Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
31 - 157
نسائی کی روایت بسند صحیح یوں ہے: اخبرنا محمود بن خالدثنا الولید ثنا ابن جابرثنی نافع قال: خرجت مع عبداللّٰہ بن عمر فی سفر، یرید ارضالہ، فاتاہآتٍ فقال: ان صفیۃ بنت ابی عبید لمابھا، فانظران تدرکھا۔ فخرج مسرعا، ومعہ رجل من قریش یسایرہ، وغابت الشمس فلم یصل الصلاۃ، وکان عھدی بہ وھو یحافظ علی الصلاۃ، فلما ابطاء قلت: الصلاۃ، یرحمک اللّٰہ، فالتفت ای ومضی، حتی اذاکان فی اٰخر الشفق نزل فصلی المغرب، ثم اقام العشاء وقد تواری الشفق فصلی بنا، ثم اقبل علینا، فقال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذاعجل بہ السیر صنع ھکذا ۱؎۔
یعنی نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر اپنی ایک زمین کو تشریف لیے جاتے تھے کسی نے آکر کہا آپ کی زوجہ صفیہ عــہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول ہیں شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں۔ یہ سُن کر بہ سُرعت چلے اور اُن کے ساتھ ایک مرد قریشی تھا سُورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی اور میں نے ہمیشہ اُن کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے تھے جب دیر لگائی میں نے کہا نماز خدا آپ پررحم فرمائے میری طرف پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہُوئے جب شفق کا اخیر حصّہ رہا اُتر کر مغرب پڑھی پھر عشا کی تکبیر اس حال میں کہی کہ شفق ڈوب چکی اُس وقت عشا پڑھی پھر ہماری طرف منہ کرکے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے۔ (م)
(۱؎ سنن نسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی۱/۹۹)
عــہ: ھی اخت مختار الکذاب المشہور، وابوھا ابوعبید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ من الصحابۃ، استشھد فی خلافۃ امیرالمؤمنین، اماھی، ففی عمدۃ القاری، ادرکت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وسمعت منہ۔ اھ وفی ارشاد الساری، الصحابیۃ الثقفیۃ اخت المختار، وکانت من العابدات۔ اھ لکن قال الحافظ فی التقریب: قیل لھا ادراک، وانکرہ الدارقطنی، وقال العجلی: ثقہ فھی من الثانیۃ۔ اھ وحقق فی الاصابۃ نفی السماع واثبات الادراک ظنا، فراجعہ۔ وقدحدث عن ازواج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلیھن وسلم ۱۲ منہ (م)

صفیہ، مشہور مختار کذاب کی بہن تھیں۔ ان کے والد ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابہ میں سے تھے، امیرالمومنین کی خلافت کے دوران شہید ہوگئے تھے۔صفیہ کے بارے میں عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔ اور ارشاد الساری میں ہے کہ یہ بنی ثقیف سے تعلق رکھنے والی صحابیہ تھیں اور مختار کی بہن تھیں، عبادت گزار خواتین میں سے تھیں۔ لیکن حافظ نے تقریب میں لکھا ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا لیکن دارقطنی نے اس کا انکار کیا ہے اور عجلی نے کہا ہے کہ ثقہ تھیں۔ اس لحاظ سے یہ طبقہ ثانیہ میں ہوں گی (یعنی تابعیات سے) اصابہ میں ثابت کیا ہے کہ صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام تو نہیں سنا البتہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا زمانہ پایا ہو۔ اس سلسلے میں اصابہ کی طرف رجوع کرو۔ صفیہ نے ازواجِ مطہرات سے احادیث بیان کی ہیں۔(ت)
اسی طرح امام طحاوی نے روایت کی فقال حدثنا ربیع المؤذن ثنا بشربن بکرثنی ابن جابر ثنی نافع ۱؎ فذکرہ۔ نیز نسائی نے بسند حسن بطریق اخبرنا قتیبۃ بن سعید حدثنا العطاف ۲؎ اور ابوجعفر نے بطریق حدثنا یزید بن سنان ثنا ابوعامر العقدی ثنا العطاف بن خالد المخزومی ۳؎ اور امام فقیہ نے حجج میں بلاواسطہ روایت کی کہ اخبرنا عطاف بن خالد المخزومی المدینی قال اخبرنا نافع قال اقبلنا مع ابن عمر من مکۃ، حتی اذاکان ببعض الطریق استصرخ علی زوجتہ، فقیل لہ انھا فی الموت، فاسرع السیر، وکان اذانودی بالمغرب نزل مکانہ فصلی، فلما کان تلک اللیلۃ نودی بالمغرب فسار حتی امسینا فظننا انہ نسی، فقلنا: الصلاۃ، فسار حتی اذاکان الشفق قرب ان یغیب نزل فصلی المغرب، وغاب الشفق فصلی العشاء ثم اقبل علینا فقال: ھکذا کنا نصنع مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبنا السیر۔
 (۱؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلٰوتین    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

(۲؎ سنن النسائی الوقت الذی     مجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشائ    مکتبہ سلفیہ لاہور   ۱/۷۰)                                    (۳؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)
(یعنی امام نافع فرماتے ہیں راہِ مکّہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب شفق ڈوبنے کے قریب ہُوئی اُتر کر مغرب پڑھی اور شفق ڈوب گئی اب عشاء پڑھی پھر ہماری طرف مُنہ کرکے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے تھے جب چلنے میں کوشش ہوتی تھی) امام عیسٰی بن ابان نے اسے روایت کرکے فرمایا:
وھکذا قال ابوحنیفۃ فی الجمع بین الصلاتین ان یصلی الاول منھما فی اٰخر وقتھا، والاخری فی اول وقتھا، کما فعل عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا، ورواہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎
(۴؎ کتاب الحجۃ باب الجمع الصلٰوۃ فی السفردار المعارف نعمانیہ لاہور ۱/۱۷۴، ۱۷۵)
 (یعنی دو۲ نمازیں جمع کرنے میں یہی طریقہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے کہ پہلی کو اس کے آخر وقت اور پچھلی کو اُس کے اوّل وقت میں پڑھے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے خود کیا اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمایا) نیز امام طحاوی نے اور طریق سے یوں روایت کی:
حدثنا فحدثنا الحمانی ثنا عبداللّٰہ بن المبارک عن اسامہ بن زید اخبرنی نافع، وفیہ حتی اذاکان عند غیبوبۃ الشفق فجمع بینھما وقال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصنع ھکذا  اذاجدبہ السیر ۵؎
 (یعنی جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہوئی اُتر کر دونوں نمازیں جمع کیں اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یوں ہی کرتے دیکھا جب حضور کو سفر میں جلدی ہوتی)
 (۵؎ شرح معانی الآثار           باب الجمع بین الصلٰوتین الخ             ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)
یہ طرق حدیث نافع عن عبداللہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تھے، اور صحیح بخاری ابواب التقصیر باب ھل یؤذن اویقیم اذاجمع بین المغرب والعشاء میں یوں ہے: حدثنا ابو الیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری قال اخبرنی سالم عن عبداللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاعجلہ السیر فی السفر یؤخر صلاۃ المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء۔ قال سالم، وکان عبداللّٰہ یفعلہ اذااعجلہ السیر، ویقیم المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم، ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ۱؎۔ الحدیث۔
 ( ۱؎ جامع صحیح البخاری باب ھل یؤذّن اویقیم الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۴۹)
اُسی کے باب یصلی المغرب ثلثا فی السفر میں بطریق مذکور وکان عبداللّٰہ یفعلہ اذاعجلہ السیر تک روایت کرکے فرمایا ۲؎
(۲؎ جامع صحیح البخاری باب یصلی المغرب ثلثانی السفر    ۱/۱۴۸)
وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شھاب قال سالم کان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما یجمع بین المغرب والعشاء بالمزدلفۃ۔ قال سالم: واخر ابن عمرالمغرب، وکان استصرخ علٰی امرأتہ صفیۃ بنت ابی عبید، فقلت لہ: الصلاۃ، فقال: سر، فقلت لہ: الصلاۃ، فقال: سر، حتی سارمیلین اوثلٰثۃ، ثمّ نزل فصلی، ثم قال: ھکذا رأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر یؤخر المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم، ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ۳؎ الحدیث۔
(ان دونوں روایتوں کا حاصل یہ کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ایامِ حج میں ذی الحجہ کی دسویں رات مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرکے پڑھتے اور جب اپنی بی بی کی خبر گیری کو تشریف لے گئے تھے تو یوں کیا کہ مغرب کو آخر کیا، میں نے کہا نماز، فرمایا چلو، میں نے پھر کہا نماز۔ فرمایا چلو، دو۲ تین۳ میل چل کر اُترے اور نماز پڑھی، پھر فرمایا میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے، مغرب اخیر کرکے تین۳ رکعت پڑھتے پھر سلام پھیر کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشا کی اقامت فرماکر دو۲ رکعت پڑھتے)
نسائی کے یہاں یوں ہے: اخبرنی محمد بن عبداللّٰہ بن بزیع حدثنا یزید بن ذریع حدثنا کثیر بن قارَوَنْدا قال: سألت سالم بن عبداللّٰہ عن صلاۃ ابیہ فی السفر وسألناہ ھل کان یجمع بین شیئ من صلاتہ فی سفرہ؟ فذکر ان صفیۃ بنت ابی عبید کانت تحتہ فکتبت الیہ، وھو فی زراعۃ لہ، انی فی اٰخر یوم من ایام الدنیا واول یوم من الاخرۃ، فرکب فاسرع السیر الیھا، حتی اذاحانت صلاۃ الظھر قال لہ المؤذن: الصلاۃ یاابا عبدالرحمٰن! فلم یلتفت، حتی اذاکان بین الصلاتین نزل، فقال: اقم، فاذا سلمت فاقم، فصلی ثم رکب حتی اذاغابت الشمس ، قال لہ المؤذن: الصلاۃ، فقال: کفعلک فی صلاۃ الظھر والعصر، ثم سار حتی اذا اشتبکت النجوم نزل، ثم قال المؤذن: اقم فاذاسلمت فاقم، فصلی ثم انصرف فالتفت الینا فقال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاحضر احدکم الامر الذی یخاف فوتہ فلیصل ھذہ الصلاۃ ۱؎۔
 (۱؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۹۸)
 (خلاصہ یہ کہ جب صفیہ کا خط پہنچا کہ اب میرا دمِ واپسیں ہے ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما شتاباں چلے ،نماز کیلئے ایسے وقت اُترے کہ ظُہر کا وقت جانے کو تھا اور عصر کا وقت آنے کو، اُس وقت ظہر پڑھ کر عصر پڑھی اور مغرب کے لئے اُس وقت اُترے جب تارے خُوب کھِل آئے تھے (جس وقت تک بلاعذر مغرب میں دیر لگانی مکروہ ہے، اُسے پڑھ کر عشاء پڑھی اور کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کسی کو ایسی ضرورت پیش آئے جس کے فوت کا اندیشہ ہوتو اس طرح نماز پڑھے) نیز اسی حدیث میں دوسرے طریق سے یوں زائد کیا:
اخبرنا عبدۃ بن عبدالرحیم ثنا ابن شمیل ثنا کثیر بن قارَوَندا قال سألنا سالم بن عبداللّٰہ عن الصلاۃ فی السفر، فقلنا اکان عبداللّٰہ یجمع بین شیئ من الصلاۃ فی السفر؟ فقال لا الا یجمع ۲؎
(۲؎سنن النسائی      الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی       ۱/۹۹)
یعنی ہم نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے سوال کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سفر میں کسی نماز کو دُوسری کے ساتھ جمع فرماتے تھے کہا نہ سوا مزدلفہ کے) (جہاں کا ملانا سب کے نزدیک بالاتفاق ہے) پھر وہی حدیث بیان کی کہ اُس سفر میں اُس طریق سے نمازیں پڑھی تھیں۔ اس حدیث جلیل کے اتنے طُرق کثیرہ ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے سفر میں بحال شتاب وضرورت جمع صوری فرمائی ہے اور یہی ہمارے ائمہ کرام کا مذہب ہے۔
حدیث ۲:امام اجل احمد بن حنبل مسند اور ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم مصنف میں بسند حسن بطریق اپنے شیخ وکیل بن الجراح کے اور امام طحاوی معانی الآثار میں
بطریق حدثنا فھدثنا الحسن بن البشیر ثنا المعافی بن عمران کلاھما عن مغیرہ بن زیاد الموصلی عن عطاء بن ابی رباح ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی السفر یؤخر الظھر ویقدم العصر، ویؤخر المغرب ویقدم العشاء ۱؎
 (۱؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)
 (حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں ظہر کو دیر فرماتے عصر کو اول وقت پڑھتے مغرب کی تاخیر فرماتے عشاء کو اوّل وقت پڑھتے)
Flag Counter