Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
36 - 157
اقول: دن ٹال کر گھر پہنچ کر اکٹھی پڑھ لینے کی رخصت ہو تو اور آسانی ہے اور بالکل معاف ہوجائے تو پُوری چھٹی رخصت میں آسانی درکار ہے پُوری آسانی کس نے مانی!
خامساً :احمد بخاری مسلم ابوداؤد ونسائی طحاوی وغیرہم بطریق عمروبن دینار عن جابر بن زید حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:وھذا لفظ مسلم، قال: صلیت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا، قلت: یاابا الشعثاء! اظنہ اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجبل العشاء، قال: وانا اظن ذلک ۱؎۔
اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں، کہا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہ میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور اکٹھی سات رکعتیں بھی۔ اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا ''اے ابوالشعثاء ! میرا خیال ہے کہ انہوں نے ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ہوگا''۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے''۔ (ت)
(۱؎ الصحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی۱/۲۴۶)
مالک احمد، مسلم، ابوداؤد ترمذی نسائی طحاوی وغیرہم اُسی جناب سے بطرق شتی والفاظ عدیدہ راوی:

وھذا حدیث مسلم بطریق زھیرنا ابوالزبیر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الظھر والعصر جمیعا بالمدینۃ فی غیر خوف ولاسفر، قال ابوالزبیر: فسألت سعیدا لم فعل ذلک؟ فقال: سألت ابن عباس کماسألتنی، فقال: اراد ان لایحرج احد من اُمتہ ۲؎۔
اور یہ حدیث مسلم کی بواسطہ ابو الزبیر ہے کہ ہم سے بیان کیا سعید ابن جبیر نے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور سفر کے مدینہ میں ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں، ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پُوچھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے اسی طرح میں نے ابن عباس سے پُوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)
 (۲؎ الصحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۴۶)
وفی اخری لہ وللترمذی بطریق جیب ابن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس، قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین الظھر والعصر، وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ فی غیر خوف ولامطر ۱؎۔
مسلم نے ایک اور روایت میں اور ترمذی نے بواسطہ جیب ابن ابی ثابت، سعید ابن جبیر سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی    ماجاء فی الجمع بین الصلٰوتین        مطبوعہ امین کمپنی اردوبازار دہلی    ۱/۲۶)
وللطحاوی عن صالح مولی التوأمہ عن ابن عباس، فی غیر سفر ولامطر ۲؎۔
اور طحاوی نے صالح مولٰی التوأمہ کے واسطے سے ابن عباس کے یہ الفاط نقل کئے ہیں ''بغیر سفر اور بارش کے''۔ (ت)
 (۲؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلٰوتین کیف سو    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)
وفی لفظ للنسائی اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیٰن عن عمر وعن جابر بن زید عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: صلیت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالمدینۃ، ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا، اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجل العشاء ۳؎۔
اور نسائی کے الفاظ یوں ہیں: خبر دی ہمیں قتیبہ نے کہ حدیث بیان کی ہم سے سفیٰن نے عمرو سے، اس نے جابر سے کہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور سات رکعتیں بھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا تھا اور عصر میں جلدی کی تھی، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا تھا اور عشاء میں جلدی کی تھی۔ (ت)
(۳؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)
وفی لفظ لہ عن عمروبن ھرم عن جابر بن زید عن ابن عباس انہ صلی بالبصرۃ، الاولٰی والعصر، لیس بینھما شیئ، والمغرب والعشاء، لیس بینھما شیئ، فعل ذلک من شغل۔
نسائی کی اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ عمروابن ہرم، جابر ابن زید سے راوی ہیں کہ ابن عباس نے بصرہ میں ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا، ان کے درمیان کوئی شَے حائل نہ تھی، اور مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ان کے درمیان کوئی شیئ حائل نہ تھی۔ اس طرح انہوں نے ایک مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔
و زعم ابن عباس انہ صلی مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم  بالمدینۃ  الاولی والعصر، ثمان سجدات لیس بینھما شیئ ۱؎۔
ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بھی ظہر وعصر اکٹھی پڑھی تھیں یہ آٹھ رکعتیں تھیں اور ان دو کے درمیان اور کوئی شے نہ تھی۔
 (۱؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)
ولمسلم بطریق الزبیر بن الخرّیت عن عبداللّٰہ بن شقیق ان التاخیر کان لاجل خطبۃ خطبھا ۲؎۔
مسلم نے زبیر ابن خرّیت کے واسطہ سے عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی کہ یہ تاخیر ایک خطبہ دینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
(۲؎ صحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۶)
ولہ بطریق عمران بن حُدیر عن عبداللّٰہ المذکور عن ابن عباس، فی القصۃ، قال: کنا نجمع بین الصلاتین علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎۔
اور مسلم نے بطریقہ عمران ابن حدیر، عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے مذکورہ واقعے میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دو۲ نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے۔
 (۳؎ صحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۶)
وللطحاوی من ھذا الوجہ، قدکان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ربما جمع بینھما بالمدینۃ ۴؎۔
اور طحاوی اسی سند سے ناقل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا دو نمازوں کو مدینہ میں اکٹھا پڑھا۔ (ت)
 (۴؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلٰوتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)
ان روایاتِ صحاح سے واضح کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسی حالت میں کہ نہ خوف تھا نہ سفر نہ مرض نہ مطر محض بلاعذر خاص مدینہ طیبہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا بجماعت جمع فرمائیں سفر وخطر ومطر کی نفی تو خود احادیث میں مذکور اور مرض بلکہ ہر عذر ملحی کی نفی سوق بیان سے صاف مستفاد معہذا جب نمازیں جماعت سے تھیں تو سب کا مریض ومعذور ہونا مستبعد پھر راوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اسی بناء پر صرف طول خطبہ کے سبب تاخیر مغرب واستناد بجمع مذکور انتفائے اعذار پر صریح دلیل حالانکہ مقیم کیلئیبے عذر جمع وقتی ملّاجی بھی حرام جانتے ہیں،
حدیثِ مسلم انما التفریط علی من لم یصل الصلاۃ حتی یجیئ وقت الصلاۃ الاخری ۱؎
 (۱؎ الصحیح لمسلم        باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۳۹)
گناہ اس پر ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہوجائے۔ ت) کے جواب میں کیا ف فرمائیں گے
 (ف ۱ معیار الحق    ص۴۱۷)
یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بلاعذر نماز میں تاخیر کرے۔
حدیث امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ان الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر ۲؎
 (۲؎ موطا امام محمد باب الجمع بین الصلٰوتین فی السفر والمطرمطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور۱/۱۷۹)
 (ایک وقت میں دو۲ نمازوں کو جمع کرنا کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ت) کے جواب میں کہہ چکے ہیں ف۲
 (ف۲معیار الحق    ص۴۰۰)
Flag Counter