Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
29 - 157
جمع تقدیم کہ وقت کی نماز مثلاً ظہر یا مغرب پڑھ کر اُس کے ساتھ ہی متصلا بلافصل پچھلے وقت کی نماز مثلاً عصر یا عشاء پیشگی پڑھ لیں، اور جمع تاخیر کہ پہلی نماز مثلاً ظہر یا مغرب کو باوصف قدرت واختیار قصداً اٹھار رکھیں کہ جب اس کا وقت نکل جائے گا پچھلی نماز مثلاً عصر یا عشاء کے وقت میں پڑھ کر اس کے بعد متصلاً خواہ منفصلاً اُس وقت کی نماز اداکریں گے، یہ دونوں صورتیں بحالتِ اختیار صرف حجاج کو صرف حج میں صرف عصرعرفہ ومغرب مزدلفہ میں جائز ہیں اول میں جمع تقدیم اور دوم میں جمع تاخیر عام ازیں کہ وہ مسافر ہوں یا خاص سا کنانِ مکّہ ومنٰی وغیرہما مواضع قریبہ کی وہ بوجہ نسک ہے نہ بوجہ سفر اور بحالت اضطرار وعدمِ قدرت سفر حضر یا ظہر عصر وغیرہا کسی شے کی تخصیص نہیں جتنی نمازوں تک مشغولی جہاد یا شدّتِ مرض یا غشی وغیرہا کے سبب قدرت نہ ملے ناچار سب موخر رہیں گی اور وقت قدرت بحالت عدم سقوط ادا کی جائیں گی جس طرح حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے غزوہ خندق میں ظہر وعصر ومغرب وعشا کے وقت پڑھیں ان کے سوا کبھی کسی شخص کو کسی حالت میں کسی صورت جمع وقتی کی اصلاً اجازت نہیں اگر جمع تقدیم کرے گا نماز اخیرمحض باطل وناکارہ جائے گی جب اُس کا وقت آئیگا فرض ہوگی نہ پڑھے گی ذمے پر رہے گی اور جمع تاخیر کرے گا تو گنہ گار ہوگا عمداً نماز قضا کردینے والا ٹھہرے گا اگرچہ دوسرے وقت میں پڑھنے سے فرض سرسے اُترجائے گا۔ یہ تفصیل مذہب مہذب ہے اور اسی پر دلائل قرآن وحدیث ناطق بلکہ توقیت صلاۃ کا مسئلہ متفق علیہا ہے، ہر مسلمان جانتا ہے کہ نماز کو دانستہ قضا کردینا بلاشبہ حرام تو جس طرح صبح یا عشا قصداً نہ پڑھنی کہ ظہر یا فجر کے وقت پڑھ لیں گے حرام قطعی ہے یوں ہی ظہر یا مغرب عمداً نہ پڑھنی کہ عصر یا عشا کے وقت اداکرلیں گے حرام ہونا لازم اور وقت سے پہلے تو حرمت درکنار نماز ہی بیکار جیسے کوئی آدھی رات سے صبح کی نماز یا پہر دن چڑھے سے ظہر پڑھ رکھے قطعاً نہ ہوگی، یونہی جو ظُہر کے وقت عصر یا مغرب کے وقت عشاء نبٹا لے اس کا بھی نہ ہونا واجب، احادیث میں کہ حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے جمع منقول اُس میں صراحۃً وہی جمع صوری مذکور یا مجمل ومحتمل اُسی صریح مفصل پر محمول، جمع حقیقی کے باب میں اصلاً کوئی حدیث صحیح صریح مفسر وارد نہیں جمع تقدیم تو اس قابل بھی نہیں کہ اُس پر کسی حدیث صحیح کا نام لیا جائے جمع تاخیر میں احادیث کثیرہ کے خلاف دو حدیثیں ایسی آئی ہیں جن سے بادی النظر میں دھوکا ہو مگر عندالتحقیق جب احادیث متنوعہ کو جمع کرکے نظرِ انصاف کی جائے فوراً حق ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ بھی وجوباً یا امکاناً اُسی جمع صوری کی خبر دے رہی ہیں غرض جمع وقتی پر شرع مطہر سے کوئی دلیل واجب القبول اصلاً قائم نہیں بلکہ بکثرت صحیح حدیثیں اور قرآن عظیم کی متعدد آیتیں اور اصول شرع کی واضح دلیلیں اُس کی نفی پر حجت مبین، یہ اجمال کلام ودلائل مذہب ہے۔ لہذا یہ مختصر کلم چار۴ فصل پر منقسم:
فصل ۱ میں جمع صوری کا اثبات جمیل،

فصل ۲ میں شبہات جمع تقدیم کا ابطال جلیل،

فصل ۳ میں جمع تاخیر کی تضعیف واضح البینات،

فصل ۴ میں دلائل نفی جمع وہدایت التزام اوقات۔

اس مسئلے میں ہمارے زمانے کے امامِ لامذہباں مجتہد نامقلداں مخترع طرز نوی مبتدع آزادروی میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہداہ اللہ الی الصراط السوی نے کتاب عجب العجاب معیار الحق کے آخر میں اپنی چلتی حد بھر کا کلام مشبع کیا مباحث مسئلہ میں اگلے پچھلے مالکیوں شافعیوں وغیرہم کا اُلٹا پُلٹا اُلجھا سُلجھا جیسا کلام حنفیہ کے خلاف جہاں کہیں ملا سب جمع کرلیا اور کھلے خزانے احادیثِ صحاح کو رَد فرمانے رواۃ صحیین کو مردود بتانے بخاری ومسلم کی صدہا حدیثوں کو واہیات بتانے محدثی کا بھرم عمل بالحدیث کا دھرم دن دہاڑے دھڑی دھڑی کرکے لٹانے میں رنگ رنگ سے اپنی نئی ابکار افکار کو جلوہ دیا تو بعون قدیر اُس تحریر عدیم التحریر حائز ہر غث ویابس ونقیر وقطمیر کے رد میں تمام مساعی نووکہن کا جواب اور مُلّا جی کے ادعاے باطل عمل بالحدیث ولیاقت اجتہاد وعلم حدیث کے روئے نہانی سے کشف حجاب بعض علمائے عصر عــہ۱  وعظمائے وقت غفراللہ تعالٰی لناولہ وشکر فی انتصارنا للحق سعینا وسعیہ نے ملاجی پر تعقبات کثیرہ بسیط کیے مگر اِن شاء اللہ العزیز الکریم ولاحول ولاقوۃ اِلّا باللہ العلی العظیم، یہ افاضات تازہ چیزے دیگر ہوں گے جنہیں دیکھ کر ہر منصف حق پسند بے ساختہ پکار اُٹھے کہ :
ع  کم ترک الاول للاٰخر
  (بہت سی چیزیں پہلوں نے پچھلوں کیلئے چھوڑ دی ہیں۔ ت)
عــہ۱: یعنی جناب مستطاب حامی السنن ماحی الفتن مولٰنا مولوی حافظ الحاج محمد ارشاد حسین صاحب رامپوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تمام تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر اُن کے ماورا میں بھی جن کا عدد بعونہ تعالٰی اس عـــہ۲ وقت تک ایک سوچالیس سے متجاوز ہے ہمیشہ التزام رہا ہے کہ محل خاص نقل واستناد کے سوا محض جمع وتلفیق کلمات سابقین سے کم کام لیا جائے، حتی الوسع بحول وقوت ربانی اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے:
                                                ع	کہ حلوا چویکبار خورند وبس
عـــہ۲: یہ اُس وقت تھا اب کہ ۱۳۱۹ھ ہے بحمداللہ تعالٰی عدد تصانیف ایک سونوے۱۹۰ سے متجاوز ہے ۱۲ اور اب تو بحمدہ تعالٰی اگر احصا کیا جائے تو پانسوسے متجاوز ہوگا ۱۲ (م)
اگر اقامت دلائل یا ازاحت اقوال مخالف میں وہ امور مذکور بھی ہوتے ہیں کہ اور متکلمین فی المسئلہ ذکر کرگئے تو غالباً وہ وہی واضحات متبادرہ الی الفہم ہیں کہ ذہن بے اعانت دیگرے اُن کی طرف سبقت کرے۔ انصافاً ان میں سابق ولاحق دونوں کا استحقاق یکساں مگر ازانجا کہ کلمات متقدمہ میں اُن کا ذکر نظر سے گزرا اپنی طرف نسبت نہیں کیا جاتا پھر ان میں بھی بعونہ تعالٰی تلخیص وتہذیب وترصیب وتقریب وحذف زوائد وزیادت فوائد سے جدّت جگہ پائے گی اور کُچھ نہ ہو تو اِن شاء اللہ تعالٰی طرزِ بیان ہی احلی ووقع فی القلب نظر آئے گی اس وقت تو یہ اپنا بیان ہے جس سے بحمداللہ تعالٰی تحدیث بنعمۃ اللہ عزّوجل مقصود والحمداللہ الغفور الودود، اہلِ حسد جس معنے پر چاہیں محمول کریں مگر اربابِ انصاف اگر تصانیف فقیر کو مواز نہ فرمائیں گے بعونہٖ تعالٰی عیان موافق بیان پائیں گے باینہمہ اس اعتراف سے چارہ نہیں کہ الفضل للمتقدم (پہل کرنے والے کو فضیلت حاصل ہوتی ہے) خصوصاً علمائے سلف رضی اللہ تعالٰی عنا باکرامہم وحشرنا فی زمرۃ خدامہم کہ جو کچھ ہے اُنہیں کی خدمت کلمات برکت آیات کا نتیجہ اور اُنہیں کی بارگاہ دولت کا حصہ رسد بٹتا ہوا صدقہ:
   ع		اے بادِ صبا! اینہمہ آوردہ تست
Flag Counter