وحديث(۷) ترمذی فی کتاب العلل:
حدثنا ابوالسائب عن الجريری عن ابی عثمٰن عن اسامۃ بن زيد رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذاجدبہ السير جمع بين الظھر والعصر، والمغرب والعشاء، قال الترمذی: سألت محمدا، يعنی البخاری عن ھذا الحديث، فقال: الصحيح، ھو موقوف عن اسامۃ بن زيد ۱؎۔
حديث بيان کی ہم سے ابوالسائب نے جريری سے، اس نے ابوعثمان سے، اس نے اسامہ ابن زيد رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو جب چلنے ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو جمع کرتے تھے۔ ترمذی نے کہا کہ ميں نے محمد، يعنی بخاری سے اس حديث کے بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا کہ صحيح يہ ہے کہ اسامہ ابن زيد پر موقوف ہے۔ (ت)
(۱؎ عمدۃ القاری شرح بخاری باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ بيروت ۷/۱۴۹)
نوٹ: يہ حوالہ مجھے ترمذی کی کتاب العلل ميں نہيں مل سکا اور بڑی کوشش سے عمدۃ القاری سے مِلا ہے۔ نذير احمد سعيدی
وحديث(۸) :
احمد بطريق ابن لھيعۃ عن ابن الزبير قال: سألت جابرا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ھل جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بين المغرب والعشاء ؟قال: نعم، عام غزونا بنی المصطلق ۲؎۔
احمد بطريقہ ابن لہيعہ، ابوالزبیر سے راوی ہيں کہ ميں نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا: ''کيا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسم نے کبھی مغرب وعشاء کو جمع کيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا: ہاں، جس سال ہم غزوہ بنی مصطلق کے لئے گئے تھے''۔ (ت)
(۲؎ مسند احمد بن حنبل از مسند جابر بن عبداللہ مطبوعہ دارالفکر بيروت لبنان ۳/۳۴۸)
وحديث(۹) ابن ابی شيبہ وابوجعفر طحاوی :
اما الاول فبطريق ابن ابی ليلٰی عن ھذيل، واما الاٰخر فعن ابی قيس الاودی عن ھذيل بن شرجيل عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع، ولفظ الاٰخر کان يجمع، بين الصلاتين فی السفر ۳؎۔
پہلے (يعنی ابن ابی شيبہ) بطريقہ ابن ابی ليلی، ہذ یل سے، اور دوسرے (يعنی طحاوی) ابوقيس اودی ہے وہ ہذيل ابن شرجيل سے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے سفر کے دوران جمع کيا طحاوی کے الفاظ يوں ہيں: ''جمع کيا کرتے تھے دو نمازوں کو سفر کے دوران ـ.''(ت)
(۳؎ مصنّف ابن ابی شيبہ من قال يجمع المسافر بين الصلٰوتين مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ۲/۴۵۸)
وللطبرانی فی معجميہ الکبير والاوسط عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم بين الظھر والعصر، والمغرب والعشاء، فقيل لہ فی ذلک، فقال: صنعت ذلک لئلا تحرج امتی ۱؎۔
اور طبرانی نے اپنی دونوں معجموں، يعنی کبير اور اوسط ميں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا ۹ تو آپ سے اس بارے ميں پُوچھا گيا، آپ نے جواب ديا کہ ميں نے اس طرح اس لئے کيا ہے تاکہ ميری اُمّت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)
(۱؎ المعمجم الکبير للطبرانی حديث ۱۰۵۲۵ مطبوعہ المکتبۃ الفيصليہ بيروت ۱۰/۲۶۹)
وحديث(۱۰)
طبرانی فی المعجم الاوسط عن عطاعن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين الصلاتين فی السفر ۲؎۔
(قدیم میں یہ روایت ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اورترجمہ قدیم ہی کے مطابق کیا گیا ہے)
طبرانی معجم اوسط ميں ابونضرہ سے، وہ ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو۲ نمازوں کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)
(۲؎ معجم اوسط حديث نمبر ۵۵۵۸ مکتب المعارف رياض ۶/۲۶۲)
وحديث(۱۱) مرسل وبلاغ مالک:
انہ بلغہ عن علی بن حسين، ھو ابن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انہ کان يقول: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذااراد ان يسير يومہ، جمع بين الظھر والعصر، واذا ارادان يسيرليلہ، جمع بين المغرب والعشاء ۳؎۔
مالک کو علی ابن حسين ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے يہ بات پہنچی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب دن کو سفر کرنا چاہتے تھے تو ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے تھے تو مغرب وعشاء کو جمع کرليتے تھے۔ (ت)
(۳؎ مؤطا امام مالک جمع بين الصلاتين مير محمد کتب خانہ کراچی ص ۱۲۶)
ولہذا سيدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ مؤطا شريف ميں حديث پنجم روايت کرکے فرماتے ہيں: بھذا ناخذ، والجمع بين الصلاتين ان تؤخر الاولٰی منھما فتصلی فی اٰخر وقتھا، وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا، وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا ۴؎۔
ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع بين الصلاتين کا طريقہ يہ ہے کہ پہلی کو مؤخر کرکے آخر وقت ميں پڑھا جائے اور دوسری کو جلدی کرکے اول وقت ميں۔ (ت)
(۴؎ مؤطا امام محمد باب الجمع بين الصلاتين فی السفر والمطر مطبوعہ آفتاب عالم پريس لاہور ص۱۳۱)
يعنی جو اس حديث ميں آياکہ سےيد عالم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوکِ ميں ظہر وعصر جمع فرماتے ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع کے معنی جمع صوری ہيں۔ ملّاجی تو ايک ہوشيار ان احاديث اور ان کے امثال کو محتمل وبے سُود سمجھ کر خود بھی زبان پر نہ لائے اور اغوائے عوام کےلئے يوں گول اور پردہ کہہ گئے ف کہ جمع بين الصلاتين فی سفر صحح اور ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سے بروايت جماعت عظيمہ کے صحابہ کبار سے۔
( ف معيارالحق ص ۳۶۶)
پھر پندرہ ۱۵ صحابہ کرام کے اسمائے طيبہ گناکر خود ہی کہا لاکن مجموعہ روايات ميں بعض ايسی ہيں کہ اُن ميں فقط جمع کرنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کا دو نمازوں کو بےان کيا ہے کيفيت جمع کی بيان نہيں کی پس حنفی لوگ اُن حديثوں ميں يہ تاويل کرتے ہيں کہ مراد اس سے جمع صوری ہے اسی لئے وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں ذکر کرتے ہيں تو مصنفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر محمول سمجھیں اھ ملخصاً۔
اقول: بالفرض اگر جمع صوری ثابت نہ ہوتی تاہم محتمل تھی اور احتمال قاطع استدلال نہ کہ جب آفتاب کی طرح روشن دلیلوں سے جمع صوری کا احاديثِ صحيحہ سے ثبوت ظاہر تو اب براہِ تلبيس پندرہ۱۵ صحابہ کی روايت سے اپنے مطلب کا ثبوت صحيح بتانا اور جابجا عوام کو دہشت دلانے کےلئے کہيں چودہ کہيں پندرہ سُنانا کيا مقتضائے مُلّائيت ہے اب تو مُلّاجی کی تحرير خود اُن پر بازگشتی تير ہوئی کہ جب احاديث صحيحہ صريحہ سے جمع صوری ثابت تو منصفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر محمول سمجھيں، رہے وہ صحابہ جن کی روايات اپنے زعم ميں صريح سمجھ کر لائے اور نص مفسر ناقابل تاويل کہتے ناظرين نقاد کا خوف نہ لائے وہ صرف چار ہيں دو جمع تقديم دو جمع تاخير ميں، اُن روايات کا حال بھی عنقريب اِن شاء اللہ القريب المجيب کھلاجاتا ہے اُس وقت ظاہر ہوگا کہ دعوٰی کردينا آسان ہے مگر ثبوت ديتي تين ہاتھ پيراتا ہے وللہ الحجۃ الساميہ۔
فصل دوم ابطال دلائل جمع تقديم:
واضح ہوکہ جمع تقديم غايت درجہ ضعف وسقوط ميں ہے حتی کہ بہت علمائے شافعيہ ومالکيہ تک معترف ہيں کہ اُس کے باب ميں کوئی حديث صحيح نہ ہوئی مگر مُلّاجی اپنی مُلّائیت کے بھروسے بيڑا اٹھا کر چلے ہيں کہ اُسے احاديث صحيحہ صريحہ مفسرہ قاطعہ سے ثابت کر دکھائيں گے ؎
چلاتو ہے وہ بت سيمتن شب وعدہ
اگر حجاب نہ روکے حيانہ ياد آئے
جمع تقديم وتاخير دونوں کی نسبت حضرت کے يہی دعوے ہيں، ابھی سُن چکے کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں پھر بعد ذکرِ احاديث ف۱ فرمايا يہ ہيں دلائل ہمارے جواز جمع پر جن ميں کسی طرح عذر اور تاويل اور جرح اور قدح کو دخل نہيں۔