Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
27 - 157
مسئلہ (۲۸۰)از اترولی ضلع علی گڈھ مدرسہ اسلامیہ مرسلہ حافظ عبدالکریم صاحب مدرس۸ جمادی الآخرہ ۱۳۲۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وقت ظہر کا عصر کا مغرب وعشا وفجر کا کب تک رہتا ہے خصوص مغرب کا وقت کب تک رہتا ہے؟
الجواب: وقت ظہر کا اُس وقت تک رہتا ہے کہ سایہ سوا سایہ اصلی کے جو اُس روز ٹھیک دوپہر کو پڑا ہو دو مثل ہوجائے اور عصر کا وقت غروبِ آفتاب تک یعنی جب سورج کی کوئی کرن بالائے اُفق نہ رہے اور اُس کا وقت مستحب جب تک ہے کہ آفتاب کے قرص پر نظر اچھی طرح نہ جمے جب بغیر کسی عارض بخار یا غبار وغیرہ کے نگاہ قرص آفتاب پر جمنے لگی وقتِ کراہت آگیا اور یہ وقت فقیر کے تجربہ سے اُس وقت آتا ہے جب سورج ڈوبنے میں بیس۲۰ منٹ رہ جاتے ہیں مغرب کا وقت سپیدی ڈوبنے تک ہے یعنی چوڑی سپیدی کہ جنوباً شمالاً پھیلی ہوتی اور بعد سُرخی غائب ہونے کے تادیر باقی رہتی ہے جب وہ نہ رہی وقتِ مغرب گیا اور عشا آئی دراز سپیدی کہ صبح کاذب کی طرح شرقاً غرباً ہوتی ہے معتبر نہیں اور یہ وقت ان شہروں میں کم سے کم ایک گھنٹا اٹھارہ منٹ بعد غروبِ آفتاب ہوتا ہے آخر مارچ وآخر ستمبر میں، اور زیادہ سے ایک گھنٹا ۳۵ منٹ ہوتا ہے آخر جون میں، اور موسم سرما میں بڑھ سے بڑھ ایک گھنٹا چوبیس منٹ ہوتا ہے آخر دسمبر میں، اور اس کا وقت مستحب جب تک ہے کہ ستارے خوب ظاہر نہ ہوجائیں، اتنی دیر کرنی کہ چھوٹے چھوٹے ستارے بھی چمک آئیں مکروہ ہے۔ عشا کا وقت طلوعِ فجر صادق تک ہے اور وقتِ مستحب آدھی رات سے پہلے پہلے۔ یہ تمام اوقات درجات شمس ودرجات عرض البلاد کے اختلاف سے مختلف ہوتے رہتے ہیں ان کے لئے ایک وقتِ معین بتانا ممکن نہیں۔ مغرب کو سائل نے بالخصوص دریافت کیا تھا اُس کیلئے وہ قریب تخمینہ کو ان شہروں میں ہے گزارش ہُوا یہی تخمینہ مقدار صبح صادق کا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۲۸۱) از رانی کھیت: ماہِ جون وجولائی واگست میں نمازِ ظہر کا وقتِ مستحب کے بجے سے شروع ہوتا ہے اور کَے بجے تک رہتا ہے؟
الجواب: بحکمِ حدیث وفقہ ایامِ گرما میں تاخیرِ ظہر مستحب ومسنون ہے اور تاخیر کے یہ معنی کہ وقت کے دو۲ حصّے کیے جائیں نصف اوّل چھوڑ کر نصف ثانی میں پڑھیں ۱؎
کماافادہ فی البحرالرائق عن الاسرار وغیرہ
(جیسا کہ بحرالرائق میں اسرار وغیرہ سے اس کا افادہ کیا ہے)
 (۱؎ البحرالرائق     کتاب الصلوٰہ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۷)
اور صیف یعنی ایامِ گرما سے مراد زمان اشتداد گرمی ہے۔ خلاصہ وبحر وغیرہما میں ہے:
الشتاء مااشتد فیہ البرد علی الدوام، والصیف مایشتد فیہ الحر علی الدوام ۲؎۔
شتاء اس موسم کو کہتے ہیں جس میں مستقل طور پر شدید سردی رہے اور صیف اس موسم کو کہتے ہیں جس میں ہر وقت سخت گرمی رہے (ت)
 (۲؎ البحرالرائق     کتاب الصلوٰہ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۸)
اور یہ باختلاف بلاد مختلف ہوتا ہے فلکیوں کی تقسیم کہ تحویلِ حمل سے آخر جوزا تک ربیع، آخرِ سنبلہ تک صیف، آخر قوس تک خریف، آخرِ حوت تک شتا ہے اُن کے بلاد کے موافق ہوگی، ہمارے بلاد میں ہر فصل ایک بُرج پہلے شروع ہوجاتی ہے مثلاً جاڑا تحویل جدی یعنی ۲۲ دسمبر سے شروع نہیں ہوتا بلکہ دسمبر کا سارا مہینہ اور اواخر نومبر یقینا اشتداد سرما کا وقت ہے، یونہی درختوں مشاہدہ شہادت دیتا ہے کہ اواخر فروری تحویل حوت سے بہار شروع ہوجاتی ہے اور بیشک جون کا پورا مہینہ اور اواِخر مئی شدّتِ گرما کا وقت ہے تو ہمارے یہاں تقسیم فصول یوں ہے حوت حمل ثور بہار، جوزا سرطان اسد گرمی، سنبلہ میزان عقرب خریف، قوس جدی دلوجاڑا، توزمانہ استحباب تاخیر ظہر ۲۲ مئی سے ۲۴ اگست تک ہے اوقات نماز کا آغاز وانجام ہر روز بدلتا ہے ایک وقت معین کی تعین ناممکن ہے لہذا ہم صرف ایام تحویلات ثور تا سنبلہ کا حساب بیان کریں کہ اُس سے ایام مابین کا تقریبی قیاس کرسکیں اور زیادت افادت کیلئے ان ایام کا طلوع وغروب بھی لکھ دیں کہ اگرچہ مئی جُون گزرگئے جولائی اگست باقی ہیں صحیح گھڑی سے مقابلہ کرسکتے ہیں اگر دھوپ گھڑی موجود ہوتو جس وقت اس میں کیلی کا سایہ خطِ نصف النہار پر منطبق ہو جیبی گھڑی میں وہ وقت کردیں جو خانہ شروع وقت ظہر میں ہم نے لکھا ہے یہ گھڑی نہایت کافی وجہ پر صحیح ہوگی ورنہ شام کے چار۴ بجے جو مدراس سے تار آتا ہے جس وقت وہ سولہ۱۶ کا گھنٹا بتائے گھڑی میں فوراً چار بجائیں ورنہ ریل تار کی گھڑیوں بلکہ توپ کا بھی کچھ اعتبار نہیں میں نے توپ میں گیارہ منٹ تک کی غلطی مشاہدہ کی ہے اور تین چار منٹ کی غلطی تو صدہا بارپائی ہے ہم اس نقشہ میں ریلوے کا وقت دیں گے اور از انجاکہ یہ تقریب سالہاسال تک کام دے سکنڈوں کی تدقیق نہ کریں گے رانی کھیت کے لئے جس کا عرض شمالی ۲۹ درجے ۳۸ دقیقے اور طول مشرقی ۷۹ درجے ۲۸ دقیقے ہے۔
5_2.jpg
بعض عوام کو اپنی ناواقفی سے وقت ظہر پانچ بجے تک رہنے کا بھی تعجب ہوتا ہے نہ کہ پانچ سے بھی کچھ منٹ زائد تک لہذا ایامِ خمسہ میں سب سے بڑا وقت کہ ۲۴ جولائی کا آیا ہم اس کی برہان ہندسی ذکر کردیں کہ آج کل بہت مدعیانِ علم بھی فن ِ توقیت سے محض ناواقف ہیں اُنہیں اطمینان ہوکہ یہ بیانات جزافی نہیں تحقیقی ہیں جو نہ جانتا ہو جاننے والوں کا اتباع کرے، اور جو نہ خود جانے نہ جانے والوں کی مانے اس کا مرض لاعلاج ہے
البرھان تحویل مفروض بوقت مطلوب راس الاسد بہت ساعۃ درجہ سابقہ ب قہ الح ب x وقت تخمینی ء ت مط لو= ماقہ لاما تقویم نصف النہار حقیقی ج ح الط مح الط میلک حہ ہا ا + تمام العرض سہ ح الب + نصف قطربہ قہ مو= ف حہ مط موتمامہ ط حہ ی مدبعد سمتی حقیقی حاجبی وقت ظہیرہ تحویلش بمرئی ط حہ ی ہ ظلش ط حہ ما اما ظل وقت عصر حنفی ع ط ما اما قوسہ حہ سہ + نصف قطر= حہ سہ الرنط الب بعد سمتی حقیقی مرکزی وقت مطلوب عرض البلد الط حہ لح میل راس الاسد ک حہ ط لح نر= ط حہ الح الوح+ بعد سمتی = عدحہ نوالہ الہ نصفہ لرحہ الح مح حبیبہ

۷۸۴۱۵۲۶ء ۹ وبعد سمتی۔ نصف مذکور = الرحہ نط مولط حبیبہ ۶۷۱۵۵۶۴ء ۹ قاطع عرض ۰۶۰۸۷۶۶ئ۰ قاطع میل ۰۲۷۴۵۶۰ء جمیع الاربعہ ۵۴۴۰۲۲ء ۹ تقویسش درجدول وقت ۶ء ۹ ۵َ۴ ت+ فصل طول وسط الہندی ۱۲+ تعدیل الایام ۱۶ً ۶َ = ۶ئ ۳۳ً ۸َ ۵ت یعنی پانچ بج کر آٹھ منٹ ۳۴ سکنڈ پر وقتِ ظہر ختم ہُوا واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۸۲ و ۲۸۳) از شہر۔ سنہری مسجد مسئولہ مولوی عبدالرشید صاحب یکے از طلبائے مدرسہ اہل سنّت وجماعت بریلی    ۲ ذی الحجہ ۱۳۳۰ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد نالہ میں ظہر کی نماز وقت ۲/۱ ۲ پر باجماعت ہوتی ہے اور عصر کی نماز ۲/۱ ۴ پر باجماعت ہوتی ہے یہ وقت نماز کے ایامِ سرما میں تنگ سمجھے جائیں گے یا کچھ کمی بیشی ان اوقات میں کی جائے۔ بعض صاحب فرماتے ہیں کہ ظہر ۲ بجے اور عصر ۴ بجے ہونی چاہئے ان دو۲ وقتوں میں اوّل کی پابندی کی جائے یا ثانی کی دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بازار کی مسجد میں ہر جماعت یعنی ایک ہی وقت کی کئی جماعت کے واسطے تکبیر اور اذان ہر مرتبہ پڑھی جائے یا صرف جماعت اوّل ہی میں اور محلّہ کی مسجد میں جماعت ثانی میں تکبیر اور اذان ہونی چاہئے یا نہیں اور بازاری مسجد میں ہر جماعت اولیٰ کا ثواب ہے یا نہیں۔
الجواب: اگر یہ صحیح وقت ہوں تو کسی موسم میں ظہر اور عصر کیلئے تنگ وقت نہیں سب میں جلد وقت مغرب نومبر کے آخر اور دسمبر کی ابتدائی تاریخوں میں ہوتا ہے جب ریلوے وقت سے آفتاب سواپانچ بجے ڈوبتا ہے اور کراہت کا وقت غروب سے صرف بیس منٹ پہلے ہے تو چار بج کر پچپن۵۵ منٹ پر وقتِ کراہت آجائے گا نماز اگر ٹھیک ساڑھے چار بجے شروع ہُوئی تو غایت درجہ دس۱۰ بارہ۱۲ منٹ میں ختم ہوجائیگی جب بھی وقت کراہت سے تقریباً پاؤ گھنٹے پہلے ہوچکے گی، ہاں اُن دنوں میں پونے پانچ بجے شروع جماعت میں خطرہ ہے کہ اگر جماعت ۸ منٹ میں اداکی اور شروع میں پونے پانچ بجے سے دو۲ تین۳ منٹ بھی دیر ہوگئی تو سلام سے پہلے وقت کراہت آجائے گا اتنی تاخیر وہ کرے جس وقت صحیح معلوم ہوں اور تصحیح ساعات جانتا ہوکہ عصر میں جتنی تاخیر ہو افضل ہے جبکہ وقتِ کراہت سے پہلے پہلے ختم ہوجائے، پھر جو وقت مقرر ہوتا ہے اکثر چند منٹ اس سے تاخیر بھی ہوجاتی ہے اور گھڑی کبھی چند منٹ سُست ہوجاتی ہے
ومن رتع حول الحمی اوشک ان یقع فیہ
(اور جو چراگاہ کے اردگرد چرے، تو ہوسکتا ہے کہ اس میں گھُس پڑے۔ ت) لہذا اُن ایام میں عام کو عصر سواچار بجے مناسب تر ہے اور گھڑی کی تحقیق صحیح ہوتو ایام سرما میں ساڑھے چار بجے شروع نماز میں اصلاً حرج نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بازار کی مسجد میں کہ اہلِ بازار کے لئے بنی اسی طرح سَرا اور اسٹیشن کی مسجد اور مسجد جامع ان سب میں افضل یہی ہے کہ جو گروہ آئے نئی اذان نئی اقامت سے جماعت کرے وہ سب جماعت اولیٰ ہوں گی اور مسجدِ محلّہ میں جماعت ثانیہ کے لئے اعادہ اذان منع ہے تکبیر میں حرج نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۸۴ و ۲۸۵):از موضع سرنیاں ضلع بریلی مسئولہ امیر علی صاحب رضوی ۱۱ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں بعض اشخاص ذی علم اور مولوی سوال کرتے ہیں کہ آپ کے اعلٰیحضرت مولٰنا مولوی حاجی مفتی قاری صاحب کیوں نمازِ جمعہ وقت کھوکر پڑھتے ہیں وقت قطعی نہیں رہتا ہے اور دیگر نمازیں بھی اخیر وقت پر پڑھتے ہیں، سائل نے اس کے جواب میں یوں کہا کہ وقت کھونا نہیں ہے بلکہ درمیان وقت جمعہ ادا ہوتا ہے اور کُل نمازیں بھی درمیان وقت میں پڑھتے ہیں کیونکہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ طریق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درمیان وقت میں پڑھتے تھے کیونکہ جبریل علیہ السلام نے پہلے روز اوّل وقت اور دوسرے روز اخیر وقت پڑھا اور کہا کہ وقت اِن دونوں نمازوں کے درمیان ہے اس پر وہ لوگ جواب دیتے ہیں کہ اکثر ہم لوگ دُور دُور تک سَیر کو گئے ہیں بمبئی، مکّہ شریف، مدینہ شریف اور ہندوستان کے کل شہروں میں مولوی اول وقت اداکرتے ہیں کیا وہ حنفی مذہب نہیں ہیں دیگر دیہات میں مولوی جمعہ کی نماز جائز کرتے ہیں اور اعلٰحضرت منع کرتے ہیں حنفی مذہب سے خلاف ہے ہر قسم کے سوال کرتے ہیں خیر ان کا لکھنا مناسب نہ جانا حضور جو کچھ تحریر فرماویں جواب دیا جائے گا۔
الجواب:  اللہ عزّوجل فرماتا ہے:
وکذٰلک جعلنا لکل نبی عدواشیطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا ۱؎
یونہی ہم نے ہر نبی کے دشمن کردیے آدمیوں اور جِن میں کے شیطان کہ اُن میں ایک دوسرے کے دل میں جھُوٹی بات ڈالتا ہے دھوکے کی۔
 (۱؎ القرآن    سورہ الانعام ۶    آیت ۱۱۲)
جب انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ یہ برتاؤ رہا تو اُن کے ادنیٰ غلام کیوں اپنے آقایان کرام کے ترکہ سے محروم رہیں، جائے ہزاروں ہزار شکر ہے کہ ہم سے نالائقوں کو اُن کریموں کے ترکہ سے حصّہ ملے، اللہ عزوجل فرماتا ہے:
واعرض عن الجٰھلین ۲؎
(جاہلوں سے منہ پھیرلو)
 (۲؎ القرآن    سورہ الاعراف ۷    آیت ۱۹۹)
اور فرماتا ہے جاہلوں کے جواب میں یوں کہو:
لانبتغی الجٰھلین ۳؎
 (جاہلوں کے مُنہ لگنا ہم نہیں چاہتے)
 ( ۳؎ القرآن    سورہ القصص ۱/۲۸    آیت ۵۵)
نہ کہ وہ حضرات کہ جاہل بھی ہوں اور کذاب بھی اور مفتری بے حجاب بھی اور معاند تعصب مآب بھی، ایسوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ
نذرھم فی طغیانھم یعمھون ۱؎
 (ہم اُنہیں چھوڑتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں)
(القرآن  6/110)
ان تمام مسائل کے روشن بیان ہمارے فتاویٰ میں موجود ہیں مگر متعصب معاند کو علم دینا بے سُود اور کذب وافترا کا علاج مفقود، سائل ان کو ذی علم مولوی کہتا ہے اور جو باتیں اُن کی بیان کیں وہ تو ایسے جاہلوں کی ہیں جن کو کسی عالم کی صحبت بھی نصیب نہ ہوئی۔ سائل کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی کی ایسی بیہودہ باتیں پیش نہ کیا کرے، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter