وصرف الفرض الی اجتماع الخمس قد یأباہ ظاھر اللفظ، اذ لو ارید ھذا لقال اعطی الصلوات خمسا ، اواعطی خمس صلوات۔ ومع ذلک اذاصرف الٰی وصف فحینئذ نقول بموجبہ، فالخمس علی ھذہ الصفۃ لم تکن لاحد قبلنا، فان اللّٰہ تعالٰی خصنا بالاذان والاقامۃ والبسملۃ والتأمین ۱؎
(۱؎ الادب المفرد باب فضل السلام حدیث ۹۸۸ مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ص۲۵۶)
اور عبداللہ ابن مسعود کے قول اعطی الصلوٰۃ الخمس کا یہ مطلب نکالنا کہ آپ کو اجتماعی طور پر پانچ نمازیں عطا کی گئیں، حدیث کے ظاہری الفاظ کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر یہ مراد ہوتی تو عبداللہ ابن مسعود یوں کہتے اعطی الصلوٰۃ خمسا یا یہ کہتے اعطی خمس صلوات ۲؎ (جبکہ انہوں نے اعطی الصلوات الخمس کہا ہے) بایں ہمہ اگر فرضیت کو کسی وصف کے ساتھ مقید کرنا ہی ہے تو اس کے مطابق ہم یہ کہیں گے کہ جس طرح کی پانچ نمازیں ہم پر فرض کی گئی ہیں اس طرح ہم سے پہلے کسی پر فرض نہیں کی گئیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں اذان، اقامت، بسم اللہ اور آمین کہنے کے ساتھ مختص کیا ہے۔
۲؎ اعطی الصلوت خمسا ، اعطی خمس صلوت، اعطی الصلوت الخمس، ان جملوں کے مفہوم میں جو فرق ہے اس کو اُردو ترجمے میں واضح کرنا ممکن نہیں ہے، مختصراً آپ یہ سمجھ لیں کہ پہلی دو۲ عبارتیں پانچ کی تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں یعنی پانچ نمازیں آپ کے ساتھ خاص ہیں جبکہ تیسری عبارت، جوکہ حدیث میں بھی وارد ہے، تخصیص کا تقاضا نہیں کرتی۔ (دائم)
الذی ماحسدتنا عــہ الیھود علی شیئ ما حسدتنا علیہ وعلی السلام، وجعلنا نصف کماتصف الملٰئکۃ عند ربھا، وجعل لنا الارض مسجد اوطھورا۔
جبکہ آمین اور سلام میں جتنا یہودی ہمارے ساتھ حسد کرتے تھے اتنا کسی اور چیز میں نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ہم صفیں بناتے ہیں جس طرح ملائکہ اپنے رب کے رُوبرو صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔اور اللہ تعالی نے ہمارے لیے تمام رُوئے زمین کو مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنایا ہے،
عــہ رواہ البخاری فی الادب المفرد وابن ماجۃ بسند صحیح عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ غفرلہ
اسے امام بخاری نے الادب المفرد اور ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ام المومنین کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کیا ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
ونقول: خصصنا بان امضی فریضتہ وخفف عن عبادہ، فھی خمس، وھی خمسون، تفضلا من ربنا تبارک وتعالٰی ببرکۃ نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
یا یہ کہیں گے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں اس شرف کے ساتھ مختص کیا ہے کہ اپنے مقرر کردہ فرائض اپنی جگہ پر رکھے اور بندوں سے تخفیف بھی کردی، اب پڑھی پانچ جاتی ہیں اور ثواب کے اعتبار سے پچاس۵۰ ہوجاتی ہیں۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ہم پر اللہ تعالٰی کا انعام ہے۔
ومنھا(۲)حدیث ابن جریر والبزار وابی یعلی عن ابی ھریرۃ والبیھقی عنہ وعن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، فیہ قولہ عزوجل لنبیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حین ذکر ما اعطی الانبیاء السابقین علیھم الصلاۃ والتسلیم من الفضائل: اعطیتک ثمانیۃ اسھم، الاسلام(۱) والھجرۃ(۲) والجھاد(۳) والصلاۃ(۴) والصدقۃ(۵) وصوم رمضان(۶) والامر(۷) بالمعروف والنھی عن(۸) المنکر۔ قال الزرقانی (والصلاۃ) ای مجموع الصلوات الخمس (والصدقۃ) الزکاۃ (وصوم رمضان) وفیہ حجۃ لاحد القولین فی اختصاصہ بالامۃ المحمدیۃ ۱؎ الخ۔
اور ان ہی میں سے وہ حدیث ہے جو ابن جریر، بزار اور ابویعلی نے ابوھریرہ سے اور بیہقی نے ابوھریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فضائل کا ذکر کیا جو اللہ تعالٰی نے انبیائے سابقین کو عطا فرمائے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میں نے آپ کو آٹھ حصّے عطا کئے ہیں: (۱) اسلام (۲) ہجرت (۳) جہاد (۴) نماز (۵) صدقہ (۶) رمضان کے روزے (۷) امر بالمعروف (۸) نہی عن المنکر۔ زرقانی نے (اس کی شرح کرتے ہوئے) کہا (اور نماز) یعنی پانچ نمازوں کا مجموعہ۔ (اور صدقہ) یعنی زکوٰۃ اور (رمضان کے روزے) اس میں دلیل ہے دو۲ میں سے ایک قول کے لئے یعنی اس قول کے لئے رمضان امتِ محمدیہ کے ساتھ خاص ہے الخ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۶/۱۲۰۔۱۲۱)
قلت: ای وقدذکر صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لکل نبی ماخص بہ من الکرامات، فالمحل قاض بان یجاب بماخص بہ من جلائل الفضائل۔ اقول: نعم، لابد للخصوص من وجہ، اما مطلقا فلا، فقد کان الجھاد فی الامم السابقۃ
قال تعالٰی وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر۔۲؎
(۲؎ القرآن ۳/۱۴۶)
میں نے کہا (دلیل اس بنا پر ہے کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نبی کی وہ عظمت ذکر کی تھی جو اس کے ساتھ مختص تھی۔ تو موقعہ کا تقاضا یہی تھا کہ جواباً ایسے عظیم فضائل کا بیان کیا جاتا جو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص تھے۔ اقول (میں کہتا ہوں) ہاں، خصوصیت کیلئے کوئی وجہ ضرور ہونی چاہئے ورنہ (مذکورہ آٹھ چیزیں) مطلقاً اس اُمت کے ساتھ خاص نہیں ہیں کیونکہ جہاد پہلی اُمتوں میں بھی تھا، اللہ تعالٰی فرماتا ہے ''کتنے ہی نبی تھے کہ ان کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے لڑائی کی''۔
فانما المراد لم یعطوا علی صفۃ اعطی نبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، احلت لہ الغنائم ولم تحل لاحد قبلہ، والصدقۃ تؤخذ من اغنیائنا وترد علی فقرائنا، وامرنا بالمعروف ونھینا عن المنکر باعلی وجوھہ وھوالجھاد، وامر الجھاد فی شرعنا اقوی منہ فی سائر الشرائع۔ قالہ الرازی عن القفال۔ فکذلک خصصنا فی الصلاۃ باشیاء لم یعطھن احد قبلنا، وللّٰہ الحمد۔
(۱؎ القرآن ۱۹/۵۵)
کیا تم نہیں دیکھتے ہو حدیث میں مذکور اس قول کی طرف ''اور اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا'' حالانکہ ان کاموں کا انبیاء سابقین میں نہ پایا جانا محال ہے کیونکہ وہ تو بھیجے ہی انہی کاموں کیلئے جاتے تھے اور (اسی نہی عن المنکر کی وجہ سے) اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو نجات دے دی تھی جو اصحابِ سبت کو شکار کرنے سے منع کرتے تھے تاکہ اپنے رب کے رُوبرو اپنا عذر پیش کرسکیں اور اس لئے کہ اس طرح شائد اصحابِ سبت غلط کام سے باز آجائیں۔ صدقہ وزکوٰۃ کا حکم امتوں میں ہمیشہ رہا ہے۔ اللہ تعالٰی کا یہ قول گزرچکا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔ تو درحقیقت مراد یہ ہے کہ (مذکورہ آٹھ چیزیں) اس طرح باقی انبیاء کو نہیں دیں جس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں۔ مثلاً جہاد میں حاصل ہونے والی غنیمت رسول اللہ کیلئے حلال کردی گئی، حالانکہ اس سے پہلے کسی کیلئے حلال نہیں کی گئی تھی۔ اسی طرح صدقہ ہمارے اغنیاء سے لیا جاتا ہے اور فقراء کو دیا جاتا ہے (حالانکہ اس سے پہلے اس کو آگ جلادیا کرتی تھی یونہی ہمارا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اعلٰی درجے کا ہے یعنی جہاد کے ذریعے سے۔ کیونکہ جہاد کا معاملہ ہماری شریعت میں بنسبت باقی شریعتوں کے زیادہ قوی ہے، یہ بات رازی نے قفال سے نقل کی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ہمیں نماز میں بھی بعض اشیاء کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جو ہم سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں یعنی اذان اقامت وغیرہ (وللہ الحمد ت)
ومنھا(۳) مانقل الامام الفقیہ ابواللیث السمرقندی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی تنبیہ الغافلین عن کعب الاحبار رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال: قرأت فی بعض ماانزل اللّٰہ تعالٰی علی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام یامُوسٰی! رکعتان یصلیھما احمد وامتہ، وھی صلاۃ الغداۃ، من یصلیھما غفرت لہ مااصاب من الذنوب من لیلہ ویومہ ذلک ویکون فی ذمتی۔ یامُوسٰی! اربع رکعات یصلیھا احمد وامتہ، وھی صلاۃ الظھر، اعطیھم باول رکعۃ منھا المغفرۃ، وبالثانیۃ اثقل میزانھم، وبالثالثۃ اوکل علیھم الملئکۃ یسبحون ویستغفرون لھم، وبالرابعۃ افتح لھم ابواب السماء ویشرفن علیھم الحور العین۔ یاموسٰی! اربع رکعات یصلیھا احمد وامتہ، وھی صلاۃ العصر، فلا یبقی ملک فی السٰموات والارض الا استغفرلھم، ومن استغفرلہ الملئکۃ لم اعذبہ۔ یامُوسٰی! ثلاث رکعات یصلیھا احمد وامتہ حین تغرب الشمس، افتح لھم ابواب السماء۔ لایسألون من حاجۃ الاقضیتھا لھم۔ یاموسٰی! اربع رکعات یصلیھا احمد وامتہ حین یغیب الشفق، ھی خیرلھم من الدنیا ومافیھا یخرجون من ذنوبھم کیوم ولدتھم امھم۔ یاموسٰی! یتوضؤ احمد وامتہ کماامرتھم، اعطیتھم بکل قطرۃ تقطر من الماء جنۃ عرضھا کعرض السماء والارض۔ یاموسٰی! یصوم احمد واُمتہ شھرا فی کل سنۃ، وھو شھر رمضان،اعطیھم بصیام کل یوم مدینۃ فی الجنۃ، واعطیھم بکل خیر یعملون فیہ من التطوع اجر فریضۃ، واجعل فیہ لیلۃ القدر، من استغفر منھم فیھا مرۃ واحدۃ نادما صادقا من قلبہ، ان مات من لیلہ اوشھرہ اعطیتہ اجر ثلثین شھیدا۔ یاموسٰی! ان فی امۃ محمد رجالا یقومون علی کل شرف یشھدون بشھادۃ ان لاالٰہ الّا اللّٰہ، فجزاؤھم بذلک جزاء الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام، ورحمتی علیھم واجبۃ، وغضبی بعید منھم، ولااحجب باب التوبۃ عن واحد منھم ماداموا یشھدون ان لاالٰہ الا اللّٰہ ۱؎ اھ۔
(۱؎ تنبیہ الغافلین باب فضل ا مۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ص ۴۰۴)
امام فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا میں نے توریت مقدس کے کسی مقام میں پڑھااے مُوسٰی! فجر کی دو۲ رکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دُوں گا اور وہ میرے ذمّہ میں ہوگا۔ اے موسٰی! ظہر کی چار۴ رکعتیں احمد اور اس کی اُمّت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دُوں گا اور دوسری کے بدلے ان کا پلّہ بھاری کردوں گا اور تیسری کیلئے فرشتے موکل کروں گا کہ تسبیح کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے، اور چوتھی کے بدلے اُن کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ کردُوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حُوریں اُن پر مشتاقانہ نظر ڈالیں گی۔ اے مُوسٰی! عصر کی چار۴ رکعتیں احمد اور ان کی اُمت ادا کرے گی تو ہفت آسمان وزمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ جس کی مغفرت چاہیں میں اسے ہرگز عذاب نہ دُوں گا۔ اے موسٰی! مغرب کی تین رکعت ہیں انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی آسمان کے سارے دروازے ان کیلئے کھول دُوں گا، جس حاجت کا سوال کرینگے اسے پُورا ہی کردوں گا۔ اے موسٰی! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشاء کی چار رکعتیں ہیں پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی اُمت، وہ دنیا ومافیہا سے اُن کیلئے بہتر ہیں، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اے موسٰی! وضو کرے گا احمد اور اسکی اُمت جیسا کہ میرا حکم ہے میں انہیں عطا فرماؤں گا ہرقطرے کے عوض کہ آسمان سے ٹپکے ایک جنت جس کا عرض آسمان وزمین کی چوڑائی کے برابر ہوگا۔ اے موسٰی! ایک مہینے کے ہرسال روزے رکھے گا احمد اور اس کی اُمت اور وہ ماہِ رمضان ہے عطا فرماؤں گا اسکے ہر دن کے روزے کے عوض جنت میں ایک شہر اور عطا کروں گا اس میں نفل کے بدلے فرض کا ثواب اور اس میں لیلۃ القدر کروں گا جو اس مہینے میں شرمساری وصدق سے ایک بار استغفار کریگا اگر اسی شب یا اس مہینے بھر میں مرگیا اسے تیس۳۰ شہیدوں کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ اے موسٰی! امتِ محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کچھ ایسے مرد ہیں کہ ہر شرف پر قائم ہیں لاالٰہ الااللہ کی شہادت دیتے ہیں تو ان کی جزا اس کے عوض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا ثواب ہے اور میری رحمت ان پر واجب اور میرا غضب ان سے دور، اور ان میں سے کسی پر بابِ توبہ بند نہ کروں گا جب تک وہ لاالٰہ الّااللّٰہ کی گواہی دیتے رہیں گے اھ (فقیر محمد حامد رضا غفرلہ)
سردناھاتماما، حبالما فیھا من النفائس رزقنا اللّٰہ تعالی الحظ الاوفی منھا بمنہ وکرمہ÷ وجاہ حبیبہ قاسم نعمہ÷ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، اٰمین۔
اس روایت میں ذکر کئے گئے نفیس انعامات سے محبت کی بنا پر ہم نے اس کو بتمامہٖ بیان کردیا ہے، اللہ تعالٰی اپنے احسان وکرم سے اور نعمتیں تقسیم کرنے والے اپنے محبوب کی عزت کے صدقے ہمیں ان انعامات سے کامل حصّہ نصیب فرمائے۔ آمین! (ت)
اقول: ان تم الاحتجاج بہ علی الاختصاص، دل علی خصوص کل من الخمس، لاکل الخمس، فانہ قال فی کل، یصلیھا احمد وامتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، وقد ذکر فیھا الوضوء، وقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ھذا وضوئی و وضوء الانبیاء من قبلی ۱؎، فلیکن المقصود بالذکر عطاؤھم مارتب علیھا من الفضائل۔
میں کہتا ہوں: اگر اس روایت سے اختصاص پر استدلال مکمل مان لیا جائے تو یہ اس پر دلالت کرے گا کہ پانچ میں سے ہر ایک نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہے، نہ کہ پانچ کا مجموعہ، کیونکہ اس روایت میں ہر نماز کے ساتھ یہ آیا ہوا ہے کہ اس کو احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت اداکرے گی، نیز اس روایت میں وضو کا بھی ذکر ہے حالانکہ وضو کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء کا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان چیزوں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ان کے مذکورہ فضائل صرف امتِ محمدیہ کو عطا کئے جائیں گے۔ (ت)
(۱؎ مشکوٰۃ المصابیح باب سنن الوضوء فصل ثالث ، مطبوعہ مجتبائی دہلی ، ص۴۷)
ومنھا(۴) اثر الامام العیشی، مروی الامام الطحاوی، وسیأتی الکلام علیہ۔ ونحوہ ماذکر فی الحلیۃ عن بعضھم، قال: ھذہ الصلوات تفرقت فی الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام وجمعت فی ھذہ الامۃ، فذکر الفجر لاٰدم والظھر لابرٰھیم والعصر لسلیمٰن والمغرب لعیسٰی علیھم الصلاۃ والسلام، ثم قال: واما العشاء فخصصت بھا ھذہ الامۃ ۲؎ اھ۔
اور ان میں سے امام عیشی کا وہ اثر ہے جسے امام طحاوی نے روایت کیا ہے اور اس پر کلام عنقریب آرہا ہے، اسی اثر کے مطابق ہے وہ جو حلیہ میں بعض علماء سے مذکور ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ نمازیں باقی انبیاء علیہم السلام کو متفرق طور پر ملی تھیں اور اس امت کیلئے جمع کردی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید ذکر کیا ہے کہ فجر آدم علیہ السلام کیلئے تھی، ظُہر ابراہیم علیہ السلام کے لئے، عصر سلیمان علیہ السلام کیلئے، اور مغرب عیسٰی علیہ السلام کیلئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ جہاں تک عشاء کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ یہ اُمت مخصوص کی گئی ہے اھ (ت)
(۲؎ شرح معانی الآثار باب الصلوٰۃ الوسطٰی ای الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۲۰)
(شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الرابع فیما فضل اللہ بہ مطبوعہ مطبعہ عامرہ مصر ۵/۴۲۴)
اقول: توجیہ الاستدلال انہ وان ذکر اختصاص ھذہ الامۃ: لکن لم یقل من بین سائر الامم، ولم، یذکران نبیا صلاھا، کماذکر فی سائرھا،فالظاھر التخصیص بھذہ الامۃ مطلقا،اعنی بالنظر الی الامم والانبیاء جمیعا، وقد بدا الکلام ایضا بذکر الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام وھذہ الامۃ فھو المتبادر ھھنا ایضاء لاقصر المقابلۃ علی الامم دون الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔
میں کہتا ہوں: (بعض علماء کی اس عبارت سے) استدلال کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے اگرچہ ذکر تو اتنا ہی کیا ہے کہ نمازِ عشاء اس امت کے ساتھ مخصوص کی گئی ہے لیکن چونکہ یہ نہیں کہاکہ ''باقی اُمتوں میں سے''نہ ہی یہ ذکر کیا ہے کہ یہ نماز کسی اور نبی نے بھی پڑھی تھی، جیسا کہ باقی نمازوں میں یہ بیان کیا ہے تو اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا کہ یہ اُمت مطلقاً اس نماز کے ساتھ مخصوص ہے بنسبت باقی اُمتوں کے بھی اور انبیاء کے بھی (یعنی یہ نماز اس سے پہلے نہ کسی اُمت نے پڑھی نہ کسی نبی نے) نیز اس عبارت کی ابتداء میں اس امت کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کا بھی ذکر ہے تو یہاں بھی ظاہر یہی ہے (کہ اس امت کا عشاء کے ساتھ اختصاص بنسبت باقی انبیاء کے بھی ہے) یہ نہیں کہ صرف اُمتوں کی بنسبت ہو اور انبیاء کی بنسبت نہ ہو۔ (ت)