہيں کہا صرف يہ کہا کہ ليث کی يزيد سے مروی حديث غريب ہے۔ ترمذی نے يہ افادہ بھی کيا کہ يہ معروف حديث کے خلاف ہے۔ چنانچہ ترمذی نے کہا ہے کہ اہلِ علم کے نزديک معروف، معاذ کی وہ حديث ہے الخ۔
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بين الصلاتين مطبوعہ مجتبائی لاہور ۱/۷۲)
واما ابن حبان فلانعلم لہ فضلا علی ابی سعيد بن يونس، فانہ ايضا ثقۃ، ثبت، حافظ، امام من ائمۃ الشان، کلاھما من الاقران، من تلامذۃ الامام النسائی ابی عبدالرحمٰن۔ وابن يونس، لنزاھتہ من نفس فلسفی، احب الی الناس من ابن حبان۔ وقد قال الامام ابوعمرو بن الصلاح فی طبقات الشافعيۃ: ربما غلط الغلط الفاحش فی تصرفاتہ ۲؎، کمانقلہ الذھبی فی تذکرۃ الحفّاظ۔ فانی يدانی اباداؤد، فضلا ان يواذيہ، فضلا ان يباريہ، فضلا عن ذاک الجبل الجليل محمد بن اسمعيل يوقد عرف بالتساھل فی باب التصحيح؛ بل والتحسين، ھو والترمذی: کمانص عليہ الائمۃ وحققناہ فی رسالتنا مدارج طبقات ۱۳۱۳ھ الحديث علی ان الجرح مقدم فی مثل المقام، فان من اثبت فانما نظر الی ثقۃ الرواۃ، ولم يطلع علی مااطلع عليہ غيرہ من العلۃ، ومن يعلم قاض علی من لايعلم۔ واللّٰہ اعلم، من کل اعلم۔
رہا ابن حبان تو اسکی سعيد ابن يونس پر کوئی برتری ہمارے علم ميں نہيں ہے کيونکہ سعيد بھی ثقہ ہے ثبت ہے، حافظ ہے اور حديث کے اماموں ميں سے ايک امام ہے دونوں ہم زمان ہيں اور امام ابوعبدالرحمن نسائی کے شاگردوں ميں سے ہيں۔ تاہم ابن يونس فلسفی روح سے پاک ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ہاں ابن حبان سے زيادہ پسنديدہ ہے۔ امام ابوعمر ابن صلاح نے طبقات الشافعيہ ميں کہا ہے کہ ابن حبان کو تصرفات حديث کے دوران بسا اوقات شديد غلطی لگ جاتی تھی، جيسا کہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ ميں بےان کيا ہے۔ تو پھر ابن حبان ابوداؤد کے قريب بھی کہاں پہنچ سکتا ہے، چہ جائےکہ اس کا ہمسر ہو، چہ جائےکہ اس کے مقابل ہو۔ اور علم کے عظيم پہاڑ محمد بن اسمٰعيل (بخاری) کا مقام تو پھر بہت ہی اونچا ہے، جبکہ ابن حبان احاديث کو صحيح قرار دينے ميں متساہل ہے۔ بلکہ حسن قرار دينے ميں بھی يہ اور ترمذی متساہل ہيں، جيسا کہ ائمہ نے تصريح کی ہے اور ہم نے اپنے رسالے ''مدارج طبقات الحديث'' ميں تحقيق کی ہے۔ علاوہ ازيں ايسے مقام پر جرح، تعديل سے مقدم ہوتی ہے کيونکہ جو علماء، حديث کو ثابت قرار ديتے ہيں وہ صرف راويوں کا ثقہ ہونا مدّنظر رکھتے ہيں اور اس خامی سے آگاہ نہيں ہوتے ہيں جس سے دوسرے واقف ہوتے ہيں اور آگاہی رکھنے والے، آگاہی نہ رکھنے والوں کی بنسبت فيصلہ کن ہوتے ہيں۔ واللہ تعالٰیاعلم من کل اعلم۔ (ت)
(۲؎ تذکرۃ الحفاظ فی ترجمۃ ابن حبان مطبوعہ حيدرآباد دکن ۳/۱۲۶)
ثمّ اقول: اس روايت ميں اسی طرح مقال واقع ہوئی اور ہنوز کلام طويل ہے مگر فقير غفراللہ تعالٰی لہ کہتا ہے نظر تحقيق کو رخصت تدقيق ديجئے تو اس روايت کا کون سا حرف جمع حقيقی ميں نص ہے اُس کا حاصل تو صرف اس قدر کہ حضور والا صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک ميں ظہر وعصر کو جمع فرماتے اگر دوپہر سے پہلے کُوچ ہوتا تو راہ ميں اُتر کر ورنہ منزل ہی پر پہلی صورت ميں جمع بعد سير ہوتی ہے اور دوسری ميں سير بعد جمع پھر اس ميں جمع صوری کا خلاف کيا ہوا حديث کا کون سا لفظ حقيقی کا تعيین کررہا ہے اذا ارتحل بعدزيغ الشمس ميں خواہی نخواہی بعديت متصلہ پر کيا دليل ہے بلکہ اس کے عدم پر دليل قائم کہ جزا صلی ثم سار ہے بلکہ الفاظ اخر الظھر وعجل العصر سے جمع صوری ظاہر ہے ظہر دير کرکے پڑھی عصر جلد پڑھی اس سے يہی معنی مفہوم ومتبادر ہوتے ہيں کہ ظہر اپنے آخر وقت ميں عصر اپنے شروع وقت ميں نہ يہ کہ ظہر عصر ميں پڑھی جائے يا عصر ظہر ميں، ولہذا علمائے کرام مثل امام اجل طحاوی وابوالفتح ابن سيد الناس وغيرہما بلکہ ان کے علاوہ آپ کے امام شوکانی نے بھی ان الفاظ تاخير وتعجيل کو جمع صوری کی صريح دليل مانا، شرح منتقی ميں کہا:
ممايدل علی تعين حمل حديث الباب علی الجمع الصوری، مااخرجہ النسائی عن ابن عباس، بلفظ: صليت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم الظھر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجل العشاء۔ فھذا ابن عباس،راوی حديث الباب، قدصرح بان ماوراہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ۱؎۔
جن وجوہات کی بنا پر اس باب کی حديث کو جمع صوری پر حمل کرنا متعين ہوجاتا ہے ان ميں سے ايک وجہ وہ روايت ہے جس کی نسائی نے ابن عباس سے ان الفاظ ميں تخريج کی ہے کہ ميں نے نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے ساتھ ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا اور مغرب وعشا کو بھی اکٹھا پڑھا۔ آپ نے ظہر ميں تاخير اور عصر ميں تعجيل فرمائی، اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشا ميں تعجيل فرمائی تو يہ ابن عباس جو حديث کے راوی ہيں خود ہی واضح کررہے ہيں کہ انہوں نے جمع کی جو روايت بےان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ (ت)
(۱؎نيل الاوطار شرح منتفی الاخبار باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۶)
اُسی ميں ہے: ومن المؤيدات للحمل علی الجمع الصوری ايضا، مااخرجہ ابن جرير عن ابن عمر، قال: خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم، فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما، ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما۔ وھذا ھو الجمع الصوری ۲؎۔
جمع صوری پر حمل کرنے کی مؤيدات ميں سے وہ روايت بھی ہے جو ابن جرير نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بےان کی ہے وہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ہمارے پاس باہر تشريف لائے تو ظہر کو مؤخر کرتے تھے اور عصر کو جلدی، اس طرح دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ اسی کو جمع صوری کہتے ہيں۔ (ت)
(۲؎ نيل الاوطار شرح منتفی الاخبار باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۶)
معہذا ظہر ومغرب کا جب وقت کھودنا ٹہرا تو عصر وعشاء ميں جلدی کا ہے کی، اطمينان سے منزل پر پہنچ کر دونوں پڑھ لی جاتيں، ہاں جمع صوری اُن کی تعجيل ہی سے ممکن، تو حديث اُسی طرف ناظر، بالجملہ شک نہيں کہ يہ روايت بھی اُنہيں احاديث مجملۃ الکيفيۃ سے ہے جسے مُلّاجی نے خواہی نخواہی جمع حقيقی ميں نص مفسر ناقابل تاويل مان ليا، الحمداللہ اس تحرير کے بعد مرقاۃ شرح مشکٰوۃ کے مطالعہ نے ظاہر کيا کہ مولانا علی قاری عليہ رحمۃ الباری نے حديث کی يہی تفسير کی جو فقير نے تقرير کی، فرماتے ہيں:
(جمع بين الظھر والعصر) ای فی المنزل، بان اخر الظھر الٰی اٰخر وقتہ وعجل العصر فی اول وقتہ۔
(ظہر وعصر کو جمع کيا) يعنی قيام گاہ ميں، ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کيا اور عصر کو تعجيل کرکے اول وقت ميں پڑھا۔ (ت)
پھر فرمايا:(جمع بين المغرب والعشاء) ای فی المنزل، کماسبق ۳؎۔
(مغرب وعشاء کو جمع کيا)يعنی جائے قيام ميں، جيسا کہ پہلے گزرا۔ (ت)
(۳؎ مرقاۃ شرح مشکٰوۃ باب صلٰوۃ السفر مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان ۳/۲۲۵)
حديث دوم :اور تم نے کيا جانا کيا حديث دوم وہ حديث جسے جمع صلاتين سے اصلاً علاقہ نہيں جس ميں اثبات جمع کا نام نہيں نشان نہيں، بو نہيں، گمان نہيں۔ خود قائلينِ جمع نے بھی اُسے مناظرہ ميں پيش نہ کيا، ہاں بعض علمائے شافعيہ نے شرح حديث ميں استطراداً جس طرح شراح بعض فوائد زوائد حديث سے استنباط کرجاتے ہيں لکھ ديا کہ اس ميں جمع سفر پر دليل ہے ملّاجی چار طرف ٹٹول ميں تھے ہی تقليد جامد شافعيہ کی لاٹھی پکڑے انہيں بند کيے پہنچے فيہ دليل پر ہاتھ پڑا بحکم لکل ساقطۃ لاقطۃ (ہرگری ہوئی چيز کو کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔ ت) جھٹ خوش خوش اٹھالائے اور معرکہ مناظرہ ميں جمادی وہ کيا يعنی حديث صحيحين
عن ابی جحيفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، خرج علينا النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی البطحاء، فتوضأ فصلی لنا الظھر والعصر ۱؎۔
ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت مقامِ بطحاء ميں ہمارے پاس باہر تشريف لائے تو وضو کيا اور ہميں ظہر وعصر کی نماز پڑھائی۔
(۱؎ صحيح مسلم: باب سترۃ المصلّی مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۹۶)
ولفظ البخاری، خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ، فصلی بالبطحاء الظھر رکعتين والعصر رکعتين ۲؎۔
اور بخاری کے الفاظ يوں ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس باہر تشريف لائے اور مقامِ بطحاء ميں ظہر کی دو۲ رکعتيں اور عصر کی بھی دو۲ رکعتيں اور فرمائيں۔ (ت)
(۲؎ صحيح بخاری کتاب المناقب، باب صفت النبی صلی اللہ عليہ وسلم ،مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ،۱/۵۰۲)
سچ تو ہے مُلّاجی کی داد نہ فرياد، اب کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت اسے جمع حقيقی کی دليل نہ صرف دليل بلکہ صاف صريح نہ صالح تاويل بتانا کن کھلی آنکھوں کا کام ہے سبحان اللہ! حديث کا مفاد صرف اتنا کہ حضور والا صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے دوپہر کو يا ظہر کے اول وقت يا عصر سے پہلے خيمہ اقدس سے برآمد ہوکر وضو کيا اور ظہر وعصر دونوں اُسی موضع بطحاء ميں ادا فرمائيں اس ميں تو مطلق جمع بھی نہ نکلی نہ کہ جمع حقيقی ميں نص ہو، ملّاجی تو آپ جانيں ايک ہوشيار ہيں خود سمجھے کہ حديث مطلب سے محض بے علاقہ ہے لہذا يہ نامندمل زخم بھرنے کو بشرم عوام کچھ عربی بولے اور يوں اپنی نحودانی کے پردے کھولے کہ ف۱ ہاجرہ خروج ووضو وصلاۃ سب کی ظرف ہے اور فاترتيب بے مہلت کےلئے تو بمقتضائے فامعنی يہ ہُوئے کہ يہ سب کام ہاجرہ ميں ہوليے،
(ف۱ معيارالحق ص ۳۶۷۔۳۶۹)
ظاہر يہی ہے تو اس سے عدول بے مانع قطعی ناروا، علاوہ بريں عصر ظہر پر معطوف اور صلّٰی توضأ سے بے مہلت مربوط تو معطوفِ معمول کو جُدا کرلينا کيونکر جائز اھ ملخصا مھذبامترجما اس پر بہت وجوہ سے رَد ہيں، مثلاً
اول: فاکوترتيب ذکری کافی، مسلم الثبوت ميں ہے:
الفاء للترتيب علٰی سبيل التعقيب ولوفی الذکر ۱؎۔
فاء ترتيب کے لئے بطور تعقيب ہے خواہ يہ ترتيب ذکر ميں ہو۔ (ت)
(جيسا کہ فواتح الرحموت ميں ہے۔ ت) تزوج فولدلہ ميں کون کہے گا کہ نکاح کرتے ہی اُسی آن ميں بچّہ پيدا ہوتو جيسے وہاں تقريباً ايک سال کا فاصلہ منافی مقتضائے فانہیں، ظہر وعصر ميں دو۲ ساعت کا فاصلہ کيوں منافی ہوگا۔
(۲؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع المستصفی ، بحث الفاء للتعقيب ، مطبوعہ منشورات الشريف الرضی قم ايران۱/۲۳۴)
ثالث: ہاجرہ ظرف خروج ہے ممکن کہ خروج آخر ہاجرہ ميں ہوکہ وضو ونماز ظہر تک تمام ہوجائے اور نمازِ عصر بلامہلت اُس کے بعد ہو، ہاجرہ کچھ دوپہر ہی کو نہيں کہتے زوال سے عصر تک سارے وقتِ ظہر کو بھی شامل ہے کمافی القاموس۔ تو مخالفت ظاہر کا ادعا بھی محض باطل۔
رابع: حديث مروی بالمعنٰی ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے تصريح کی کہ ايسی حديث کے فا و واو وغيرہما سے استدلال صحيح نہيں
کما فی الحجۃ البالغۃ۔ يہ تلخيص وتہذيب اجوبہ ہے وقد ترکنا مثلھا فی العدد
(اور ہم نے اتنے ہی جوابات ترک کردئے ہيں۔ ت) وانا اقول وبحول اللّٰہ اصول۔
خامس :ہاجرہ کو ظرف افعال ثلثہ کہنا محض ادعائے بے دليل ہے ''و '' تعقيب چاہنی ہے۔ اتحاد زمانہ نہيں چاہتی بلکہ تعدد واجب کرتی ہے کہ تعقيب بے تعدد معقول نہيں۔
سادس :ظرفيت ثلٰثہ فاسے ثابت يا خارج سے اول بداہۃً باطل کماعلمت برتقدير ثانی حديث فالغومحض ہے کہ عصر فی الہاجرہ اُسی قدر سے ثابت، پھر باوصف لغويت اُسی کی طرف اسناد کہ بمقتضائے فا يہ معنی ہوئے اور عجيب تر۔
سابع: ذرا صفت حجۃ الوداع ميں حديث طويل سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما صحيح مسلم وغيرہ ميں ملاحظہ ہو، فرماتے ہيں:
فلما کان يوم الترويۃ توجھوا الی منٰی فاھلوا بالحج ورکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم فصلی بھا الظھر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ۳؎۔
جب آٹھويں ذی الحجہ کی ہُوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم حج کا احرام باندھ کر منٰی کو چلے اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سوار ہوئے تو منٰی ميں ظہر وعصر ومغرب وعشا وفجر پانچوں نمازيں پڑھيں۔ (م)
(۳؎ الصحيح لمسلم باب حجۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۹۶)
ملّاجی وہی فا ہے وہی ترتيب وہی عطف وہی ترکيب۔ اَب يہاں کہہ دينا کہ سوار ہوتے ہی معاً بے مہلت پانچوں نمازيں ايک وقت ميں پڑھ ليں جو معنی صلی الظھر والعصر الخ کے يہاں ہيں وہی وہاں اور يہ قطعاً محاورہ عامہ شائعہ سائغہ ہے کہ اصلاً مفيد وصل صلوات نہيں ہوتا ومن ادعی فعليہ البيان (جو شخص دعوٰی کرتا ہے اس کے ذمّے دليل ہے۔ ت)
ثامن: کلام متناقض ہے کہ اوّل کلام ميں حکم وصل سے عصر کا فعل خلاف ظاہر مانا يہ دليل صحت ہے آخر ميں کيونکر جائز کہا يہ دليل فساد۔
تاسع: تاويل کے لئے قطعيتِ مانع ضروری جاننا عجب جہل ہے کيا اگر کسی حديث کے ظاہر سے ايک معنی متبادر ہوں اور دوسری حديث صحيح اُس کے خلاف ميں صريح تو حديث اول کو اس کے خلاف ہی پر حمل واجب ہے کہ بے مانع قطعی ظاہر سے عدول کيونکر ہو نقل کر لانا سہل ہے محل ومقام ومقصد کلام کا سمجھنا نصيب اعدا۔
عاشر :آپ جو اپنی نصرت خيالات کو احاديث صحيحہ ميں جابجا تاويلاتِ رکيکہ باردہ کرتے ہيں اُن کے جواز کا فتوٰی کہاں سے پايا، مجتہدات ميں قاطع کہاں، مثلاً وقتِ ظہر يک مثل بنانے کو جو حديث صحيح صريح بخاری حتی ساوی الظل التلول کے معنی بگاڑے جن کا ذکر اِن شاء اللہ تعالٰی عنقريب آتا ہے اُس کا عذر کيا معقول ارشاد ہوتا ہے: منشاء تاويلات کا يہی ہے کہ احاديثِ صحيحہ جن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد ايک مثل کے وقت ظہرکا نہيں رہتا ثابت ہيں پس جمعاً بين الاولہ يہ تاويليں حقہ کی گئيں۱؎ اب خدا جانے بے قطعيت مانع يہ تاويليں حقہ کيونکر ہوئيں مخالفتِ ظاہر کے باعث سلفہ کيوں نہ ہوگئيں۔
(۱؎ معيارالحق ، مسئلہ چہارم ، بحث آخر وقت ظہر الخ مکتبہ نذيريہ لاہور ص ۳۵۴)