Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
40 - 157
آخر کتاب ميں فرمايا ف۲: نصوص قاطعہ تاويل۔ اس سے اوپر لکھا: احاديث ف۳ صحاح جو جمع بين الصلاتين پر قطعاً اور يقينا دلالت کرتی ہيں۔
(ف۲ معيارالحق   ص ۴۱۸ )  ( ف۳ معيارالحق    ص۴۰۳)
بہت اچھا ہم بھی مشتاق ہيں مگر بے حاصل ؎
بہت شور سُنتے تھے پہلو ميں دل کا

جو چپراتو اِک قطرہ خُوں نہ نکلا

حضرت بکمال عرقريزی دو۲ حديثيں تلاش کرکے لائے وہ بھی ثمرہ نظر شريف نہيں بلکہ مقلدين شافعيہ کی تقليد جامد سے۔   

حديث اوّل: بعض طرقِ حديث سيدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس جناب سے روايت صحيحہ معروفہ مشہورہ مرويہ کبار ائمہ تو وہ تھی جو ان احاديث مجملہ سے حديث چہارم ميں گزری جس ميں سوا جمع کے کوئی کيفيت مخصوصہ مذکور نہ تھی جماہےر ائمہ وحفّاظ نے اسے يوں ہی روايت کيا۔
رواہ عن ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ جماعۃ من الحفاظ، منھم سفيٰن الثوری وقرۃ بن خالد ومالک بن انس واٰخرون، اماسفيٰن فعند ابن ماجۃ، واماقرۃ فعنہ خالد بن الحارث عند مسلم، وعبدالرحمٰن بن مھدی عندالطحاوی، وامامالک فعنہ الشافعی فی مسندہ، وابن وھب عندالطحاوی، وابوالقاسم عندالنسائی، وابوعلی الحنفی عندالدارمی، وعن الدارمی، مسلم فی صحيحہ۔
اس حديث کو ابوالزبير سے، اس نے ابوالطفيل سے، اس نے معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، حفّاظ کی ايک جماعت نے روايت کيا ہے، جن ميں سفيان ثوری، قرۃ ابن خالد، مالک بن انس اور ديگر محدثين شامل ہيں۔ سفيان ثوری کی روايت ابن ماجہ کے ہاں ہے۔ قرۃ ابن خالد سے خالد ابن حارث نے جو  روايت لی ہے وہ مسلم ميں ہے، اور جو عبدالرحمان ابن مہدی نے لی ہے وہ طحاوی ميں ہے۔ مالک سے جو روايت شافعی نے لی ہے وہ ان کے مسند ميں ہے۔ جو ابنِ وہب نے لی ہے وہ طحاوی کے ہاں ہے۔ جو ابوالقاسم نے لی ہے وہ نسائی کے پاس ہے۔ جو ابوعلی حنفی نے لی ہے وہ دارمی کے ہاں ہے اور دارمی سے مسلم نے اپنی صحيح ميں ذکر کی ہے۔ (ت)
يہی اہلِ علم کے نزديک معروف ہے مگر ايک روايت غريبہ شاذہ بطريق ليث بن سعد عن يزيد بن ابی جيب عن ابی الطفيل يوں آئی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان فی غزوۃ تبوک، اذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظھر حتی يجمعھا الی العصر فيصليھما جميعا، واذا ارتحل بعدزيغ الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم صار، وکان اذاارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاھا مع المغرب ۱؎۔ رواہ احمد وابو داؤد والترمذی وابن حبان والحاکم والدارقطنی والبیھقی۔ زاد الترمذی بعد قولہ: اذا ارتحل بعدزيغ الشمس، عجل العصر الی الظھر وصلی الظھر والعصر جميعا۔ الحديث ۲؎
يعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم غزوہ تبوک ميں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے تو ظہر ميں دير کرتے يہاں تک کہ اُسے عصر سے ملاتے تو دونوں کو ساتھ پڑھتے اور جب دوپہر کے بعد کُوچ فرماتے تو عصر ميں تعجيل کرتے اور ظہر وعصر ساتھ پڑھتے پھر چلتے اور جب مغرب سے پہلے کُوچ کرتے مغرب ميں تاخير فرماتے يہاں تک کہ عشا کے ساتھ پڑھتے اور مغرب کے بعد کُوچ فرماتے تو عشا ميں تعجيل کرتے اُسے مغرب کے ساتھ پڑھتے۔
 (۲؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۷۲)

(۳؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۷۲)
امام ترمذی فرماتے ہيں يہ غريب ہے معروف روايت ابی ھريرہ ہے : حيث قال: حديث الليث  عن يزيد  بن  ابی حبيب عن ابی الطفيل عن معاذ ،حدیث حديث غریب والمعروف عند اھل العلم حدیث معاذ من حديث ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع فی غزوۃ تبوک بين الظھر والعصر، وبين المغرب والعشاء۔ رواۃ قرۃ بن خالد وسفيٰن الثوری ومالک وغير واحد عن ابی الزبير المکی ۳؎۔
چنانچہ ترمذی نے کہا کہ وہ حديث جو ليث نے يزيد ابن ابی حبيب سے، اس نے ابوالطفيل سے، اس نے معاذ سے روايت کی ہے، وہ غريب ہے اور اہلِ علم کے نزديک معروف معاذ کی وہ حديث ہے جو ابوالزبير نے بواسطہ ابوالطفيل معاذ سے روايت کی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کيا۔ اس کو قرۃ ابن خالد، سفيان ثوری، مالک اور دوسروں نے ابوالزبير مکّی سے روايت کيا ہے۔ (ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بين الصلٰوتين        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۲)

(۴؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۳)
پھر ائمہ شان مثل ابوداؤد وترمذی وابوسعيد بن يونس فرماتے ہيں اسے سوا  قتيبہ بن سعيد کے کسی نے روايت نہ کيا يہاں تک کہ بعض ائمہ نے اُس پر غلط ہونے کا حکم فرمايا
۴؎ کمانقلہ الامام البدر  في العمدۃ والشوکانی الظاھری فی شرح المنتقی عن الحافظ ابن سعيد بن يونس
 (جيسا کہ امام بدر نے عمدۃ ميں اور شوکانی الظاہری نے شرح منتقی ميں حافظ ابن سعيد بن يونس سے نقل کيا۔ ت) امام ابوداؤد نےمنکر کہا ۱؎
کمافی البدر المنير وعنہ فی النيل
 (جيسا کہ بدر منير ميں ہے اور اس سے نيل الاوطار نے نقل کيا ہے)
 (۱؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۳)
بلکہ رئيس الناقدين امام بخاری نے اشارہ فرمايا کہ يہ حديث نہ ليث نے روايت کی نہ قتيبہ نے ليث سے سنی بلکہ خالد بن قاسم مدائنی متروک بالاجماع مطعون بالکذب نے قتيبہ کو دھوکا دے کر اُن سے روايت کرادی اُس کی عادت تھی کہ براہِ مکر وحيلہ شيوخ پر اُن کی ناشنيدہ روايتيں داخل کرديتا لاجرم حاکم نے علوم الحديث ميں اُس کے موضوع ہونے کی تصريح کی يہ سب باتيں علمائے حنفيہ مثل امام زيلعی شارح کنز وامام بدر عينی شارح صحيح بخاری وعلّامہ ابراہيم حلبی شارح منيہ کے سوا شافعيہ ومالکيہ وظاہريہ قائلان جمع بين الصلاتين مثلي امام قسطلانی شافعی شارح بخاری وعلّامہ زرقانی مالکی شارح مؤطا ومواہب وشوکانی ظاہری شارح منتقی وغيرہم نے امام ابن يونس وامام ابوداؤد وابوعبداللہ حاکم وامام المحدثين بخاری سے نقل کيں بلکہ انہيں نے اور ان کے غير مثل صاحب بدرمنير وغيرہ نے امام ابوداؤد سے حکم مطلق نقل کيا کہ جو مضمون اس روايت کا ہے اس باب ميں اصلاً کوئی حديث قابلِ استناد نہيں کماسيأتی اِن شاء اللّٰہ تعالٰی ( جيسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آگے آئےگا۔ ت) تو باوصف تصريحات ائمہ شان خصوصاً بخاری کے پھر ملّاجی کا اس روايت کی تصحيح ميں عرق ريزی بے حاصل اور توثيق ليث وقتيبہ وغيرہما رواۃ وقبول تفرد ثقہ کے اثبات ميں تطويل لاطائل کرنا کيسی جہالتِ فاحشہ ہے کس نے کہا تھا کہ قتيبہ يا ليث يا يزيدبن ابی حبيب يا معاذاللہ حضرت ابوالطفيل رضی اللہ تعالٰی عنہ ضعيف ہيں، ملّاجی بايں  پيرانہ سالی ودعوے محدثی ابھی حديث معلول ہی کو نہيں جانتے کہ اُس کےلئے کچھ ضعفِ راوی ضرور نہيں بلکہ باوصف وثاقت وعدالت رواۃ حديث ميں علت قارحہ ہوتی ہے کہ اُس کا رَد واجب کرتی ہے جسے بخاری وابوداؤد وغيرہما سے ناقدين پہچانتے ہيں بخاری وابوسعيد وحاکم نے بھی تو قتيبہ پر جرح نہ کی تھی بلکہ يہ کہا تھا کہ اُنہيں دھوکا دياگيا غلط ميں پڑگئے پھر اس سے عدالتِ قتيبہ کو کيا نقصان پہنچا، وثاقتِ قتيبہ سے حديث کو کيا نفع ملا، ہاں يہ دفتر توثيق اپنے پےشوا ابن حزم غير مقلد لامذہب کو سنائيے جس خبيث اللسان نے آپ کو اس روايت کے رَد ميں سيدنا ابوالطفيل صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عياذاً باللہ مقدوح  و مجروح بتايا جسے دوسرے غير مقلّد شوکانی نے نقل کيا، غير مقلدوں کی عادت ہے کہ جب حديث کے رَد پر آتے ہيں خوفِ خدا وشرمِ دُنيا سب بالائے طاق رکھ جاتے ہيں۔ اسی ابن حزم نے باجے حلال کرنے کےلئے صحيح بخاری شريف کی صحيح ومتصل حديث کو بزعمِ تعليق رَد کيا جس کا بيان امام نووی رحمۃ اللہ تعالٰی عليہ نے شرح صحيح مسلم شريف ميں فرمايا وہی ڈھنگ موصول کو معلق مسند کو مرسل بناکر احاديث صحيحہ جيدہ کو رَد کرنے کےلئے آپ نے سيکھے ہيں،
Flag Counter