Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
4 - 157
اقول: ویغنی عن الکلام علیہ مایأتی فی کلام ابن عائشۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔
میں کہتا ہوں اس پر جرح کیلئے وہ بحث کافی ہے جو عنقریب ابنِ عائشہ رحمہ اللہ تعالٰی کے کلام میں آرہی ہے۔
ومنھا(۵) حدیث سیدنا معاذ، الصحیح المارفی العشاء، انکم فضلتکم بھا علی سائر الامم ۱؎، احتج بہ الامام الجلیل الجلال السیوطی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی الخصائص الکبری علی کون العشاء لم یصلھا احد قبلہ ۲؎ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
اور ان میں سے حضرت معاذ کی صحیح حدیث ہے جو گزرچکی ہے، اس میں عشاء کے بارے میں ہے کہ تمہیں اس کے ذریعے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس حدیث سے امامِ جلیل جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر استدلال کیا ہے کہ عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نے نہیں پڑھی۔ (ت)
 (۱؎ الخصائص الکبرٰی    باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس    مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۲۰۴)

(۲؎ الخصائص الکبرٰی    باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس    مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۲۰۴)
اقول: سبحٰن من لایزل المقابلۃ ھھنا بیننا وبین سائر الامم، فکیف دل علی انتفائھا عن سائر الانبیاء سوی نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلیھم وسلم، واعجب منہ ان ذکر العلامۃ الزرقانی تحت قول العیشی الاٰتی، اول من صلی العشاء الاٰخرۃ نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، مانصہ: وعورض بمافی شرح المسند (ای للامام الرافعی الشافعی) ان العشاء لیونس علیہ الصلاۃ والسلام اھ۔ ثم استدرک بقولہ، لکن یؤید خبر الطحاوی (ای اثر العیشی) حدیث معاذ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱؎ اھ۔
 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب    خصائص امتہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعہ عامرہ مصر    ۵/۴۲۵)
میں کہتا ہوں: پاک ہے وہ ذات جس سے لغزش نہیں ہوتی۔ اس حدیث میں تقابل، ہمارے اور باقی اُمتوں کے درمیان ہے۔ اس سے یہ کس طرح ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی نے بھی نہیں پڑھی۔ اور اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ عنقریب علّامہ عیشی کا جو قول آرہا ہے کہ پچھلی عشاء سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے، اس کے ذیل میں علّامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ اس قول کا معارضہ کیا گیا ہے اس روایت سے جو مسند کی شرح میں ہے (یہ شرح امام رافعی شافعی کی ہے) کہ عشاء یونس علیہ السلام کے لئے تھی اھ۔ پھر علّامہ زرقانی نے اس پر استدراک کرتے ہوئے کہا ہے: ''لیکن طحاوی کی خبر (یعنی عیشی کے اثر) کی تائید کرتی ہے حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث۔ (ت)
اقول: لیت شعری، من این جاء التأیید، ولاتعرض فیہ بذکر الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام؟ قال: فقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فضلتم بھا، یعارض روایۃ ان العشاء لیونس علیہ الصلاۃ والسلام ۲؎۔
 (۲؎  شرح الزرقانی علی المواہب    خصائص امتہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعہ عامرہ مصر۵/۴۲۶)
میں کہتا ہوں کاش میری سمجھ میں آسکے کہ تائید کس طرح کرتی ہے جبکہ حدیثِ معاذ میں انبیاء کا سِرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ زرقانی نے مزید کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اس کے ذریعے سے تم کو فضیلت دی گئی ہے، معارض ہے اس روایت سے کہ عشاء یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے تھی۔ (ت)
اقول: انما قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فضلتم بھا علی سائر الامم، وای تعارض بین النفی عنھم والثبوت لبعض الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔
میں کہتا ہوں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ اس کے ذریعے تم کو باقی امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اگر باقی اُمتوں کیلئے یہ نماز ثابت نہ ہو (جیسا کہ حدیثِ معاذ کا تقاضا ہے) اور بعض انبیاء کیلئے ثابت ہو (جیسا کہ شرح مسند میں ہے) تو اس میں کیا تعارض ہے؟ (ت)
ومنھا(۶) قال الامام السیوطی فی الباب المزبور اخرج البخاری عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: اعتم النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ بالعشاء حتی ابھار اللیل، ثم خرج فصلی، فلما قضی صلاتہ قال لمن حضرہ، ابشروا من نعمۃ اللّٰہ علیکم انہ لیس احد من الناس یصلی ھذہ الساعۃ غیرکم۔ اوقال ماصلی ھذہ الساعۃ احد غیرکم ۱؎۔ اھ قلت: واخرجہ مسلم ایضا ۲؎۔
اور ان میں سے ہے کہ امام سیوطی نے اسی باب مذکور میں کہا ہے کہ بخاری نے ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کیلئے اتنا اندھیرا کیا کہ رات اچھی طرح تاریک ہوگئی پھر آپ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہوئے تو حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا: ''تمہیں بشارت ہو کہ اللہ تعالٰی کی تم پر یہ نعمت ہے کہ تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہے جو اس وقت نماز پڑھ رہا ہو''۔ یا آپ نے یوں فرمایا: ''تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہے جس نے اس وقت نماز پڑھی ہو''۔ اھ میں نے کہا: یہ روایت مسلم نے بھی بیان کی ہے۔ (ت)
 (۱؎ الخصائص الکبرٰی،   باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس ، مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۲۰۴)

(۲؎ صحیح لمسلم    باب وقت العشاء وتاخیرہا        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۹)
ومنھا(۷) قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی، واخرج احمد والنسائی عن ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: اخّر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلاۃ العشاء، ثم خرج الی المسجد فاذا الناس ینتظرون الصلاۃ، فقال: اما انہ لیس من اھل ھذہ الادیان احد یذکر اللّٰہ تعالٰی ھذہ الساعۃ غیرکم ۳؎ اھ۔
اور ان میں سے ہے کہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ احمد اور نسائی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشاء میں تاخیر کی، پھر مسجد میں تشریف لائے تو لوگ نماز کا انتظار کررہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ''سُنو! موجودہ ادیان کے پیروکاروں میں سے تمہارے سوا کوئی بھی نہیں ہے جو اس وقت اللہ تعالٰی کو یاد کررہا ہو'' اھ (ت)
(۳؎ الخصائص الکبرٰی    باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس    مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۲۰۴)
اقول: وانت تعلم ان لیس فی شیئ منھا مایدل علی مدعاہ، من ان العشاء لم یصلھا نبی قبل نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلی الانبیاء وبارک وسلم، بل لاتصریح فیہ بنفی ان صلاھا احد ممن قبلنا من سائر الامم؛ بل ولانفی ان صلاھا اللیلۃ احد سوانا؛ انما فیہ نفی صلاۃ غیرنا تلک الساعۃ، فیجوز ان یکون الناس صلوا عاجلین، فانما نفی الانتظار لانفس الصلاۃ ومثلہ ماللبخاری ومسلم عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، لیس احد من اھل الارض، زاد مسلم،، اللیلۃ، ینتظر الصلاۃ غیرکم ۱؎۔
 (۱؎ صحیح مسلم    باب وقت العشاء وتاخیرہا    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۹)
میں کہتا ہوں: تم جانتے ہی ہوکہ ان حدیثوں میں ایسی کوئی بات نہیں جو امام سیوطی کے اس مدعٰی کیلئے دلیل بن سکے کہ عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے نہیں پڑھی، بلکہ اس میں تو یہ بھی نہیں کہ ہمارے علاوہ سابقہ اُمتوں میں سے کسی نے نہیں پڑھی، بلکہ اس میں یہ بھی نہیں کہ آج رات ہمارے سوا کسی نے نہیں پڑھی، اس روایت میں تو صرف اتنا ہے کہ ہمارے سوا کسی نے اس وقت نہیں پڑھی۔ ہوسکتا ہے باقی لوگوں نے اس سے پہلے پڑھ لی ہو۔ اسی کے مطابق بخاری ومسلم کی وہ روایت ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زمین پر بسنے والوں میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے جو مسلم نے ''آج رات'' کا اضافہ کیا ہے نماز کا انتظار کررہا ہو۔
ولھما عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا، وفیہ، ماینتظرھا احد من اھل الارض غیرکم ۲؎۔
  ور بخاری ومسلم نے ام المومنین رضی اللہ عنہما سے یوں روایت کی ہے کہ زمین پر بسنے والوں میں سے تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کا انتظار کررہا ہو۔
(۲؎ صحیح مسلم    باب وقت العشاء وتاخیرہا    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۹)
بل اخرجہ احمد والبخاری ومسلم والنسائی وابن ماجۃ عن انس رضی اللّٰہ تعالی عنہ، وفیہ قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، قد صلی الناس وناموا، وانکم فی صلاۃ ماانتظر تموھا ۳؎۔
اور بخاری ومسلم نے ام المومنین رضی اللہ عنہما سے یوں روایت کی ہے کہ زمین پر بسنے والوں میں سے تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کا انتظار کررہا ہو،
(۳؎ صحیح مسلم    باب وقت العشاء وتاخیرہا    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/۲۲۹)
ونحوہ لاحمد وابی داؤد والنسائی وابن ماجۃ من حدیث ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ فھذا وجہ والثانی ان یکون المراد نفی ان یصلیھا غیرنا من اھل الزمان مطلقا، ویؤیدہ ماللبخاری والنسائی عن المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا۔ ولاتصلی یومئذ الابالمدینۃ ۱؎، فان الیھود کانوا بخیبر والشام وغیرھما اکثر مماکانوا بالمدینۃ الکریمۃ، فلوکانت عندھم لصلیت بغیرھا ایضا۔
بلکہ احمد، بخاری، مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے جو روایت بیان کی ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے اور سو چکے ہیں اور تم جب تک نماز کا انتظار کرتے ہو نماز میں ہی ہوتے ہو۔ اسی طرح کی روایت احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی کی ہے۔ یہ تو ایک توجیہ ہوئی (کہ تخصیص ''اس وقت'' کے اعتبار سے ہے)۔ دُوسری توجیہ یہ ہے کہ تخصیص اس زمانے کے تمام لوگوں کے اعتبار سے ہے۔ اور حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس زمانے کے لوگوں میں سے تمہارے سوا ایسے لوگ کہیں نہیں پائے جاتے جو عشاء کی نماز پڑھتے ہوں۔ اس روایت کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو بخاری ونسائی نے ام المومنین رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے کہ ان دنوں یہ نماز صرف مدینے میں پڑھی جاتی تھی۔ اگر یہودی یہ نماز پڑھتے ہوتے تو مدینہ کی بنسبت خیبر اور شام وغیرہ میں یہودیوں کی تعداد زیادہ تھی تو چاہئے تھا کہ اِن مقامات میں بھی یہ نماز پڑھی جاتی (حالانکہ مدینہ کے سوا کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی) (ت)
 (۱؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۳)
اقول: ولاتخالف بین الوجھین، فان الکافر لاصلاۃ لہ، فانما اثبت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لھم الصورۃ اذ قال، صلی الناس وناموا، وام المؤمنین نفت المعنی۔
میں کہتا ہوں: دونوں توجیہوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ کافر (اگر صورۃً نماز پڑھے بھی تو حقیقۃً اس) کی نماز نہیں ہوتی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے اور سوچکے ہیں، صوری نماز کے لحاظ سے ہے جبکہ ام المومنین حقیقی نماز کی نفی کررہی ہیں۔ (ت)
والثالث ان المراد لم تفرض علی غیرنا فلاینتظرھا ولایصلیھا احد غیرنا، لامن اھل الزمان ولامن امم مضت، وھو الذی صرح بہ فی حدیث معاذ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ فھذا قصوی مایستفاد منہ، ولیس لہ ملحظ اصلا الی نفیھا عن سائر الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔
تیسری توجیہ یہ ہے کہ (تخصیص باعتبار فرضیت کے ہے) چونکہ یہ نماز ہمارے علاوہ کسی پر فرض نہیں کی گئی، نہ موجودہ زمانے کے لوگوں پر، نہ سابقہ اُمتوں پر، اس لئے ہمارے سوا اس کا کوئی انتظار بھی نہیں کرتا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اسی کی تصریح کی گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ یہی کچھ اُس سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ رہا باقی انبیاء سے اس نماز کی نفی کرنا تو اس کی طرف اس حدیث میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ (ت)
بعض احادیث میں صاف تصریح آئی کہ حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما الصلاۃ والتسلیم نے منٰی میں پانچوں نمازیں پڑھیں،
فقد اخرج ابن سعدان ابرٰھیم واسمٰعیل اتیا منی فصلیا بھا الظھر والعصر والمغرب والعشاء والصبح ۱؎۔
ابن سعد نے تخریج کی ہے کہ ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام منٰی کو آئے تو وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں پڑھیں۔ (ت)
 (۱؎ شرح الزرقانی المواہب بحوالہ ابن سعد المقصد الرابع خصائص امۃ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ المصر۵/۴۲۶)
اگر اس حدیث کی سند صحیح یا حسن ہو جب تو قول تخصیص ضعیف ہوہی جائے گا ورنہ قیام دلیل کی حاجت ضرور،
فان الخصائص لاتثبت الابنص صحیح کمانصوا علیہ قاطبۃ، منھم خاتم الحفاظ فی فتح الباری، والقسطلانی فی المواھب، والزرقانی فی شرحہ، وغیرھم فی غیرھا۔
کیونکہ خصوصیات، نص صحیح کے بغیر ثابت نہیں ہوتیں، جیسا کہ سب نے تصریح کی ہے۔ مثال کے طور پر خاتم الحفاظ نے فتح الباری میں، قسطلانی نے مواہب میں، زرقانی نے اس کی شرح میں اور دیگر علماء نے دوسری کتابوں میں۔ (ت)
ہاں اگر یہ کسی صحیح حدیث صریح بے معارض سے ثابت ہوجائے کہ عشاء جس طرح ہمارے سوا کسی امت نے نہ پڑھی ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا کسی نبی نے بھی نہ پڑھی تو بیشک اختصاص مجموعہ پنجگانہ بھی ثابت ہوجائیگا بعض علما نے اس کی بھی تصریح فرمائی، امام جلال الدین سیوطی نے باب مذکور خصائص میں بعد عبارت مسطورہ فرمایا:
وبانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اول من صلی العشاء ولم یصلھا نبی قبلہ ۲؎
اور اس وجہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور آپ سے پہلے کسی نبی نے نہیں پڑھی۔ (ت)
 (۲؎ الخصائص الکبرٰی    باب اختصاصہٖ صلی اللہ علیہ وسلم بمجموع الصلوات الخمس    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/۲۰۴)
امام ابن حجرِ مکّی وشیخ محقق کے اقوال گزرے کہ انبیائے سابقین میں نمازیں منقسم ہونے سے عشاء کو استثناء کرلیا اقول مگر فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس پر بھی کوئی دلیل نہ پائی سوا اُس اثر مقطوع کے کہ امامِ اجل ابوجعفر طحاوی نے شرح معانی الآثار میں امام عبیداللہ بن محمد ابن عائشہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا:
اول من صلی العشاء الاخرۃ نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎۔
سب سے پہلے عشاء ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھی۔
 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب الصلوٰۃ الوسطٰی            مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۲۰)
وکل ماتمسکوا بہ سوی ذلک، اعنی الاحادیث الثلثۃ الاخیرۃ فلامساس لہ بماھنالک کماعلمت۔
اور آخری تین حدیثوں کے علاوہ علماء نے جن روایتوں سے استدلال کیا ہے تو ان کا زیرِ بحث مسئلے سے کچھ تعلق نہیں ہے، جیسا کہ تم جان چکے ہو۔ (ت)
یہ امام ابن عائشہ عیشی نہ صحابی ہیں نہ تابعی نہ تبع سے بلکہ طبقہ عاشرہ میں اتباعِ تبع تابعین سے ہیں ۱۲۲۸ھ میں انتقال فرمایا کمافی الحلیۃ والتقریب ۱؎ وغیرھما (جیسا کہ حلیہ اور تقریب وغیرہ میں ہے۔ ت) اور خود حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وہ حدیثِ صحیح کہ جبریل امین علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے دو۲ روز حضور کی امامت کی ایک دن پانچوں نمازیں اوّل وقت، دوسرے دن آخر وقت پڑھیں، پھر حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰی وتسلیماتہٖ علیہ سے عرض کی:ھذا وقت الانبیاء من قبلک ۲؎۔ یہی وقت حضور سے پہلے انبیاء کے تھے۔
 (۱؎ تقریب التہذیب    مطبوعہ دار نشرکتب اسلامیہ گوجرانوالہ            ص۲۲۷)

(۲؎ سُنن ابی داؤد    اول کتاب الصلواۃ        مطبوعہ آفتاب عالم پریس، لاہور    ۱/۵۶)
رواہ ابوداؤد وسکت علیہ، والترمذی وحسنہ، واحمد وابن خزیمۃ والدارقطنی والحاکم، وصححہ ابن عبدالبر وابوبکربن العربی۔
اس کو ابوداؤد نے بیان کرکے سکُوت اختیار کیا ہے۔ ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ احمد، ابن خزیمہ، دارقطنی اور حاکم نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔ ابنِ عبدالبر اور ابوبکر بن عربی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ (ت)
Flag Counter