Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
32 - 157
حدیث ۳:ابوداؤد اپنی سنن باب متی یتم المسافر اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی مصنّف میں بسند حسن جید متصل حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب وہ اپنے والد ماجد محمد بن عمر بن علی وہ اپنے والد ماجد عمر بن علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ، سے روایت کرتے ہیں:
ان علیاً کان اذاسافر سار بعد ما تغرب الشمس حتی تکاد ان تظلم، ثم ینزل فیصلی المغرب، ثم یدعو بعشائہ فیتعشی، ثم یصلی العشاء، ثم یرتحل۔ ویقول: ھکذا کان رسول اللّٰہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصنع ۲؎۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب متی تیم المسافر    مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان    ۱/۱۷۳)
 (یعنی امیرالمومنین مولی المسلمین علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وبہہ الاسنی جب سفر فرماتے سورج ڈوبے پر چلتے رہتے یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ تاریکی ہوجائے پھر اُتر کر مغرب پڑھتے پھر کھانا منگا کر تناول فرماتے پھر عشا پڑھ کر کُوچ کرتے اور کہتے اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا کرتے تھے)۔
امام عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی سند کو فرمایا: لاباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں)۔
حدیث ۴:طحاوی بطریق ابی خثیمہ عن عاصم الاحول عن ابی عثمٰن راوی قال وفدت انا وسعد بن مالک ونحن بنادر للحج، فکنا نجمع بین الظھر والعصر، نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ، ونجمع بین المغرب والعشاء، نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ، حتی قدمنا مکۃ ۳؎
 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)
 (یعنی میں اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کی جلدی میں مکہ معظمہ تک ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو یوں جمع کرتے گئے کہ ظہر ومغرب دیر کرکے پڑھتے اور عصر وعشا جلد)
حدیث ۵:نیز امام ممدوح عبدالرحمن بن یزید سے راوی صحبت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  فی حجہ فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر، ویؤخذ المغرب ویعجل العشاء، ویسفر بصلاۃ الغداۃ ۴؎۔
(۴؎ شرح معانی الآثار          باب الجمع بین صلاتین الخ      مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱/۱۱۴)
 (میں حج میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ رکاب تھا ظہر میں دیر فرماتے اور عصر میں تعجیل مغرب میں تاخیر کرتے عشاء میں جلدی اور صبح روشن کرکے پڑھتے) امام مدوح ان احادیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں:
وجمیع ماذھبنا الیہ من کیفیۃ الجمع بین الصلاتین قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمدرحمھم اللّٰہ تعالٰی ۱؎۔
 (۱؎ شرح معافی الآثار        باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ۱/۱۱۴)
نمازیں جمع کرنے کا یہ طریقہ جو ہم نے اس باب میں اختیار فرمایا یہ سب امام اعظم وامام ابویوسف وامام محمد کا مذہب  ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم (م)
الحمداللہ جمع صوری کا طریقہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وحضرت مولی علی وعبداللہ بن مسعود وسعد بن مالک وعبداللہ بن عمرو غیرہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روشن وجہ پر ثابت ہوا اور امام لامذہبان کا وہ جبروتی ادعاکہ اس میں کوئی حدیث صحیح  نہیں، اور اس سے بڑھ کر یہ  بانگ بے معنی کہ یہ  روایات جن  سےجمع صوری کرنی ابن عمر کی واضح ہوتا ہے سب واہیات اور مردود اور شاذ اور مناکیر ہیں اور بشدت حیایہ خاص جحود وافترا کہ ابن عمر نے اس کیفیت سے ہرگز نمازیں جمع نہیں کیں جیسا کہ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ۲؎ اپنی سزائے کردار کو پہنچا اب ایضاح مرام وازاحت اوہام کو چند افادات کا استماع کیجئے۔
 (۲؎ معیارالحق مسئلہ پنجم    جمع بین الصلٰوتین    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص۳۹۶)
افادہ اولٰی:لامذہب ملّا کو جب کہ انکار جمع صوری میں چاند پر خاک اُڑانی تھی اور احادیث مذکورہ صحاح مشہورہ میں موجود ومتداول تو بے رَد صحاح چارہ کار کیا تھا لہذا بایں پیرانہ سالی حضرت کے رقص جملی ملاحظہ ہوں:
لطیفہ ۱: ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث جلیل وعظیم کے پہلے طریق صحیح مروی سنن ابی داود کو محمد بن فضیل کے سبب ضعیف کیا۔

اقول اوّلاً: یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کے رجال سے ہے۔

ثانیاً: امام ابن معین جیسے شخص نے ابن فضیل کو ثقہ امام احمد نے حسن الحدیث، امام نسائی نے لاباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں۔ ت) کہا، امام احمد نے اُس سے روایت کی اور وہ جسے ثقہ نہیں جانتے اُس سے روایت نہیں فرماتے میزان میں اصلاً کوئی جرح مفسّر اُس کے حق میں ذکر نہ کی۔ 

ثالثاً:    یہ بکف چراغی قابل تماشا کہ ابن فضیل کے منسوب برفض ہونے کا دعوٰی کیا اور ثبوت میں عبارت تقریب رمی بالتشیع ملّاجی کو بایں سالخوردی ودعوٰی محدثی آج تک اتنی خبر نہیں کہ محاوراتِ سلف واصطلاح محدثین میں تشیع ورفض میں کتنا عـــہ فرق ہے ۔
عـــہ:  کماصرحوا بہ وتدل علیہ محاوراتھم، منھا مافی المیزان فی ترجمۃ الحاکم بعد ماحکی القول برفضہ، اللّٰہ یحب الانصاف، ماالرجل برافضی بل شیعی فقط اھ ۱۲ منہ (م)

جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے اور ان کے محاورات سے بھی واضح ہے۔ مثلاً میزان میں حاکم کے حالات میں کسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ رافضی تھا۔ اس کے بعد کہا ہے ''اللہ انصاف کو پسند کرتا ہے، یہ آدمی رافضی نہیں ہے، صرف شیعہ ہے''۔ (ت)
زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہتے ہیں خذلہم اللہ تعالٰی جمیعا بلکہ آج کل کے بیہودہ مہذبین روافض کو رافضی کہنا خلافِ تہذیب جانتے اور انہیں شیعہ ہی کے لقب سے یاد کرنا ضروری مانتے ہیں خود مُلّاجی کے خیال میں اپنی مُلّائی کے باعث یہی تازہ محاورہ تھا یا عوام کو دھوکا دینے کیلئے متشیع کو رافضی بنایا حالانکہ سلف میں جو تمام خلفائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ حُسنِ عقیدت رکھتا اور حضرت امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو اُن میں افضل جانتا شیعی کہا جاتا بلکہ جو صرف امیرالمومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تفضیل دیتا اُسے بھی شیعی کہتے ہیں حالانکہ یہ مسلک بعض علمائے اہلسنّت کا تھا اسی بناء پر متعدد ائمہ کوفہ کو شیعہ کہاگیا بلکہ کبھی محض غلبہ محبت اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو شیعیت سے تعبیر کرتے حالانکہ یہ محض سنیت ہے امام ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں خود انہیں محمد بن فضیل کی نسبت تصریح کی کہ ان کا تشیع صرف موالات تھا وبس۔
حیث قال: محمد بن فضیل بن غزوان، المحدث الحافظ، کان من علماء ھذا الشان، وثقہ یحيٰی بن مَعین، وقال احمد: حسن الحدیث، شیعی۔ قلت: کان متوالیا فقط ۱؎۔
 (۱؎ تذکرۃ الحفاظ     فی ترجمۃ محمد بن فضیل    مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباددکن    ۱/۲۹۰)
چنانچہ ذہبی نے کہا ہے کہ محمد ابن غزوان، جوکہ محدّث اور حافظ ہے، حدیث کے علماء میں سے تھا یحیٰی ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور احمد نے کہا ہے کہ اچھی حدیثیں بیان کرتا ہے مگر شیعہ ہے۔ میں نے کہا ''صرف اہلِ بیت سے محبت رکھتا تھا''۔ (ت)
رابعاً:ذرا رواۃ صحیحین دیکھ کر شیعی کو رافضی بناکر تضعیف کی ہوتی، کیا بخاری ومسلم سے بھی ہاتھ دھونا ہے ان کے رواۃ عــہ میں تیس۳۰ سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اصطلاحِ قدماء پر بلفظ تشیع ذکر کیا جاتا یہاں تک کہ تدریب میں حاکم سے نقل کیا کتاب مسلم ملاٰن من الشیعۃ ۱؎
 (۱؎ تدریب الرادی شرح تقریب النواوی    روایۃ المبتدع        مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/۳۲۵)
 (مسلم کی کتاب شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔ ت) دُور کیوں جائیے خود یہی ابن فضیل کہ واقع کے شیعی صرف بمعنی محب اہل بیت کرام اور آپ کے زعم میں معاذاللہ رافضی صحیحین کے راوی ہیں۔
عــہ: مثلاً ابان بن تغلب، اسمٰعیل بن ابان ورّاق، اسمٰعیل بن زکریا، اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن سُدی صدوق یھم، بکیر بن عبداللّٰہ، جریر بن عبدالحمید، جعفر بن سلیمٰن، حسن بن صالح، خالد بن مخلد قطوانی، ربیئع بن انس صدوق لہ اوھام، زاذان کندی، سعید بن فیروز، سعید بن عمرو ھمدانی، عباد بن یعقوب رواجنی، عبادبن عوام کلابی، عبداللّٰہ بن عمر مشکدانہ، عبداللّٰہ بن عیسٰی کوفی، عبدالرزاق، صاحبِ مصنّف، عبدالملک بن اعین، عبیداللّٰہ بن موسٰی، عدی بن ثابت، علی بن الجعد، علی بن ھاشم بن البرید، فضل بن دُکین ابونعیم، فضیل بن مرزوق، فطربن خلیفۃ، مالک بن اسمٰعیل نھدی، محمد بن اسحٰق صاحبِ مغازی، محمد بن جحادہ اور یہی محمد بن فضیل، ھشام بن سعد، یحیی بن الجزار وغیرہم ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
خامساً:     اُس کے ساتھ ہی حدیث کی متابعتین دو۲ ثقات عدول ابن جابر وعبداللہ بن العلا سے ابوداود نے ذکر کردیں اور سنن نسائی وغیرہ میں بھی موجود تھیں پھر ابن فضیل پر مدار کب رہا
ولکن الجھلۃ لایعلمون
 (لیکن جاہل جانتے نہیں ہیں۔ ت) اور یہ تو ادنٰی نزاکت ہے کہ تقریب میں ابن فضیل کی نسبت صدوق عارف لکھا تھا ملّاجی نے نقل میں عارف اُڑادیا کہ جو کلمہ مدح کم ہو وہی سہی۔
لطیفہ ۲:     طرفہ تماشا کہ متابعت ابن جابر جو امام داؤد نے ذکر کی آپ اسے یوں کہہ کر ٹال گئے کہ وہ تعلیق ہے اور تعلیق حجت نہیں اب کون کہے کہ کسی سے آنکھیں قرض ہی لے کر دیکھیے کہ ابوداؤد نے رواہ ابن جابر عن نافع کہہ کر اُسے یوں ہی معلق چھوڑدیا یا وہیں حدثنا ابرھیم بن موسٰی الرازی اناعیسی عن ابن جابر ۲؎ فرماکر موصول کردیا ہے ولکن النجدیۃ لایبصرون
 (۲؎ سنن ابوداؤد        باب المجمع بین الصلٰوتین    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۱۷۱)
لطیفہ ۳:    امام طحاوی کی حدیث بطریق ابن جابر عن نافع پر بشر بن بکر سے طعن کیا کہ وہ ف غریب الحدیث ہے ایسی روایتیں لاتا ہے کہ سب کے خلاف قالہ الحافظ فی التقریب۔
 (ف۔ معیارالحق    ص۳۹۶)
اقول اوّلاً:ذرا شرم کی ہوتی کہ یہ بشر بن بکر رجال صحیح بخاری سے ہیں صحیح حدیثیں رَد کرنے بیٹھے تو اب بخاری بھی بالائے طاق ہے۔
ثانیاً:اس صریح خیانت کو دیکھئے کہ تقریب میں صاف صاف بشر کو ثقہ فرمایا ۱؎ تھا وہ ہضم کرگئے۔
 (۱؎ تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۴۴)
ثالثاً:محدث جی! تقریب میں ثقۃ یغرب ۲؎ ہے، کسی ذی علم سے سیکھوکہ فلاں یغرب اور فلاں غریب الحدیث میں کتنا فرق ہے۔
 (۲؎ تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۴۴   )
Flag Counter