Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
26 - 157
کھونا ہے۔ بعینہٖ یہی معنی ابن جریر نے عبداللہ بن عباس اور ابن ابی حاتم نے مسروق اور عبدالرزاق وابن المنذر نے بطریق مالک بن دینار امام حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیے روایت اخیرہ یوں ہے کہ ابو العالیہ نے کہا ساھون وہ لوگ ہیں جنہیں یاد نہ رہے کہ رکعتیں دو۲ پڑھیں یا تین۳۔ اس پر امام حسن نے فرمایا: ھو الذی یسھوعن میقاتھا حتی تفوت (ہائیں وہ وہ ہیں جو اُس وقت سے غافل رہیں یہاں تک کہ وقت نکل جائے۔ م) فقیر کے یہاں بحمداللہ نماز تنگ وقت نہیں ہوتی بلکہ مطابق مذہب حنفی ہوتی ہے، عوام بیچارے اپنی ناواقفی سے غلط سمجھتے ہیں، مذہب حنفی میں سوا مغرب اور جاڑوں کی ظہر کے سب نمازوں میں تاخیر افضل ہے اُس حد تک کہ وقتِ کراہت نہ آنے پائے اور وہ عصر میں اُس وقت آتا ہے جب قرصِ آفتاب پر بے تکلّف نگاہ جمنے لگے اور تجربے سے ثابت کہ یہ بیس منٹ دن رہے ہوتا ہے اس سے پہلے پہلے جو نماز عَصر اُس کے وقت کا نصف اول گزار کر نصف آخر میں ہو وہ وقت مستحب ہے مثلاً آج کل تقریباً سات۷ بجے غروب ہے اور قریب پانچ کے عصر کا وقت ہوجاتا ہے تو وقت مستحب یہ ہے کہ پانچ بج کر پچاس منٹ سے چھ بج کر چالیس منٹ تک نمازِ عصر پڑھیں اور عشا میں وقتِ کراہت آدھی رات کے بعد ہے یہ حالتیں بحمداللہ تعالٰی میرے یہاں نہیں مجھے پابندی امام ابُوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احکام کی ہے نہ جاہلوں کے خیالات واوہام کی دارقطنی سنن اور حاکم صحیح مستدرک میں بطریق عباس بن ذریح، زیاد بن عبداللہ نخعی سے راوی:
قال کنا جلوسا مع علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی المسجد الاعظم فجاء المؤذن فقال: یاامیر المؤمنین! فقال: اجلس، فجلس ثم عاد فقال لہ ذلک، فقال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ھذا الکلب یعلمنا السنۃ، فقام علی فصلی بنا العصر، ثمّ انصرفنا، فرجعنا الی المکان الذی کنافیہ جلوسا، فجثونا للرکب لنزول الشمس للغروب نترااٰھا ۱؎۔
ہم کُوفہ کی جامع مسجد میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کے پاس بیٹھے تھے، مؤذن آیا اور عرض کی: یاامیرالمومنین (یعنی نمازِ عصر کو تشریف لے چلیے) امیرالمومنین نے فرمایا: بیٹھ۔ وہ بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ حاضر ہُوا اوروہی عرض کی۔ مولیٰ علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ، نے فرمایا: یہ کُتّا ہمیں سُنّت سکھاتا ہے۔ بعدہ مولا علی کھڑے ہوئے اور ہمیں عصر پڑھائی پھر ہم نماز کا سلام پھیر کر مسجد میں جہاں بیٹھے تھے وہیں آئے تو گھُٹنوں کے بل کھڑے ہوکر سورج کو دیکھنے لگے اس لئے کہ وہ ڈوبنے کو اُترگیا تھا۔
 (۱؎ سُنن الدارقطنی، باب ذکر بیان المواقیت الخ ، مطبوعہ نشر السنۃ ملتان ، ۱/۲۵۱)
حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے اما ان زیاد الم یرو عنہ غیر العباس ۲؎،
رہی یہ بات کہ زیاد سے سوائے عباس کے کسی نے روایت نہیں کی،
 (۲؎سُنن الدارقطنی        باب ذکر بیان المواقیت الخ        مطبوعہ نشر السنۃ ملتان    ۱/۲۵۱)
قالہ الدارقطنی، فاقول: عباس ثقۃ، وغایتہ جھالۃ عین، فلا تضر عندنا، لاسیما فی اکابر التابعین۔ قال فی المسلّم، لاجرح بان لہ راویا فقط وھومجھول العین باصطلاح ۳؎۔
جیسا کہ دارقطنی نے کہا ہے، تو میں کہتا ہوں: عباس ثقہ ہے، زیادہ سے زیادہ اس میں ''جہالت عین'' پائی جاتی ہے اور یہ ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے، خصوصاً اکابر تابعین میں۔ مسلّم میں ہے کہ یہ کوئی جرح نہیں ہے کہ فلاں سے ایک ہی راوی ہے اور وہ اصطلاحی طور پر ''مجہول العین'' ہے،
(۳؎ مسلّم الثبوت مع شرح فواتح الرحموت    مسئلہ مجہول الحال الخ    مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم، ایران۲/۱۴۹)
فواتح میں ہے کہ بعض نے کہا کہ ایسا راوی قابل قبول نہیں ہے، لیکن یہ بے دلیل بات ہے۔ (ت)
(۴؎ فواتح الرحموت شرح مسلّم الثبوت    مسئلہ مجہول الحال الخ۲/۱۴۹)
اگر یہ مولیٰ علی کا صرف اپنا فعل ہوتا جب بھی حجت شرعی تھا نہ کہ وہ اسے صراحۃً سنّت بتارہے اور مؤذن پر جو جلدی کا تقاضا کرتا تھا ایسا شدید غضب فرمارہے ہیں، اسی کی مثل امیرالمومنین کرم اللہ تعالٰی وجہہ، سے نمازِ صبح میں مروی امام طحاوی بطریق داود بن یزید الاودی عن ابیہ روایت فرماتے ہیں:
قال کان علی ابن ابی طالب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یصلی بناالفجر ونحن نتراای الشمس مخافۃ ان تکون قدطلعت ۱؎۔
مولیٰ علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ ہمیں نماز صبح پڑھایاکرتے اور ہم سورج کی طرف دیکھا کرتے تھے اس خوف سے کہ کہیں طلوع نہ کر آیاہو ۔
(۱؎ شرح معانی الآثار باب الوقت الذی یصلی فیہ الفجرای وقت ھو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۲۳)
مناقب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ للامام حافظ الدین الکردری میں ہے:
ذکر الامام الدیلمی عن زھیر ابن کیسان قال صلیت مع الرصافی العصر ثم انطلقت مسجد الامام فاخر العصر حتّٰی خفتُ فوات الوقت ثم انطلقت الٰی مسجد سفین فاذاھو لم یصل العصر فقلت رحم اللّٰہ اباحنیفۃ مااخرھا مثل اخر سفین ۲؎
یعنی امام دیلمی نے زہیربن کیسان سے روایت کی کہ میں رصافی کے ساتھ نماز عصر پڑھ کر مسجد امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں گیا امام نے عصر میں اتنی تاخیر فرمائی کہ مجھے خوف ہُوا کہ وقت جاتا رہے گا پھر میں مسجد امام سفین ثوری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف گیا تو کیا دیکھوں کہ اُنہوں نے ابھی نماز پڑھی بھی نہیں میں نے کہا اللہ ابوحنیفہ پر رحمت فرمائے انہوں نے تو اتنی تاخیر کی بھی نہیں جتنی سفیٰن نے۔
 (۲؎ مناقب امام اعظم ابوحنیفہ    للکُردری الفصل الثانی فی اصول بنی علیہ مذہب مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ۱/۱۵۲)
فقیر کے یہاں سَوا گھنٹا دن رہے اذانِ عصر ہوتی ہے اور گھنٹا بھر دن رہے نماز ہوتی ہے اور پون گھنٹا دن رہے سے پہلے ہوچُکی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۲۷۹)از ریاست رام پور متصل تالاب کنڈا محلہ میاں نگاناں مکان جناب سیدغلام چشتی صاحب مرسلہئ جناب مولٰنا مولوی محمد یحییٰ صاحب    ۱۲ صفر ۱۳۲۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قطع نظر شفق سُرخ وسپید کے باتفاق علمائے حنفیہ بعد غروبِ آفتاب کے ایک گھنٹے بیس منٹ کے بعد ہمیشہ وقت عشاء کا آجاتا ہے یا نہیں؟ بینّوا توجّروا۔
الجواب: عشائے متفق علیہ کا وقت ہمیشہ ایک گھنٹہ بیس منٹ بعد ہوجانے کا جبروتی حکم کہ بعض بے علموں نے محض جزافاً لکھ دیا اور گنگوہ ودیوبند کے جاہل وناواقف مُلّاؤں نے اُس کی تصدیق وتوثیق کی۔ بریلی، بدایوں، رامپور، شاہجہان پور، مراد آباد، بجنور، بلند شہر، پیلی بھیت، دہلی، میرٹھ، سہارنپور، دیوبند، گنگوہ وغیرہا بلاد شمالیہ بلکہ عامہ مواضع واضلاع ممالک مغربی وشمالی واودھ وپنجاب وبنگال ووسط ہندو راجپوتانہ غرض معظم آبادی ہندوستان میں محض غلط وباطل اور حلیہ صدق وصواب سے عاری وعاطل ہے ہمارے بلاد اور اُن کے قریب العرض شہروں میں عشا کا اجماعی وقت غروب شرعی شمس کے ایک گھنٹا اُنیس منٹ بعد سے ایک گھنٹا پنتیس۳۵ منٹ بعد تک ہوتا ہے پھر جس قدر شمال کو جائیے وقت بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ اقصائے شمالی ہند میں تحویل سرطان کے آس پاس بعد غروب شمس پونے دو۲ گھنٹے سے بھی زائد ایک گھنٹا اڑتالیس۴۸ منٹ تک پہنچتا ہے، دو۲ منٹ کم آدھے گھنٹے کی غلطی ہے کہ شفق احمر وابیض میں اختلافِ ائمہ بھی اُس کی جھونک نہیں اٹھاسکتا ہم اپنے بلاد میں سب سے جلد آنے والے عشا کہ حوالی اعتدالین یعنی ۲۱ مارچ و ۲۴ ستمبر کے اردگرد ہوتی ہے اور سب سے دیر میں ہونے والی عشا کہ تحویلِ سرطان ۲۲ جُون پر ہوتی ہے حساب ہندسی سے پیش کریں جس سے واضح ہوجائے گا کہ اُن بے علم مفتیوں نے شرعِ الٰہی پر جاہلانہ حکم لگادینے میں کس قدر جرأت کی تحویل حمل غروب نجومی وہات انکسار افقی تقریباً قہ تعدیل الایام زائد قہ ح فرق طول شرقی مدارح قہ ح مجموع وت یہ یعنی ۲۱ مارچ کو یہاں غروب شمس تقریباً سواچھ بجے ہے العشاء  (جیب غایۃ الانخفاص ساحہ لرمثل تمام العرض لعدم المیل= نت حہ مرح نخ) = (جیب انخفاض الوقت لح حہ=لح حہ لب الرم )= لد حہ مد مویح -(جیب اوسط=جیب تام العرض لعدم المیل= نت قہ مر مد منحطا)= لح حہ نہ لب سہم قوسہ سط حہ الولح فضل الدائر x ء = ء ت لرمہ تمامہ الی رت نہ الب نہ+(تعدیل الایام وفرق طول زائدین=ماقہ) رت لح ہہ یعنی اُس تاریخ سات بج کر سو ا تینتیس منٹ پر وقتِ عشا آیا اس میں سے سوا چھ گھنٹے تفریق کیے تو ایک گھنٹا سوا اٹھارہ منٹ رہے تحویل سرطان غروب نجومی وت مذح انکسار قہء تعدیل الایام وفرق طول زائدین قہ مجموع رت ح یعنی ۲۲ جون کو یہاں غروب شمس سات بج کر تین منٹ پر ہے وبروجہ ادق تمام العرض حہ سالر۔ میل اعظم الح حہ الر= لح ح ی غایۃ الانحطاط جیبہ لرء حہ لرالونصف قطرہ مو+ انکسار معدل لب قہ نا= مع قہ لرانحطاط الوقت حبیبہ قہ مذلۃ تفاضل الحبیبین لو صہ ح مب ناجیب تمام المیل سوحہ لح= نہ حہ م ء x جیب تمام العرض نب حہ مرح نح منحط= مح حہ الہ لح لح جیب اوسط پس تفاضل حبیبین÷ جیب اوسط منحط = مدحہ نح ط مہ سہم قوسہ عہ حہ الدلوہ فضل الدائر x قہء = ہ ت الح تمام وت نح الب + تعدیل الایام انہ لب + فصل شرقی ح قہ ما = رت ح ہ یوں بھی وہی سات پر تین منٹ آئے۔العشاء لرحہء لرالو۔ح حہ لب الرم = ح حہ لب ط مو÷مح قہ الہ لح لح= الب حہ نرسوسہم قوسہ ناحہ نح وفضل الدائر x ء قہ = ح ت الرلب تمامہ ح ت لب الح+ الب قہ+ قح ما= ح ت لر مایعنی اُس تاریخ ۸ بج کر سواسینتیس منٹ پر عشا ہُوئی تفریق وقت غروب کرنے پر ایک گھنٹے چونتیس منٹ سے قدرے زائد وقت ہُوا بعینہٖ یہی مقداریں وقت صبح کی ہیں ہاں ہمارے بلاد میں صرف بقدر ثلث سال بھر یعنی تقریباً نصف دلو سے نصف حمل اور نصف سنبلہ سے نصف عقرب تک یہ اوقات ایک گھنٹا بیس منٹ کے قریب قریب رہتے ہیں باقی تمام سال میں اُس سے زائد تو دہلی، رامپور، میرٹھ، مظفرنگر، دیوبند، گنگوہ، سہارن پور میں کہ سب بریلی سے شمال کوہیں اور باہم ہر پچھلا پہلے سے زیادہ شمالی ہے ہمیشہ ایک گھنٹا بیس منٹ کیونکر معقول ہے اگرچہ مفتیان جاہل ومخطیان غافل اپنی بیخردی سے تصدیقیں کریں شہادتیں دیں اُس کو اپنے بے بصربے خبر عمائد کا معمول یہ بتائیں وہ بھی نہ فقط عشا بلکہ وقت صبح میں بھی جس کاحاصل یہ کہ سال کے دو۲ تہائی حصّے میں اُن کبر اواذباب سب کے روزے نذر جہل بے حساب اور اُن کی سحری کے ختم بلکہ کبھی شروع سے بھی پہلے جلوہ صبح صادق بے حجاب نسأل اللّٰہ العفو والعافیۃ ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
Flag Counter