لطیفہ ۷: روایات نسائی بطریق کثیر بن قار وَندا عن سالم عن ابیہ میں جھُوٹ کو بھی کچھ گنجائش نہ ملی تو اُسے یوں کہہ کر ٹالاکہ وہ شاذ ہے ف اس لئے کہ مخالف ہے روایات شیخین وغیرہما کے وہ ارجح ہیں سب سے بالاتفاق اور مقدم ہوتی ہیں سب پر جب کہ موافقت اور نسخ نہ بن سکے۔
(ف معیار الحق ص۳۹۷)
اقول اوّلا: شیخین کا نام کس مُنہ سے لیتے اور اُن کی احادیث کو ارجح کہتے ہو یہ وہی شیخین تو ہیں جو محمد بن فضیل سے حدیثیں لاتے ہیں جسے تمہارے نزدیک رافضی کہاگیا اور حدیثوں کا پلٹ دینے والا اور موقوف کو مرفوع کردینے کا عادی تھا۔
ثانیا ثالثا رابعا: یہ وہی شیخین توہیں جن کے یہاں سب کے خلاف حدیثیں لانے والے حدیثوں میں خطا کرنے والے وہمی کئی درجن بھرے ہُوئے ہیں۔
خامساً:مخالف شیخین کا دعوٰی محض باطل ہے جیسا کہ بعونہٖ تعالٰی عنقریب ظاہر ہوتا ہے۔
لطیفہ ۸: اس حدیث جلیل صحیح کے رَد میں مُلّاجی نے جوجو چالاکیاں بیباکیاں برتیں اُن کا پردہ تو فاش ہوچکا، جابجا ثقات کو مجروح فرمایا، رواۃ بخاری ومسلم کو مردود ٹھہرایا، حدیث موصول کو معلق بنایا، متابعات سے آنکھیں بند کرلیں، نقلِ عبارت میں خیانتیں کیں، معانی میں تحریف کی راہیں لیں، راوی کو کچھ سے کچھ بنالیا، مشترک کو جزافاً معین کردیا جہاں کچھ نہ بن پڑا مخالفتِ شیخین کا اعادہ کیا، اب خود حدیث صحیح بخاری شریف کو کیا کریں رجال بخاری کو رَد کردینا اور بات تھی کہ عوام کو ان کی کیا خبر، مگر خود حدیث بخاری کا نام لیکر رَد کرنے میں سخت مشکل پیش نظر، لہذا یہ چال چلے کہ لاؤ اسے بزورِ زبان وزورِ بہتان اپنے موافق بنالیجئے اس لئے حدیث مذکور باب ھَل یوذن او یقیم کا ایک ٹکڑا جس میں وہ تین میل چل کر مغرب پڑھنے کا ذکر تھا اپنے ثبوت کی احادیث میں نقل کرکے فرمایا ف
(ف۔ معیار الحق ص ۳۷۵)
یہ بات ادنٰی عاقل بھی جانتا ہے کہ بعد دخول وقت مغرب کے دوتین کوس مسافت چلیں تو اتنے میں شفق غائب ہوجاتی ہے اور وقت عشا کا داخل ہوجاتا ہے۔
اوّلاً:میل کا کوس بنایا کہ کچھ دیر بڑے دو۲ میل کا تو سواہی کوس ہوا، اور تین ہی لیجئے جب بھی دو۲ کوس پُورے نہیں پڑتے۔
ثانیاً اقول:فریبِ عوام کو چالاکی یہ کی کہ حدیث کا ترجمہ نہ کیا دوتین کوس مسافت چلیں لکھ دیا کہ جاہل سمجھیں غروب کے بعد پیادہ تین کوس چلے ہوں ترجمہ کرتے تو کھُلتا کہ سوار تھے اور کیسی سخت جلدی کی حالت میں تھے ہم نے حدیث ابوداؤد سے نقل کیا کہ اُنہوں نے اُس دن سہ۳ منزلہ فرمایا تو صرف میل بھر یا اُس سے بھی کم چلنے کی دیر رہ گئی اگر پیادہ ہی چلئے تو اتنی دیر میں ہرگز وقتِ عشاء نہیں آتا تو حدیث سے مغرب کا وقت مغرب ہی میں پڑھنا پیدا تھا جسے صاف کایا پلٹ کردیا مکہ معظمہ اور اُس کے حوالی میں جن کا عرض مابین کا حہ اـلت حہ ہے غروبِ شمس سے انحطاط حہ (کچھ لکھنا ہے) تک ہر موسم میں ایک ساعت فلکیہ سے زیادہ وقت رہتا ہے اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف جنتے بڑھیے وقت بڑھتا جائے گا
کمالایخفی علی العارف بالھیأۃ
(جیسا کہ علمِ ہیئت جاننے والے پر ظاہر ہے۔ ت) تو غروب سے گھنٹے بھر بعد بھی نمازِ مغرب وقت میں ممکن، آپ کے نزدیک جبکہ دو۲ میل چلنے میں عشاء آجاتی ہے تو لازم کہ اتنی مسافت میں ایک گھنٹے سے زیادہ صرف ہونا واجب ہو، اور امام مالک مؤطا میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین عثمٰن غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ طیبہ میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر سوار ہوئے اور موضع ملَل میں عصر کیلئے اُترے ۔
مالک عن عمروبن یحيٰی المازنی عن ابن ابی سلیط ان عثمٰن بن عفان صلی الجمعۃ بالمدینۃ وصلی العصر بملل ۱؎۔
(۱؎ مؤطا امام مالک وقوت الصلواۃ، وقت الجمعۃ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۶)
مالک، عمروبن یحیٰی المازنی سے، وہ ابن سلیط سے راوی کہ عثمان ابن عفان نے جمعہ مدینہ میں پڑھا اور عصر مَلَل میں۔ (ت)
ملَلَ مدینہ طیبہ سے سترہ۱۷ میل ہے کمافی النھایۃ ۲؎ (جیسا کہ نہایۃ میں ہے۔ ت)
(۲؎ النہایۃ لابن اثیر المیم مع اللام لفظ مَلَل مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ ریاض ۴/۳۶۲)
بعض نے کہا اٹھارہ۱۸ میل کماحکاہ الزرقانی (جیسا کہ زرقانی نے بیان کیا ہے۔ ت) ابن وضاح نے کہا بائیس۲۲ میل
کمانقلہ ابن رشیق عن ابن وضاح ۱؎
(جیسا کہ ابن رشیق نے ابن وضاح سے نقل کیا ہے۔ ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المؤطا لامام مالک زیرِ حدیث مذکور مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ۱/۲۶)
بلکہ بعض نسخِ مؤطا میں خود امام مالک سے اسی کی تصریح ہے
قال مالک وبینھما اثنان وعشرون میلا
(مالک نے کہا ہے کہ دونوں کے درمیان بائیس۲۲ میل کا فاصلہ ہے۔ ت) وہ سترہ۱۷ ہی میل سہی آپ کے طور پر کوئی رات کے نودس بجے تک عصرکا وقت رہا ہوگا کہ جمعہ پڑھنے سے آٹھ نو گھنٹے بعد امیرالمومنین نے عصر اداکی کہ مدینہ طیبہ اور اس کے حوالی میں جن کا عرض الہ حہ سے زائد نہیں مقدار نہار روز تحویل سرطان بھی صرف ح ت لح وّ ہے
کمالایخفی علی من یعلم استخراج طول النھار من عرض البلاد
(جیسا کہ اس شخص پر مخفی نہیں ہے جو عرض بلاد سے دن کی لمبائی کا استخراج کرسکتا ہو۔ ت)
ثالثا اقول:اسی لئے خود آخر حدیث بخاری میں مذکور تھا کہ مغرب کے بعد کچھ دیر انتظار کرکے عشاء پڑھی اگر خود عشاءہی کے وقت میں مغرب پڑھتے تو ایسی جلدی واضطراب شدید کی حالت میں اب عشاء کیلئے انتظار کس بات کا تھا یہ ٹکڑا حدیث کا ہضم کرگیا کہ بھرم کھُلتا۔
رابعا اقول:آپ تو اسی بحث میں فرماچکے کہ تعلیقات حجت نہیں صحیح بخاری میں یہ ٹکڑا جو آپ اپنی سند بناکر نقل کررہے ہیں تعلیقاً ہی مذکور تھا اصل حدیث بطریق حدثنا ابوالیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری ذکر کی جس میں آپ کے اس مطلب کا کُچھ پتانہ تھا اس کے بعد یہ ٹکڑا تعلیقاً بڑھایا کہ وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شہاب، اب تعلیق کیوں حجت ہوگئی، وہاں تو آخر حدیث کو ہضم کیا تھا یہاں اول کلام تناول فرمایا کہ اپنا عیب نہ ظاہر ہو۔
خامسا اقول: آپ تو رادی کو اس کے وہم وخطا بلکہ صرف اغراب پر رَد فرماتے ہیں اگرچہ رجال بخاری ومسلم سے ہو، اب یہ تعلیق کیونکر مقبول ہوگئی اس میں زہری سے راوی یونس بن یزید ہیں جنہیں اسی تقریب میں فرمایا:
ثقۃ الا ان فی روایتہ عن الزھری وھما قلیلا وفی غیرالزھری خطا ۲؎۔
ہیں تو ثقہ مگر زہری سے ان کی روایت میں کچھ وہم ہے اور غیر زہری سے روایت میں خطا۔
(۲؎ تقریب التہذیب حرف الیاء مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی ص۲۸۷)
اثرم نے کہا: ضعف احمد امریونس (امام احمد نے یونس کا کام ضعیف بتایا) امام ابن سعدنے کہا: لیس بحجۃ (یونس قابل احتجاج نہیں) امام وکیع بن الجراح نے کہا: سیئ الحفظ (یونس کا حافظہ بُرا ہے) یوں ہی امام احمد نے ان کی کئی حدیثوں کو منکر بتایا کل ذلک فی المیزان ؎۱ (یہ سب میزان میں ہے۔ ت)
(۱؎ میزان الاعتدال حرف الیاء ۹۹۲۴ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۴/۴۸۴)
تنبیہ: یہ ہم نے آپ کا ظلم وتعصب ثابت کرنے کو آپ کی طرح کلام کیا ورنہ ہمارے نزدیک نہ تعلیق مطلقاً مردود نہ یونس ساقط نہ وہم وخطا جب تک فاحش نہ ہوں موجب رد نہ یہ حدیث بخاری اصلاً تمہارے موافق بلکہ صراحۃً ہمارے مؤید وباللّٰہ التوفیق چند اوہام یا کُچھ خطائیں محدّث سے صادر ہونا نہ اُسے ضعیف کردیتا ہے نہ اُس کی حدیث کو مردود نہ وہ کہتے ہیں جو بالکل پاک صاف گزر گئے ہیں، یہ ہیں تمام محدثین کے امام الائمہ سفیٰن بن عینیہ جنہوں نے زہری سے روایت میں بیس۲۰ سے زیادہ حدیثوں میں خطا کی امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھ میں اور علی بن مدینی میں مذاکرہ ہوا کہ زہری سے روایت میں ثابت ترکون ہے، علی نے کہا سفیٰن بن عینیہ، میں نے کہا امام مالک کہ ان کی خطا سفیٰن کی خطاؤں سے کم ہے قریب بیس۲۰ حدیثوں کے ہیں جن میں سفیٰن نے خطا کی پھر میں نے اٹھارہ گِنا دیں اور اُن سے کہا آپ مالک کی خطائیں بتائیں وہ دوتین حدیثیں لائے پھر جو میں نے خیال کیا تو سفیٰن نے بیس۲۰ سے زیادہ حدیثوں میں خطاکی ہے ۲؎ ذکرہ فی المیزان (اسے میزان میں ذکر کیاگیا ہے۔ ت)
بااینہمہ امام سفیٰن کے ثقہ ثبت حجت ہونے پر علمائے اُمت کا اجماع ہے۔
لطیفہ ۹: مُلّاجی کی یہ ساری کارگزاریاں حیاداریاں حدیث صحیح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے متعلق تھیں حدیث ام المؤمنین صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی امام طحاوی ونیز امام احمد وابن ابی شیبہ استاذان بخاری ومسلم کے رَد کو پھر وہی معمولی شگوفہ چھوڑا ف کہ ایک راوی اس کا مغیرہ بن زیادہ موصلی ہے اور یہ مجروح ہے کہ وہمی تھا قالہ الحافظ التقریب۔
(ف معیار الحق ص ۴۰۱)
اقول اوّلا: تقریب میں صدوق کہاتھا وہ صندوق میں رہا۔
ثانیا: وہی اپنی وہمی نزاکت کہ لہ اوھام کو وہمی کہنا سمجھ لیا۔
ثالثا: وہی صحیحین سے پُرانی عداوت تقریب دُور نہیں دیکھئے تو کتنے رجال عـــہ بخاری ومسلم کو یہی صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کے اوہام ہیں ت) کہا ہے۔
عـــہ: صدوق یھم وصدوق ربماوھم کی بکثرت مثالیں اوپر گزرچکیں مگر باتباع لفظ خاص امثلہ سُنیے احمد بن بشیر، حسن بن خلف، خالد بن یزید بن زیاد،رباح بن ابی معروف، ربیع بن انس ورمی بالتشیع، ربیع بن یحيٰی، ربیعہ بن عثمان، زکریا بن یحيٰی بن عمر، سعید بن زید بن درھم، سعید بن عبدالرحمٰن جمحی، شجاع بن الولید، مسلمہ بن علقمہ، مصعب بن المقدام، معاویہ بن صالح، معاویہ بن ھشام، ھشام بن حجیر، ھشام بن سعد ورمی بالتشیع اور ان کے سوا اور کہ سب صدوق لہ اوھام ہیں احمد بن ابی الطیب وغیرہ صدوق لہ اغلاط ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
رابعا: مغیرہ رجال سنن اربعہ سے ہے امام ابن معین وامام نسائی دونوں صاحبوں نے بآں تشدد شدید فرمایا:
لیس بہ باس
(اس میں کوئی بُرائی نہیں) زاد یحيٰی لہ حدیث واحد منکر (اُس کی صرف ایک حدیث منکر ہے) لاجرم وکیع نے ثقہ، ابوداؤد نے صالح، ابن عدی نے عندی لاباس بہ ۱؎ (میرے نزدیک اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ ت) کہا تو اس کی حدیث حسن ہونے میں کلام نہیں اگرچہ درجہ صحاح پر بالغ نہ ہو جس کے سبب نسائی نے لیس بالقوی (اُس درجے کا قوی نہیں ہے۔ ت) ابو احمد حاکم نے
لیس بمتین عندھم ۲؎
(اس درجے کا متین نہیں ہے ان کے نزدیک۔ ت) کہا
لا انہ لیس بقوی لیس بمتین وشتان مابین العبارتین
(نہ یہ کہ سرے سے قوی اور متین نہیں ہے، ان دو عبارتوں میں بہت فرق ہے۔ ت) حافظ نے ثقہ سے درجہ صدوق میں رکھا اس قسم کے رجال اسانید صحیحین میں صدہا ہیں۔
جس کا صاف صریح حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی اپنے والد محمد سے راوی ہیں اور وہ ان کے دادا یعنی اپنے والد عمر سے کہ ان کے والد ماجد مولٰی علی نے جمع صوری خود بھی کی اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی روایت فرمائی۔
ابیہ اور جدّہ دونوں ضمیریں عبداللہ کی طرف تھیں حضرت نے بزور زبان ایک ضمیر عبداللہ دوسری محمد کی طرف قرار دے کر یہ معنی ٹھہرائے ف ۱ کہ عبداللہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ محمد سے اور وہ محمد اپنے دادا علی سے۔ اور اب اس پر اعتراض جڑ دیا کہ محمد کو اپنے دادا علی سے ملاقات نہیں تو مرسل ہُوئی اور مرسل حجت نہیں۔ قطع نظر اس سے کہ مرسل ہمارے اور جمہور ائمہ کے نزدیک حجت ہے ایمان سے کہنا کہ ان ڈھٹائیوں سے صحیح وثابت حدیثوں کو رَد کرنا کون سی دیانت ہے،
(ف۱ معیار الحق ص۴۰۰، ۴۰۱)
میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حدیثوں کو رَد کرنا کون سی دیانت ہے، میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حیا ودیانت کی ایک ادنٰی جھلک میں بھی باطل وموضوع ہوئی جاتی تھی اور بات بھی مدلل ہوتی کہ ضمیر اقرب کی طرف پھرتی ہے اور ابیہ سے اقرب ابوطالب اور جدّہ سے اقرب ابیہ تو معنی یوں کہے ہوتے کہ عبداللہ نے روایت کی ابوطالب کے باپ حضرت عبدالمطلب سے اور عبدالمطلب نے اپنے دادا عبد مناف سے کہ مولا علی نے جمع صوری کی، اب ارسال بھی دیکھئے کتنا بڑھ گیا کہ مولا علی کے پرپوتے مولا علی کے دادا سے روایت کریں اور حدیث صراحۃً موضوع بھی ہوگئی کہ کہاں عبدالمطلب وعبد مناف اور کہاں مولٰی علی سے روایت حدیث مفید احناف ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔
مسلمانو! دیکھا یہ عمل بالحدیث کا جھُوٹا دعوٰی کرنے والے جب صحیح حدیثوں کے رد کرنے پر آتے ہیں تو ایسی ایسی بددیانتیوں بے غیرتیوں بیباکیوں چالاکیوں سے صحیح بخاری کو بھی پسِ پشت ڈال کر ایک ہانک بولتے ہیں کہ سب واہیات اور مردود ف۲ ہیں انّاللّٰہ وانّا الیہ راجعون۔
(ف ۲ معیارالحق ص ۳۹۶)
افادہ ثانیہ: احادیث وطرق پر نظرِ انصاف فرمائیے تو ارادہ جمع صوری پر متعدد قرائن پائیے مثلا:
(۱) یہ کہ احادیث جمع بین الصلاتین کے راویوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں
کما سیأتی فی الحدیث التاسع من الافادۃ الرابعۃ
(جیسا کہ افادہ رابعہ کی نویں حدیث میں آرہا ہے۔ ت) حالانکہ یہی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے عرفات ومزدلفہ کے سوا کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو نمازیں جمع فرمائی ہوں
کماسیأتی تحقیقہ فی الفصل الرابع ان شاء اللّٰہ تعالٰی
(اس کی تحقیق اِن شاء اللہ تعالٰی چوتھی فصل میں آئے گی۔ ت) تو ضرور ہے کہ روایت جمع سے جمع صوری مراد ہو۔
(۲) اقول: خود حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی جمع کرنا مروی ہوا حالانکہ ان کا مذہب معلوم کہ جمع حقیقی کو منسک حج کے سوا ناجائز جانتے۔
(۳) اقول: مُلّاجی نے اُن پندرہ۱۵ صحابیوں میں جن کی نسبت دعوٰی کیا کہ انہوں نے جمع بین الصلاتینحضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی گِنا حالانکہ اُن کا بھی مذہب وہی منع جمع ہے ان دونوں صحابی جلیل الشان کا یہ مذہب ہونا خود امام شافعی المذہب امام ابوالعزیز یوسف بن رافع اسدی حلبی شہیر بابن شداد متوفی ۶۳۱ھ نے کتاب دلائل الاحکام میں ذکر فرمایا:
کمافی عمدۃ القاری للامام البدر العینی عن التلویح شرح الجماع الصحیح للامام علاء الدین المغلطائی عن دلائل الاحکام لابن شداد۔
جیسے کہ امام بدرالدین عینی نے تلویح سے نقل کیا جوکہ امام علاء الدین المغلطائی کی کتاب الجامع الصحیح کی شرح ہے اور انہوں نے ابن شداد کی (کتاب) دلائل الاحکام سے نقل کیا ہے۔ (ت)
تو مراد وہی جمع صوری ہوگی جیسا کہ خود اُن کے فعل سے مروی ہوا کماتقدم فی الحدیث الرابع (جیسا کہ حدیث ۴ میں گزرا۔ ت)