Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
28 - 157
رسالہ 

حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین(۱۳۱۳ ھ)

دو دریاؤں کو ملنے سے روکنے والا، دو۲ نمازوں کو جمع کرنے سے بچانے والا
مسئلہ (۲۸۶)    از بریلی محلہ قراولان    یکم رجب ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سفر کے عذر سے جس میں قصر لازم آتا ہے دو۲ نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینّوا توجرّوا۔
الجواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللّٰہ الذی جعل الصلاۃ علی المؤمنین کتابا موقوتا، وامرھم ان  یحافظوا علیھا فیحفظوھا ارکانا وشروطا ووقوتا، مرج البحرین یلتقيٰن، بینھما برزخ لایبغيٰن، وافضل الصلوات، واکمل التحیات، علی من عین الاوقات وبین العلامات، وحرم علی امتہ اضاعۃ الصلوات، وعلی اٰلہ الکرام، وصحبہ العظام، ومجتھدی شرعہ الغر الفخام، لاسیما الامام الاقدم، والھمام الاعظم، امام الائمۃ، مالک الازمۃ، کاشف الغمۃ، سراج الامۃ، نائل علم الشرع الحنفی من اوج الثریا، ناشر علم الدین الحنیفی نشرا جلیا، نصراللّٰہ اتباعہ ورضی اتباعہ متبوعا تابعیا، وعلینا معھم، یاارحم الراحمین، الی یوم الدین۔
اللہ عزوجل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اُس سے پہلے نماز کی صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت، ظہرین عرفہ وعشائین مزدلفہ کے سوادو۲ نمازوں کا قصداً ایک وقت میں جمع کرنا سفراً حضراً ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔ قرآن عظیم واحادیث صحاح سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب موافق الرائے بالوحی والکتاب امیرالمومنین عمرفاروق اعظم وحضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ وحضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود من اجل فقہاء الصحابۃ البررۃ وحضرت سیدنا وابن سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق وحضرت سیدتنا امّ المؤمنین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم صحابہ کرام وخلیفہ راشد امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز وامام سالم بن عبداللہ بن عمرو امام علقمہ بن قیس وامام اسود بن یزید نخعی وامام حسن بصری وامام ابن سیرین وامام ابراہیم نخعی وامام مکحول شامی وامام جابر بن زید وامام عمروبن دینار وامام حماد بن ابی سلیمان وامام اجل ابوحنیفہ اجلہ ائمہ تابعین وامام سفٰین ثوری وامام لیث بن سعد وامام قاضی الشرق والغرب ابویوسف وامام ابوعبداللہ محمد الشیبانی وامام زفر بن الہذیل وامام حسن بن زیاد وامام دارالہجرۃ عالم المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین وامام عبدالرحمن بن قاسم عتقی تلمیذ امام مالک وامام عیسٰی بن ابان وامام ابوجعفر احمد بن سلامہ مصری وغیرہم ائمہ دین کا، رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔
تحقیق مقام یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین یعنی دو۲ نمازیں ملاکر پڑھنا دو۲ قسم ہے: جمع فعلی جسے جمع صوری بھی کہتے ہیں کہ واقع میں ہر نماز اپنے وقت میں واقع مگرر ادا میں مل جائیں جیسے ظہر اپنے آخر وقت میں پڑھی کہ اس کے ختم پر وقتِ عصر آگیا اب فوراً عصر اوّل وقت پڑھ لی، ہوئیں تو دونوں اپنے اپنے وقت اور فعلاً وصورۃً مل گئیں۔ اسی طرح مغرب میں دیر کی یہاں تک کہ شفق ڈوبنے پر آئی اُس وقت پڑھی ادھر فارغ ہُوئے کہ شفق ڈُوب گئی عشاء کا وقت ہوگیا وہ پڑھ لی، ایسا ملانا بعذر مرض وضرورت سفر بلاشبہہ جائز ہے۔ ہمارے علمائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی اس کی رخصت دیتے ہیں۔ ردالمحتار میں ہے:
للمسافر والمریض تاخیر المغرب للجمع بینھا وبین العشاء فعلاً، کمافی الحلیۃ وغیرھا، ای ان تصلی فی اٰخر وقتھاوالعشاء فی اول وقتھا ۱؎۔
مسافر اور مریض مغرب میں تاخیر کرسکتے ہیں تاکہ اس کو اور عشاء کو فعلاً اکٹھا کرلیں، جیسا کہ حلیہ وغیرہ میں ہے، یعنی مغرب آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشاء اوّل وقت ہیں۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        کتاب الصلٰوۃ    مطبوعہ المصطفٰی البابی مصر        ۱/۲۷۱)
اقول: تاخیر مغرب کا تو یہ خاص جزئیہ ہے اور اسی طرح تاخیر ظہر کہ عصر سے مل جائے بلکہ یہ بدرجہ اولٰی کہ ظہر میں تو کوئی وقت کراہت نہیں ۲؎
کماصرح بہ فی البحرالرائق وحققناہ فیما علقناہ علی ردالمحتار۔
 (جیسا کہ بحرالرائق میں تصریح ہے اور ردالمحتار کے حاشیے پر ہم نے اس کی تحقیق کی ہے۔ ت) بخلاف مغرب کہ اُس کی اتنی تاخیر بے عذر مکروہ شدید ہے ۳؎
کمافی البحر والدر وغیرھما، ونطقت بکراھۃ ذلک احادیث۔
(جیسا کہ بحر اور در وغیرہ میں ہے، اور اس کی کراہت پر کوئی احادیث ناطق ہیں۔ ت)
 (۲؎ البحرالرائق    کتاب الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۹)

(۳؎ الدرالمختار   کتاب الصلٰوۃ     مجتبائی دہلی    ۱/۶۱)
پھر جزئیہ ظہرین بھی کتاب الجج میں نظر فقیر سے گزرا اس کتاب جلی الصواب حلی الخطاب رفیع النصاب میں کلام کلام امام ہمام محرر المذہب سیدنا محمد بن الحسن تلمیذ سید الائمہ امام اعظم ابوحنیفہ اور تالیف رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین فرماتے ہیں:
قال ابوحنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ: الجمع بین الصلاتین فی السفر فی الظھر والعصر، والمغرب والعشاء سواءٌ یؤخر الظھر الٰی اٰخر وقتھا ثم یصلی ویعجل العصر فی اول وقتھا فیصلی فی اول وقتھا، وکذلک المغرب والعشاء یؤخر المغرب الٰی اٰخر وقتھا فیصلی قبل ان یغیب الشفق وذلک اٰخر وقتھا، ویصلی العشاء فی اول وقتھا حین یغیب الشفق، فھذا الجمع بینھما ۴؎۔
امام فقیہ محدث عیسٰی بن ابان تلمیذ امام محمد ہے امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ سفر میں دو۲ نمازوں کا جمع کرنا، خواہ ظہر اور عصر ہوں یا مغرب اور عشاء ہوں، یکساں ہے۔ یعنی ظہر کو آخر وقت مؤخر کرکے پڑھے اور عصر میں تعجیل کرکے اس کو اول وقت میں پڑھ لے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں مغرب کو اتنا مؤخر کرے کہ اس کے آخری وقت میں، یعنی شفق غائب ہونے سے تھوڑا پہلے پڑھے اور عشاء میں جلدی کرکے اس کو اول میں پڑھ لے، یعنی شفق غائب ہونے کے ساتھ ہی، یہ طریقہ ہے ان کو جمع کرنے کا۔ (ت)
 (۴؎ کتاب الحجۃ    باب جمع الصلاۃ فی السفرمطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/۱۷۴)
اُسی میں ہے: قال ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی: من اراد ان یجمع بین الصلاتین بمطر اوسفر اوغیرہ، فلیؤخر الاولی منھما حتی تکون فی اٰخر وقتھا، ویعجل الثانیۃ حتی یصلیھا فی اول وقتھا فیجمع بینھما، فتکون کل واحدۃ منھما فی وقتھا ۱؎ الخ۔
ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بارش،سفر یا کسی اور وجہ سے دو۲ نمازوں کو جمع کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی کو آخر وقت تک مؤخر کردے اور دوسری میں جلدی کرکے اول وقت میں اداکرے، اس طرح دونوں کو جمع کرلے، تاہم ہوگی ہر نماز اپنے وقت میں الخ (ت)
(۱؎ کتاب الحجۃ        باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۱/۱۵۹)
اس کلام برکت نظام امام کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہم سے ظاہر ہواکہ جواز جمع صوری صرف مرض وسفر پر متصور نہیں بضرورت شدت بارش بھی اجازت ہے مثلاً ظہر کے وقت مینہ برستا ہوتو انتظار کرکے آخر وقت حاضر مسجد ہوں جماعت ظہر اداکریں اور وقت عصر پر تیقن ہوتے ہی جماعت عصر کرلیں کہ شاید شدتِ مطر بڑھ جائے اور حضور مسجد سے مانع آئے، مطر شدید میں تنہا گھر پڑھ لینے کی بھی اجازت ہے تو اُس صورت میں تو دونوں نمازوں کے لئے جماعت ومسجد کی محافظت ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
دوسری قسم جمع وقتی ہے جسے جمع حقیقی بھی کہتے ہیں۔ اقول یعنی بمعنی مصطلح قائلان جمع کہ جو معنی جمع اُن کا مذہب ہے وہ حقیقۃً اسی صورت میں ہے ورنہ جمع اپنے اصل معنی پر دونوں جگہ حقیقی ہے کمالایخفی، اور اسی لحاظ سے جمع فعلی کو صوری کہتے ہیں ورنہ حقیقۃً فرائض میں یہ جمع بھی جمع صوری ہی ہے اُن میں تداخل محال تو جب ملیں گے صورۃً ملیں گے اور
معنیً جدا فافھم فانہ نفیس جدا
(اس کو سمجھو کیونکہ یہ بہت نفیس ہے۔ ت) اس جمع کے یہ معنی ہیں کہ ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھی جائے جس کی دو۲ صورتیں ہیں:
Flag Counter