حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع بین الصلاتین سے منع کرناحالتِ اقامت میں بلاعذر تھا جیسا کہ شاہد ہے اس تاویل پر اتفاق جمہور صحابہ ومن بعدہم کا اوپر عدم جواز بلاعذر کے، تو اس حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما میں جمع فعلی مراد لینے سے چارہ نہیں اور خود ملّاجی نے امام ابنِ حجر شافعی اور اُن کے توسط سے امام قرطبی وامام الحرمین وابن المامون وابن سید الناس وغیرہم سے یہاں ارادہ جمع فعلی کی تقویت وترجیح نقل کی معہذا قطع نظر اس سے کہ روایت صحیحین میں حضرت ابن عباس کے تلامذہ وراویانِ حدیث جابر بن زید وعمروبن دینار نے ظناً حدیث کا یہی محمل مانا
قال ابن سیدالناس: وراوی الحدیث ادری بالمراد من غیرہ
(ابن سیدالناس نے کہا ہے کہ حدیث کا راوی، دوسرے شخص کی نسبت حدیث کی مراد سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے۔ ت) روایت نسائی میں خود ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس جمع کے جمع فعلی ہونے کی تصریح فرمادی کہ ظہر ومغرب میں دیر کی اور عصر وعشاء میں جلدی یہ خاص جمع صوری ہے اب کسی کو محل سخن نہ رہا تھا تمہارے امام شوکانی غیر مقلد نے نیل الاوطار میں کہا:
ممایدل علی تعین حمل حدیث الباب علی الجمع الصوری، مااخرجہ النسائی عن ابن عباس (وذکر لفظہ قال) فھذا ابن عباس، راوی حدیث الباب، قدصرح بان مارواہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ۳؎۔
(۳؎ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار باب جمع المقیم لمطر اوغیرہ مطبوعہ مصطفی البابی مصرص ۱۳۲)
جو چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس باب سے متعلق حدیث کا جمع صوری پر حمل کرنا متعین ہے، ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو نسائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے (اس کے بعد شوکانی نے مذکورہ روایت بیان کی ہے اور کہا ہے) یہ ابن عباس، جو اس موضوع سے متعلق حدیث کے (اولین) راوی ہیں خود تصریح کررہے ہیں کہ انہوں نے جمع بین الصلاتین کی جو روایت بیان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ ت)
شوکانی نے اس ارادہ کے اور چند مؤیدات بھی بیان کیے اور انکار جمع صوری اور آپ کے زعم باطل مصیبت کی اپنی بساط بھر خوب خوب خبریں لی ہیں جی میں آئے تو ملاحظہ کرلیجئے بالجملہ شک نہیں کہ حدیث میں مراد صوری ہے اب اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی تصریح موجود ہے کہ جمع حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بنظرِ رحمت وآسانی اُمّت کی تھی، مُلّاجی! اب اپنی مصیبت کی خبریں کہئے۔
سادساً: عجب تر یہ کہ یہی صاحب جنہوں نے جمع صوری کو باعثِ مشقت ومنافی رخصت ماناخود اسی حدیثِ ابن عباس کو جمع صوری سے تاویل کرگئے کما افاد الامام الزیلعی وغیرہ (جیسا کہ امام زیلعی وغیرہ نے اس کا افادہ کیا ہے۔ ت) یہ صریح منافقت ہے۔
اقول: مُلّاجی تو تقلید جامد کا جامہ پہنے بیٹھے ہیں اس تناقض میں بھی تقلید کرگئے حدیث طبرانی مفید جمع صوری کہ عنقریب آتی ہے حضرت اس کے جواب میں اَن کہی بولتے ف۱ ہیں
(ف۱ معیار الحق ص۴۰۰ )
کہ اس میں کیفیت اُس جمع کی ہے جو حالتِ قیام میں بلاعذر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جمع کی تھی جیسا کہ روایت میں ابن عباس کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالت قیام میں مدینہ میں جمع صوری کی تھی۔ ملّاجی! ذرا آنکھ ملاکر بات کیجئے اب وہ مصیبت رحمت ورافت کیونکر ہوگئی۔
سابعاً: حدیث حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی احمد وابوداؤد وترمذی جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زنان مستحاضہ کے لئے جمع صوری پسند فرمائی ہے ملّاجی کو وہاں بھی یہی عذر معمولی پیش آیا ف۲ کہ وہ مقیم تھی پس مقیم پر مسافر کی نماز کو قیاس مع الفارق ہے۔
( ف۲ معیارالحق ص۴۱۸)
اقول :مُلّا جی جمع صوری تو عوام کیا اکثر خواص کو بھی نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن تھی وہ بھی سفر کے کھُلے میدانوں میں، اب کیا دُنیا پلٹی کہ پردہ نشین زنان ؎۳ ناقصات العقل کے لئے گھر کی چار دیواریوں میں ممکن ہوگئی۔(؎۳ یعنی یہ حکم اب بھی ہر مستحاضہ کیلئے ہے تو ثابت ہوا کہ پردہ نشین زنان ناقصات العقل کو جمع صوری میسر ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)
ثامناً: عبدالرزاق مصنّف میں بطریق عمروبن شعیب راوی: قال، قال عبداللّٰہ: جمع لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، مقیما غیر مسافر، بین الظھر والعصر، والمغرب، والعشائ، فقال رجل لابن عمر: لم تری النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فعل ذلک؟
اس نے کہا عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمارے لئے دو۲ نمازوں کو جمع کیا جبکہ آپ مقیم تھے، مسافر نہ تھے۔ یعنی ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو۔ ایک آدمی نے ابن عمر سے پُوچھا کہ آپ کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس طرح کيوں کيا تھا؟ تو انہوں نے جواب ديا تاکہ امت پر تنگی نہ ہو، اگر کوئی شخص جمع کرلے۔ (ت)
(۱؎ مصنّف ابی بکر عبدالرزاق حديث ۴۴۳۷ مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت ۲/۵۵۶)
ابن جرير اس جناب سے بايں لفظ راوی: خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما، ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہم پر جلوہ فرما ہُوئے تو آپ ظہر ميں تاخير کرکے اور عصر ميں تعجيل کرکے دونوں کو جمع کرليتے تھے، اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشاء ميں تعجيل کرکے دونوں کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)
(۲؎ کنزالعمال الاکمال من صلٰوۃ المسافر حديث ۲۲۷۸۶ مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت ۸/۲۵۰)
نيز ابن جرير کی دُوسری روايت ميں اُسی جناب سے يوں ہے: اذابادر احدکم الحاجۃ فشاء ان يؤخر المغرب ويعجل العشاء ثم يصليھما جميعا فعل ۳؎۔
اگر تم ميں سے کسی کو کسی ضرورت کی بنا پر جلدی ہو اور وہ چاہے کہ مغرب کو مؤخر کرکے اور عشاء ميں جلدی کرکے دونوں کو يکجا پڑھ لے، تو ايسا کرلے۔ (ت)
(۳؎ کنزالعمال الاکمال من صلٰوۃ المسافر ۲۰۱۹۰ مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت ۷/۵۴۷)
ان حديثوں سے بھی ظاہر کہ جمع صوری ميں بےشک آسانی ورحمت اور وقت حاجت عام لوگوں کو اس کی اجازت۔
تاسعا: عبدالرزاق صفوان بن سليم سے راوی قال جمع عمربن الخطاب بين الظھر والعصر في يوم مطیر ۴؎ ۔
يعنی امیرالمؤ منين فاروق اعظم نے مينہ کے سبب ظہر وعصر جمع کی۔
(۴؎ المصنّف لعبدالرزاق ،باب جمع بين الصلٰوتين فی الحضر حديث ۴۴۴۰،مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت،۲/۵۵۶ )
اقول: ظاہر ہے کہ اميرالمؤمنين کے نزديک جمع وقتی حرام وگناہِ کبيرہ ہے جس کا بيان اِن شاء اللہ المنان فصل چہارم ميں آتا ہے لاجرم جمع صوری فرمائی۔
عاشراً: طبرانی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علےہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء يؤخر ھذہ فی اٰخر وقتھا ويعجل ھذہ فی اوّل وقتھا ؎۱
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مغرب وعشاء کو جمع فرماتے، مغرب کو اس کے آخر وقت ميں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اوّل وقت میں(م)۔
(۱؎ المعجم الکبير للطبرانی عن عبداللہ ابن مسعود حديث ۹۸۸۰ مطبوعہ المکتبۃ الفيصليۃ بيروت ۱۰/۴۷)
يہ وہی حديث طبرانی ہے جس ميں جمع صوری ملّاجی ابھی ابھی مان چکے ہيں اس کی نسبت باقی کلام کا رَد اِن شاء اللہ العزيز آئندہ آتا ہے غرض شاباش ہے تمہارے جگرے کو کہ صحيح حديثوں کے رَد وابطال ميں کوئی دقيقہ مغالطہ جاہلين ومکابرہ عالمين وتقليد مقلدين کا اُٹھا نہ رکھو اور پھر عمل بالحديث کی شيشی کو ٹھيس تک نہ لگے ع
چوں وضو ئےمحکم بی بی تميز