Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
30 - 157
ہاں ہاں یہ کفش برادری خدام درگاہ فضائل پناہ اعلٰحضرت عظیم البرکت اعلم العلماء الربانین افضل الفضلاء الحقانیین حامی السنن السنیہ ماحی الفتن الدنیہ بقیہ السلف المصلحین حجۃ الخلف المفلحین آیۃ من آیات رب العٰلمین معجزۃ من معجزات سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبارک وسلم اجمعین ذی التصنیفات الرائقہ والتحقیقات الفائقہ والتدقیقات الشائقہ تاج المحققین سراج المدققین اکمل الفقہاء المحدثین حضرت سیدنا الواجد امجد الاماجد اطیب الاطائب مولانا مولوی محمد نقی علی خان صاحب محمدی سنّی حنفی قادری برکاتی بریلوی قدس اللہ سرہ، وعم برّہ وثم نورہ واعظم اجرہ واکرم نزلہ وانعم منزلہ ولاحرمنا سعدہ ولم یفتنا بعدہ والحمداللہ دہرالداہرین ہاں ہاں یہ ادنٰی خاکبوسی آستان رفیع غلمان منیع بندگان بارگاہ عرفان پناہ اقدس حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت اعرف العرفاء الکرام مرجع الاولیاء العظام السحاب الہا مربفیض القادر والعباب الزاخر بالفضل الباھر ذوالقرب الزاہر والعلو الظاہر والنسب الطاہر ملحق الاصاغر بالجلۃ الاکابر معدن البرکات مخزن الحسنات من آل محمد سید الکائنات علیہ وعلیہم افضل الصلوات وارث النجدات من حمزۃ الحمزات القمر المستبین بالنور المبین من شمس الدین ابی الفضل العظیم والشرف الکریم سیدنا ومولٰنا وملجانا وماوانا  شیخی ومرشدی کنزی وذخری لیومی وغدمی اعلحٰضرت سیدنا السید الشاہ آل رسول الاحمدی فاطمی حسینی قادری برکاتی واسطی بلجرامی مارہری رضی اللہ تعالٰی عنہ واجرل واعظم قربہ منہ واشرق علینا من نورہ التام وافاض علینا من بحرہ الطام وجعلنا من خدمہ فی دارالسلام بفضل رحمۃ علیہ وعلٰی آبائہ الکرام والحمداللہ ابدالآبدین۔ ؂
       عہد مابالب شیریں دہنان بست خداے 

      ماہمہ  بندہ  وایں  قوم    خداوند   ا نند
 (خدا نے شیریں دہنوں کے لبوں سے ہمارا عہد باندھ دیا ہے، ہم سب بندے ہیں اور یہ لوگ ہمارے آقا ہیں۔ ت)

خیر کہنا یہ تھا کہ یہاں بھی اِن شاء اللہ تعالٰی یہی طریقہ رعایت عــہ پائے گا ولہذا ایک آدھ بحث کہ بقدر کافی طے کردی گئی اس سے تعرض اطناب سمجھا جائے گا کہ مقصود اظہار احقاق ہے نہ اکثار اوراق۔
عــہ: لاسیما اذاکان فيئی لاترتضیہ لوھن اوضعف نعلم فیہ ۱۲۔ (م)

 (حاشیہ کی اس عبارت سے غالباً اعلٰحضرت کی اپنی عبارت گزشتہ صفحہ ۱۶۴ کی طرف اشارہ ہے: فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر ان کے ماورا میں بھی حتی الوسع اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے، ملخصاً (نذیر احمد سعیدی)
ان چار فصل میں ملّا جی کے ادعائی بول یکسر برعکس ہیں سایہ بخت سے سب قابل نکس ہیں جابجا ثابت کو ناثابت ناثابت کو ثابت ساکت کو ناطق ناطق کو ساکت ضعیف کو صحیح صحیح کو ضعیف تحریف کو توجیہ توجیہ کو تحریف مؤول کو مفسر مفسر کو مؤول محتمل کو صریح صریح کو محتمل کہا اول تا آخر کوئی دقیقہ تحکم ومکابرہ وتعصب مدابرہ کا نامرعی نہ رہا یہاں بعونہٖ تعالٰی عز مجدہ ہر فصل میں قول فصل وحق اصل بدلائل قاہرہ وبیانات باہرہ ظاہر کیجئے کہ اگر زبان انصاف سالم وصاف ہوتو مکالف منکر مدعی مُصر کو بھی معترف ومقر لیجئے ۔
وماذلک علی اللّٰہ بعزیز، ان ذلک علی اللّٰہ یسیر، ان اللّٰہ علٰی کل شیئ قدیر۔
اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں ہے، یہ اللہ پر آسان ہے، اللہ ہر شیئ پر قادر ہے۔ (ت)
یہ معارک جلیلہ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں رسالہ آپ کے پیشِ نظر ہے ملاحظہ کیجئے داد انصاف دیجئے
ع فی طلعۃ الشمس مایغنیک عن خبر
 (سُورج طلوع ہوجائے تو اس کی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ت)
اس کے سوا نفس مسئلہ میں ملّا جی نے اپنے موافق کہیں چودہ۱۴ کہیں پندرہ۱۵ صحابیوں سے روایات آنا بیان کیا اور خود ہی اُسے بگاڑ کر کمی کی طرف پلٹے اور چار سے زیادہ ظاہر نہ کرسکے اُن میں بھی عندالانصاف اگر کُچھ لگتی ہوئی بات ہے تو صرف ایک سے۔ میں بعونہٖ تعالٰی اپنے موافق روایات تئیس۲۳ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے لاؤں گا، ملّا جی صرف چار حدیثیں پیش خویش اپنے مفید دکھاسکے جن میں حقیقۃً کوئی بھی ان کے مفید نہیں اور آیت کا تو اُن کی طرف نام بھی نہیں، میں بحول اللہ تعالٰی اُن سے دُونی آیتیں اور دس گنی حدیثیں اپنی طرف دکھاؤں گا، میں یہ بھی روشن کردوں گا کہ حنفیہ کرام پر غیر مقلدوں کی طعنہ زنی ایسی پوچ ولچر بے بنیاد ہوتی ہے، میں یہ بھی بتادُوں گا کہ ان صاحبوں کے عمل بالحدیث کی حقیقت اتنی ہے، میں یہ بھی دکھادوں گا کہ ملّا جی صاحب جو آج کل مجتہد العصر اور تمام طائفہ کے استاد مانے گئے ہیں اُن کی حدیث دانی ایک متوسط طالب علم سے بھی گرے درجہ کی ہے
کل ذلک بعون الملک العزیز القریب المجیب وماتوفیقی الاّ باللّٰہ علیہ توکّلت والیہ انیب وھذا اوان الشروع فی المقصود متوکلا علی واھب الفیض والجود والحمدللّٰہ العلی الودود والصّلاۃ والسلام علٰی احمد محمود محمد واٰلہ الکرام السعود امین۔
فصل اول طلوع فجر نوری بہ اثبات جمع صوری:
حضور پُرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلاً محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمہ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ملّا جی تو انکارِ آفتاب کے عادی، بکمال شوخ چشمی بے نقط سُنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہوکہ آنحضرت عــہ جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے ۱؎ ، بہت اچھا ذرانگاہ رُوبرُو۔
 (۱؎ معیار الحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلٰوۃ    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص۴۰۱)
عــہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلٰی آلہٖ وصحبہ وبارک وکرم ۱۲ منہ (م)
حدیث ۱: جلیل وعظیم حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ اُس جناب سے مشہور ومستفیض ہے جسے امام بخاری وابوداؤد ونسائی نے اپنی صحاح اور امام عیسٰی بن ابان نے کتاب الجج علٰی اہلِ مدینہ اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور ذہلی نے زہریات اور اسمٰعیل نے مستخرج صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا:
فالبخاری والاسمعیلی والذھلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزھری، والنسائی من طریقی یزید بن زریع والنضربن شمیل عن کثیر بن قاروندا کلاھما عن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتھم عن العطاف، وابوداؤد عن فضیل بن غزوان، وعن عبداللّٰہ بن العلاء، وایضا ھوعیسٰی والنسائی عن الولید والطحاوی عن بشر بن بکر، ھؤلاء الثلثۃ عن ابن جابر، والطحاوی عن اسامۃ بن زید، خمستھم اعنی العطاف وفضیلا وابن العلاء وجابر واسامۃ عن نافع۔ وابوداؤد عن عبداللّٰہ بن واقد۔ والطحاوی عن اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن اربعتھم عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنھما۔
بخاری، اسمٰعیل اور ذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے، اس نے زہری سے روایت کی ہے۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو۲ طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے۔ دونوں (زہری اور کثیر) سالم سے راوی ہیں۔ نسائی نے قتیبہ سے، طحاوی نے ابوعامر عقدی سے اور فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں۔ اور ابوداؤد نے فضیل ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن علاء سے روایت کی ہے۔ اور ابوداؤد نے ہی عیسٰی سے، نسائی نے ولید سے، طحاوی نے بشر ابن بکر سے، یہ تینوں (عیسٰی، ولید، بشر) جابر سے روایت کرتے ہیں۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے۔ یہ پانچوں یعنی عطاف، فضیل، عبداللہ، جابر اور اسامہ نافع سے راوی ہیں، نیز ابوداؤد عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اسمٰعیل ابن عبدالرحمن سے راوی ہیں۔ چاروں (سالم، نافع، عبداللہ  ابن واقد، اسمٰعیل) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے (ناقل ہیں) (ت)
فقیر غفراللہ تعالٰی نے جس طرح یہاں جمع وتلخیص طرق کی اکمال المحجہ وایضاح الحجہ کیلئے اُن کے اکثر نصوص والفاظ بھی وارد کرے وباللہ التوفیق، سنن ابوداؤد میں بسند صحیح ہے:
حدثنا محمد بن عبید المحاربی نامحمد بن فضیل عن ابیہ عن نافع وعبداللّٰہ بن واقد ان مؤذن ابن عمرقال: الصلاۃ، قال: سر، حتی اذاکان قبل غیوب الشفق نزل۔ فصلی المغرب، ثم انتظر حتی غاب الشفق فصلی العشاء، ثم قال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امرصنع مثل الذی صنعت فسار فی ذلک الیوم واللیلۃ مسیرۃ ثلٰث ۱؎۔
یعنی نافع وعبداللہ بن واقد دونوں تلامذہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مؤذن نے نماز کا تقاضا کیا، فرمایا چلویہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اُتر کر مغرب پڑھی پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشا پڑھی پھر فرمایا: حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسا میں نے کیا۔ ابن عمر نے اس دن رات میں تین رات دن کی راہ قطع کی (م)
(۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ اصح المطابع کراچی    ۱/۱۷۱)
ابوداود نے فرمایا: رواہ ابن جابر عن نافع نحو ھذا باسنادہ حدثنا ابراھیم بن موسٰی الرازی انا عیسٰی ابن جابر بھذا المعنی ورواہ عبداللّٰہ بن العلاء عن نافع، قال: حتی اذاکان عندذھاب الشفق نزل فجمع بینھما ۲؎۔
اس کو ابن جابر نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے مع اسناد کے حدیث بیان کی ہم سے ابراہیم ابن موسٰی رازی نے، اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں عیسٰی ابن جابر نے اس مفہوم کے ساتھ اور روایت کیا ہے اسکو عبداللہ بن علاء نے نافع سے کہ انہوں نے کہا: جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہُوئی اتر کر دونوں نمازیں جمع کیں۔ (ت)
(۲؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ اصح المطابع کراچی ۱ /۱۷۱)
Flag Counter