Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
35 - 157
 (۴) اقول: بہت زور شور سے جمع کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما گنے جاتے ہیں
وسیأتی بعض روایاتہ فی الحدیث الاول والباقی فی الفصل الثالث اِن شاء اللّٰہ تعالٰی
 (عنقریب حدیث اول کے تحت ان سے بعض مرویات کا ذکر آئےگا اور بقیہ کا ذکر فصل ثالث میں آئے گا اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) حالانکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشا کو سفر میں ایک بار کے سوا کبھی جمع نہ فرمایا
کماسیأتی فی اٰخر الفصل الرابع اِن شاء اللّٰہ تعالٰی
 (جیسا کہ چوتھی فصل کے آخر میں آرہا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) ظاہر ہے کہ وہ بار حجۃ الوداع کی شب مزدلفہ تھی تو ضرور وہی جمع صوری منظور جیسا کہ اُن کی روایاتِ صحیحہ نے واضح کردیا جس کا بسط حدیث اوّل میں گزرا۔
 (۵)اقول: لُطف یہ کہ ان عبداللہ بن عمر سے قصہ صفیہ بنت ابی عبید میں عشائین کا جمع جو مروی ہوا اُس کے جمع حقیقی ہونے پر بہت زور دیاجاتا ہے حالانکہ خود اُن کے صاحبزادے سالم کو اُس شب بھی اُن کے ہمراہ تھے صراحۃً فرماچکے کہ حضرت عبداللہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ کی جیسا کہ حدیث نسائی سے گزرا اور سالم کا اُس رات ساتھ ہونا وہیں حدیث بخاری سے ظاہر ہوچکا
قلت لہ: الصلاۃ، قال: سر ۱؎۔ الحدیث
 (میں نے ان سے نماز کے متعلق عرض کیا تو انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ الحدیث۔ ت) تو قطعاًیقینا جمع صوری ہی مراد ہے لاجرم روایات مفسرہ نے تصریح فرمادی یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ بعونہٖ تعالٰی بہت سے خیالات مخالفین کا علاج کافی ہوگا۔
 (۱؎ صحیح البخاری    باب یصلی المغرب ثلثافی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۴۸)
 (۶) رواۃ جمع میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی ہیں کمایأتی فی الحدیث الثانی
 (جیسا کہ دوسری حدیث میں آرہا ہے۔ ت) اور ان کی حدیث اِن شاء اللہ آخر رسالہ میں آئے گی کہ دوسری نماز کا وقت آنے سے پہلی فوت ہوجاتی ہے۔
 (۷) یوں ہی حضرت ابُو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی جمع ہیں
کمایجیئ فی الحدیث الخامس
 (جیسا کہ پانچویں حدیث میں آئے گا۔ ت) اور ان کی حدیث بھی بمشیۃ اللہ تعالٰی آنے والی ہے کہ نماز میں تفریط یہ ہے کہ دوسری کا وقت آنے تک پہلی کی تاخیر کرے
افاد ھذین الامام الطحاوی فی شرح معانی الاٰثار
 (یہ دونوں فائدے امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں بیان کئے۔ ت)
افادہ ثالثہ:اب کہ ملّاجی نے پیٹ بھر کر رَدِ احادیث سے فراغت پائی عقل پر عنایت کی باری آئی فرماتے ہیں: ف جمع صوری سفر میں ازراہ عقل کے بھی واہی ہے کہ جمع رخصت ہے اور جمع صوری مصیبت کہ آخر جز اور اوّل جز نماز کا پہچاننا اکثر خواص کو نہیں ممکن چہ جائے عوام۔
 (ف معیار الحق ص۴۰۱)
اقول: ملّاجی بیچارے جو شامتِ ایام سے مقابلہ شیران حنفیہ میں آپھنسے وہ چوکڑی بھُولے ہیں کہ اپنی اجتہادی آزادی بھی یاد نہیں یاتو وہ جوش تھے کہ ابوحنیفہ وشافعی کی تقلید حرام بدعت شرک یا اب جابجا ایک ایک مقلد مالکی شافعی کے ٹھیٹ مقلد بنے ہیں رطب یا بس جہاں جو کچھ کلام کسی مقلد کامل جاتا ہے اگرچہ کیسا ہی پوچ اور ضعیف ہو اللہ بسم اللہ کہہ کر اُسے آنکھوں سے لگاتے سرپر رکھتے بے سمجھے بُوجھے ایمان لے آتے ہیں یہ اعتراض بھی حضرت نے بعض مالکیہ وشافعیہ کی تقلید جامد کے صدقہ میں پایا ہے مگر شوخ چشمی یہ کہ علمائے حنفیہ جو طرح طرح اس کی دھجیاں اُڑاچکے اُن سے ایک کان گونگا ایک بہرا کرلیا اور پھر اسی رَد شدہ بات باطل وبے ثبات کو پیش کردیا بہادری تو جب تھی کہ اُن قاہر جوابوں کے جواب دیتے پھر واہی تباہی جو چاہتے فرمالیتے خیراب بعض جوابات مع تازہ افاضات لیجئے وباللہ التوفیق۔
اوّلا  :اللہ عزوجل نے نماز خواص وعوام سب پر یکساں فرض کی اور اُس کے لئے اوقات مقرر فرمائے اور اُن کے لئے اول وآخر بتائے اور ان پر واضح وعام فہم نشان بنائے کہ اُن کا ادراک ہر خاص وعام کو آسان ہوجائے ہمارے دین میں کوئی تنگی نہ رکھی اور ہم پر کسی طرح دشواری نہ چاہی
ماجعل علیکم فی الدین من حرج۔ یریداللّٰہ بکم الیسر ولایریدبکم العسر ۱؎
 (اس نے دین کے معاملہ میں تم پر تنگی نہیں فرمائی، اللہ تعالٰی تم پر آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ ت)
 (۱؎ القرآن۲/۱۸۵)
تو ہر وقت کے اول وآخر شرعی کا پہچاننا خواص وعوام سب کو آسان خصوصاً سفر میں جہاں اُفق سامنے اور صاف میدان جو نہ سیکھے یا توجہ نہ کرے الزام اُس پر ہے نہ شرع مطہر پر، ہاں فصل مشترک حقیقی کہ آنِ واحد وجزء لایتجزی ہے اُس کا علم بے طرق مخصوصہ انبیاء واولیاء عامہ بشر کی طاقت سے وراء ہے مگر نہ اس کے ادراک کی تکلیف نہ اس پر جمع صوری کی توقیف۔
ثانیاً اقول: اول وآخر کا پہچاننا تو شاید تم بھی فرض جانتے ہوکہ تقدیم وتاخیر بے عذر بالاجماع مبطل وحرام ہے کیا اللہ عزوجل نے امر محال کی تکلیف دی
لایکلّف اللّٰہ نفساً الّا وسعھا ۱؎
 (اللہ تعالٰی کسی کو اس بات کا حکم نہیں دیتا جو اس کی طاقت میں نہ ہو۔ ت) فافہم۔
 (۱؎ القرآن    ۲/۲۸۶)
ثالثا اقول: تحقیق تام یہ ہے کہ اوقات متصلہ میں عامہ کے لئے پانچ حالتیں ہیں: وقتِ اوّل پر یقین، اُس پر ظن، دونوں میں شک، آخر کا ظن، اُس کا یقین، فقہیات میں ظن ملتحق بیقین ہے اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا تو بین الوقتین حکماً بھی اصلاً فاصل نہیں مسئلہ تسحر ومسئلہ صلاۃ الفجر فی آخر الوقت وغیرہما میں تصریحاتِ علما دیکھیے۔

رابعا اقول: کس نے کہا کہ جمع صوری میں وصل حقیقی بے فصل آنی لازم ہے حدیث مذکور ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بروایت صحیح بخاری وحدیث امیرالمؤمنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم بروایت ابی داؤد دیکھیے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رحمت پر نثار حضور نے عوام ہی کے ارشاد کو یہ طرز ملحوظ رکھی کہ مغرب آخر شفق میں پڑھ کر قدرے انتظار فرمایا پھر عشا پڑھی یا بین الصلاتین کھانا ملاحظہ فرمایا اور لطف الٰہی یہ کہ تمام احادیث جمع میں اگر منقول ہے تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل۔ اُس کے ساتھ اُمت کو بھی ارشاد کہ جسے ضرورت ہو ایسا ہی کرلے اسی حدیث ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں ہے جس میں بروایت صحیح بخاری ثابت کہ دو۲ نمازوں کے بیچ میں  قدر انتظار فرمایا تو آپ کے جہل کا خود رخصت عطا فرمانے والے رؤف رحیم خبیر علیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لحاظ کرلیا تھا مگر افسوس کہ اب بھی آپ شکایت اور رحمت کا نام معاذاللہ مصیبت ہے ہر عاقل جانتا ہے کہ مسافر کو باربار اُترنے چڑھنے وضو نماز کا جُداجُدا سامان کرنے سے یہ بہت آسان ہے کہ ایک بار اُترکر دفعۃً دونوں نمازوں سے فارغ ہولے اول قریب آخر پڑھے اور ایک لطیف انتظار کے بعد آکر اپنے اول میں اس کا انکار صریح مکابرہ ہے ہاں یہ کہئے کہ وقت گزار کر پڑھنے کی اجازت ملے تو اور آسانی ہے۔
Flag Counter