Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
25 - 157
وقول امام قاضی عیاض فی شرح صحیح مسلم: قد لایتفق مشاھدۃ عین الغروب ویشاھد ھجوم الظلمۃ حتی یتیقن الغروب بذلک، فیحل الافطار ۲؎۔
 (۲؎ شرح صحیح مسلم للامام قاضی عیاض)
کبھی غروب کا مشاہدہ کرنے کا اتفاق نہیں ہوتا لیکن تاریکی چھا جانے کا مشاہدہ ہوجاتا ہے جس سے غروب ہونے کا یقین ہوجاتا ہے، تو اس وقت افطار جائز ہے۔ (ت)
وقول امام عینی فی عمدۃ: ثم بین مایعتبرہ من لم یتمکن من رؤیۃ جرم الشمس، وھو اقبال الظلمۃ من المشرق، فانھا لاتقبل منہالاقدسقط القرص ۱؎ ۔
پھر اس چیز کو بیان کیا جس کو وہ آدمی بھی جان لیتا ہے جس کیلئے سورج کی ٹکیہ کو دیکھنا ممکن نہ ہو، یعنی مشرق کی جانب تاریکی کا آجانا، کیونکہ وہ تب ہی آتی ہیجب سورج کی ٹکیہ غائب ہوچکی ہوتی ہے۔ (ت)
 (۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری باب الصّوم فی السفر والافطار مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت۱۱/۴۳)
وقول جامع الرموز: ای وقت غیبۃ جرم الشمس کلہ اذاظھر الغروب، والا فالی وقت اقبال الظلمۃ من المشرق، کمافی التحفۃ ۲؎۔
 (۲؎ جامع الرموز للقہستانی کتاب الصّلوٰۃمکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران۱/۱۱۳)
یعنی افطار اس وقت کرے جب سورج کی پُوری ٹکیہ غائب ہوجائے، اگر غروب اس کیلئے ظاہر ہو، ورنہ جب مشرق کی جانب تاریکی آجائے (تو افطاار کرلے) جیسا کہ تحفہ میں ہے۔ (ت)
وامثال ذلک کہ صراحۃً اُنہیں مواضع سے متعلق ہیں جہاں افق ظاہر اور رؤیت مقدمہ ورنہ ہو ایسے ہی عدم تمکن پر محمول ورنہ جب باجماعِ اُمّت اور خود اُنہیں علماء اور اُن کے امثال کی تصریحات قطعیہ سے مدار حکم غروب جمیع جرم شمس ہے اور اصل اُفق سے ارتفاع سواد بشہادت مشاہدہ قبل غروب حاصل تو مجرد اقبال پر ادارت حکم کیونکر معقول اور حدیث مؤطا:
مالک عن ابن شہاب عن حمید بن عبدالرحمٰن ان عمر بن الخطاب وعثمٰن بن عفان رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما کانا یصلیان المغرب حین ینظر الی اللیل الاسود قبل ان یفطرا، ثم یفطران بعد الصلاۃ، وذلک فی رمضان ۳؎۔
مالک، ابن شہاب سے، وہ حمیدا بن عبدالرحمن سے راوی ہیں کہ عمر ابن خطاب اور عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہما رمضان میں اس وقت مغرب کی نماز پڑھا کرتے تھے جب افطار سے پہلے سیاہ رات کو دیکھ لیتے تھے، پھر نماز کے بعد افطار کیا کرتے تھے۔ (ت)
 (۳؎ موطا الامام مالک ماجاء فی تعجیل الفطرمطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۲۲۸)
تو اُن عبارات سے بھی قریب تر ہے۔ شہر اور شہر کا بھی وسط اور وہ بھی نخلستان اور ملک کوہستان، پھر امامین جلیلین رضی اللہ تعالٰی عنہما کا حُسنِ احتیاط خود عبارتِ حدیث سے ظاہر کہ حین ینظر ان الی اللیل الاسود مجرد ذکر لیل یعنی سواد پر قناعت نہ کی بلکہ تاکیداً صفتِ اسود بڑھائی یعنی جب سیاہ سیاہی گہری ظلمت دیکھ لیتے اُس وقت نماز پڑھتے،
حدیث صحیحین اذا رأیتم اللیل قداقبل من ھھنا فقد افطر الصائم ۴؎
 (جب تم رات کو دیکھو کہ ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار افطار کرلے۔ ت)
 (۴؎ الصحیح لمسلم باب بیان وقت انقضاء الصوم الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۵۱)
میں اقبال لیل پر اقتصار بعض رواہ کا اقتصار ہے کہ بکثرت معہود خود اسی حدیث کی دوسری روایت میں صرف
اذاغابت الشمس من ھھنا فقد افطر الصائم ۵؎
(جب اِدھر سے سورج غائب ہوجائے تو روزہ دار افطار کرلے۔ت) ہے،
 (۵؎الصحیح لمسلم باب بیان وقت انقضاء الصوم الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۵۱)
تیسری میں اذاغابت الشمس من ھھنا وجاء اللیل من ھھنا فقدافطر الصائم ۱؎
 (جب اِدھر سے سورج غائب ہوجائے اور اُدھر سے رات آجائے تو روزہ دار افطاار کرلے۔ ت) ہے
 (۱؎ الصحیح لمسلم باب بیان وقت انقضاء الصوم الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۵۱)
کلتاھما فی صحیح مسلم وغیرہ (دونوں صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں ہیں۔ ت) اور اگر نہ بھی ہوتا تو بعد ارادہئ لیل حقیقی اصلاً مفید متو ہم نہ رہتی اور علی التنزیل یہ بھی نہ سہی تو اُنہیں مواضع سے متعلق سمجھی جاتی بالجملہ خلاف پر اصلاً کوئی لفظ ایسا بھی نہیں جسے صریح مفسر کہئے نہ کہ ایسا جس کے سبب مشاہدات وحسّیات کو باطل کردیجئے کہ اُن کے ابطال میں معاذاللہ ابطال شرائع ہے تلقی کتاب ورؤیت معجزات آخر بذریعہ حاسہ سمع وبصر ہی ہوں گے فقیر غفراللہ لہ نے اس مطلب پر برہان ہندسی قائم کی ہے اگرچہ بعد بیان سابق کسی دلیل عقلی کی حاجت نہیں مگر اُس سے زیادت تایید وتشیید کے علاوہ یہ مقدار معلوم ہوگی کہ غروبِ شمس سے کتنے پہلے سیاہی چمک آئیگی نیز اُس سے مقدار بلندی سیاہی وقت غروب کے حساب میں بھی مدد ملے گی جسے اُس پر اطلاع منظور ہو فقیہ کی کتاب ''زیج الاوقات للصوم والصلوات'' کی طرف رجوع کرے وباللّٰہ التوفیق واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۷۸)از شہرکُنہ مسئولہ خیاط وہابی    ۲۹ ربیع الآخر شریف

تنگ وقت نماز ادا کرنے والے کو اللہ تعالٰی ویل فرماتا ہے اور آپ خود تنگ وقت ادا فرماتے ہیں اس کی تفصیل بیان فرمادے گا۔
الجواب:  تنگ وقت نماز اداکرنے پر قرآن عظیم میں ویل کہیں نہ فرمایا ساھون کے لئے وَیل آیا ہے جو وقت کھوکر نماز پڑھتے ہیں حدیث میں اس آیت کی یہی تفسیر فرمائی ہے بزار وابویعلی وابن جریر وابن المنذر وابن حاتم اور طبرانی اور ابن مردویہ تفسیر اور بہیقی سنن ومحی السنہ بغوی معالم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال سألت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن قول اللّٰہ تعالٰی الذین ھم عن صلوتھم ساھون، قال ھم الذین یؤخرون الصلاۃ عن وقتھا ۲؎۔
 (۲؎ السنن الکبری للبہیقی باب الترغیب فی حفظ الصّلوٰۃ الخ    مطبوعہ دارصادر بیروت ۲/۲۱۴)
میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ عزّوجل قرآنِ عظیم میں فرماتا ہے ''خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں''۔ فرمایا وہ لوگ جو نماز وقت گزار کر پڑھیں۔
بغوی کی روایت یوں ہے: عن مصعب بن سعد عن ابیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن الذین ھم فی صلوتھم ساھون، قال: اضاعۃ الوقت ۱؎۔
مصعب بن سعد سے انکے والد رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: اس سے مراد وقت کھونا ہے۔ (ت)
 (۱؎ تفسیر البغوی مع تفسیر الخازن  ، زیر آیۃ الذین ھم عن صلٰوتھم ساھون  ، مطبوعہ مکتبہ المصطفیٰ البابی مصر    ۷/۲۹۹)
Flag Counter