Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
24 - 157
عالمِ ماکان ومایکون صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تینوں لفظ اُسی ترتیب سے ارشاد فرمائے جس ترتیب سے واقع ہوتے ہیں، پہلے سیاہی اُٹھتی ہے اُس وقت تک اگر اُفق صاف اور غبار وبخار سے پاک ہو آفتاب کی چمک باقی رہتی بلکہ قلل جبال واعالی اغصان شجر پر عکس ڈالتی ہے پھر جب قرص چھپنے پر آیا تکاثفِ ابخرہ افقیہ وکثرت بعد عن الابصار وطول مرور شعاع البصر فی ثخن کرۃ البخار کے باعث روشنی بالکل محتجب ہوجاتی ہے مگر ہنوز قدرے قرص بالائے افقِ مرئیِ شرعی باقی ہے اس کے بعد آفتاب ڈوبتا اور وقت افطار ونماز آتا ہے اس صاف ونفیس وبے تکلف معنی پر بحمداللہ تعالٰی انتظام کلام اُسی اعلیٰ جلالت پر جلوہ فرماہے جو صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان رفیع بلاغت بے مثل کو شایاں وبجا ہے کلماتِ علمائے کرام بھی ان نفیس معنی کے ایما سے خالی نہ رہے امام ابنِ حجر مکّی شرح مشکوٰہ المصابیح میں اسی حدیث کے نیچے فرماتے ہیں:
ای وقدیقبل اللیل ولاتکون غربت حقیقۃ، فلابدمن حقیقۃ الغروب ۳؎۔
یعنی کبھی رات آجاتی ہے اور ابھی حقیقۃً غروب نہیں ہوا ہوتا، اس لئے حقیقی غروب ضروری ہے (ت)
 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح بحوالہئ ابن حجر باب من کتاب الصوم غسل اول مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۴/۲۵۲)
حفنی علی الجامع الصغیر میں ہے: قولہ، وغربت الشمس، لم یکتف بماقبلہ عن ذلک، اشارۃ الی انہ قدیوجد اقبال الظلمۃ وادبار الضوء ولم یوجد غروب الشمس ۴؎۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان ''اور سورج ڈوب جائے'' آپ نے سیاہی کے آنے اور روشنی کے جانے پر اکتفا نہیں کیا اور غروب کی تصریح فرمائی کیونکہ کبھی سیاہی آجاتی ہے اور روشنی چلی جاتی ہے مگر غروب آفتاب نہیں ہوتا۔ (ت)
(۴؎ الحنفی علی الجامع الصغیر مع السراج المنیر زیر حدیث اذا اقبل اللیل الخ مطبوعہ المطبعۃ الازہریۃ مصر۱/۹۷)
اور اگر حدیث میں لیل ونہار معنی حقیقی پر رکھئے تو اگرچہ اتنا ضرور ہے کہ مجاز مرسل کی جگہ مجاز عقلی ہوگا۔
لماعلمت ان اسناد الاقبال والادبار من ھھنا وھھنا لیس الیھما علی الحقیقۃ۔
کیونکہ تم جان چکے ہوکہ اِدھر سے اُدھر آنے جانے کی نسبت لیل ونہار کی طرف حقیقۃً نہیں ہے۔ (ت)

مگر اب تین۳ الفاظ کریمہ کے جمع ہونے سے سوال متوجہ ہوگا شک نہیں کہ اس معنی پر امور ثلثہ متلازم ہیں اور ایک کا ذکر باقی سے ۔مغنی،
وھذا ماقالہ الامام النووی فی المنھاج، قال العلمائ، کل واحد من ھذہ الثلثۃ یتضمن الاٰخرین ویلازمھما ۱؎۔
یہ وہی بات ہے جو امام نووی نے منہاج میں کہی ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ ان تین میں سے ہر ایک، باقی دو۲ کو یا تو متضمن ہوتا ہے یا ان کے ساتھ لازم ہوتا ہے۔ (ت)
 (۱؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم زیرِ حدیث اذاقبل اللیل الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۵۱)
اس کی اطیب توجیہ وہ ہے کہ علّامہ طیبی نے شرح مشکوٰۃ میں افادہ کی کہ :
انما قال وغربت الشمس، مع الاستغناء عنہ لبیان کمال الغروب؛ کیلا یظن انہ اذاغرب بعض الشمس جاز الافطار ۲؎۔
آپ نے فرمایا ''اور سورج ڈوب جائے'' حالانکہ بظاہر اس کی ضرورت نہیں تھی، تاکہ مکمل غروب کا بیان ہوجائے اور کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوکہ سورج کا کچھ حصّہ غروب ہونے سے افطار جائز ہوجاتا ہے۔ (ت)
 (۲؎ شرح الطیبسی     باب فی مسائل متفرقۃ الفصل اول ادارۃ القرآن کراچی۴/۱۵۱)
علّامہ مناوی وغیرہ نے بھی اُن کی تبعیت کی۔ تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے:
وزاد (وغربت الشمس) مع ان ماقبلہ کاف اشارۃ الی اشتراط تحقق کمال الغروب ۳؎۔
آپ نے فرمایا ''اور سورج ڈوب جائے'' فرمایا حالانکہ پہلے الفاظ کافی تھے، اس میں اشارہ ہے کہ کامل غروب کا پایا جانا شرط ہے۔ (ت)
(۳؎ التیسیر شرح جامع الصغیر    حدیث مذکور کے تحت        مکتبہ امام شافعی سعودیہ        ۱/۷۶)
اقول: یہ توجیہ وجیہ صراحۃً ہمارے مدعائے مذکور کی طرف ناظر ہے نظر غائر میں بروجہ جلی اور قلت تدبر میں من طرف خفی یعنی اگرچہ لیل ونہار حقیقی مراد ہونے پر ذکرِ غروب کی حاجت نہ تھی کہ رات جبھی آئے گی کہ سُورج ڈوب چکے گا مگر سوا دو ضیا پر اُن کا حمل بعید نہیں خصوصاً جبکہ اقبال من ھھنا وادبار من ھھنا اُس پر قرینہ ظاہرہ ہیں تو اگر اس قدر پر قناعت فرمائی جاتی احتمال تھا کہ مجرد اقبال سواد وادبار ضیا پر وقت افطار سمجھ لیا جاتا حالانکہ اقبال لیل درکنار ہنوزبعض قرص غروب کو باقی ہوتا ہے کہ ضیا بھی معدوم ہوجاتی ہے لہذا وغربت الشمس (اور سورج ڈوب جائے۔ ت) زائد فرمایا کہ کوئی غروب بعض قرص کو کافی نہ سمجھ لے پُر ظاہر کہ اگر یہ اقبال وادبار اُسی وقت ہوتے جب پُورا قرض ڈوب لیتا تو اس احتمال وظن کا کیا محل تھا ذکر غروب سے استغنا بدستور باقی رہتا اور جواب محض مہمل جاتا تو صاف ثابت ہوا کہ سیاہی اٹھنا اور شعاع چھپنا دونوں غروب شمس سے پہلے ہو لیتے علامہ علی قاری نے بھی اس کلام طیب طیبی کو تحقیق بتایا اور حُسنِ قبول سے تلقی فرمایا،
حیث قال بعد نقلہ، وقال بعض العلماء، انما ذکر ھذین لیبین ان غروبھا عن العیون لایکفی لانھا قدتغیب ولاتکون غربت حقیقۃ، فلابدمن اقبال اللیل ۱؎۔ اھ
چنانچہ علی قاری نے طیبی کا کلام نقل کرنے کے بعد کہا ہے ''بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ نے اقبال لیل اور ادبار نہار کا اس لئے ذکر کیا ہے تاکہ واضح کردیں کہ سورج کا آنکھوں سے غروب ہوجانا کافی نہیں ہے، کیونکہ کبھی آنکھوں سے تو غائب ہوجاتا ہے مگر حقیقۃً ڈُوبا نہیں ہوتا''۔
 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح    باب من کتاب الصوم الفصل الاول    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۴/۲۵۲)
ثم ردہ بقولہ، فیہ ان القید الثانی مستغن عنہ حینئذ، وانما کان یتم کلامھم لوکان غربت مقدما ۲؎ اھ
پھر علی قاری نے اس کو یہ کہہ کر رَد کیا ہے کہ اس پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں دُوسری قید (یعنی وغربت الشمس) کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ علماء کی یہ بات تو تب تام ہوسکتی تھی جب ''غَربت'' (اقبال وادبار سے) پہلے مذکور ہوتا۔
 ( ؎۲  مرقاۃ المفاتیح    باب من کتاب الصوم الفصل الاول    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۴/۲۵۲)
ای انما کان یحتاج اذذاک الی دفع ذلک الوھم بذکر اقبال اللیل، اما اذاذکر اولا ما ھو القاطع للوھم فای حاجۃ بعدہ الی ذکر الغروب الموھم؟ ثم قال: فیرجع الحکم الی ماحققہ الطیبی ۳؎۔ اھ
علی قاری کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ آنکھوں سے غائب ہونا کافی نہیں ہے اس لئے اس تو ہّم کو دُور کرنے کیلئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد میں اقبال لیل کا ذکر کیا ہے مگر جب توہّم کو قطع کرنے والی چیز (یعنی اقبال لیل) کا ذکر پہلے ہی ہوچکا تھا، تو پھر اس کے بعد توہّم پیدا کرنیوالی چیز(یعنی غروب) کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر علی قاری نے کہا ہے کہ آخر کار بات ادھر ہی لوٹ جاتی ہے جس کی تحقیق طیبی نے کی ہے۔
 (۳؎مرقاۃ المفاتیح    باب من کتاب الصوم الفصل الاول    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۴/۲۵۲)
فقدرجع الی مایفید تحقیق کلام الامام ابن حجر کماعلمت، غیران المولی الفاضل رحمہ اللّٰہ تعالٰی شدید الایلاع بالرد علیہ فی شرحیہ للمشکٰوۃ والشمائل، حتی فی الواضحات الجلائل، مع انہ من تلامذتہ، رحمۃاللّٰہ تعالٰی علیہما وعلی سائر العلماء الکرام۔
اس طرح علی قاری اسی فائدے کی طرف لوٹ آئے جو امام ابن حجر کے کلام کی تحقیق سے حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ تم جان چکے ہو۔ لیکن علی قاری مشکوٰۃ اور شمائل کی دونوں شرحوں میں ابنِ حجر کی ہر بات کی تردید کرنے سے خصوصی شغف رکھتے ہیں، حتی کہ انتہائی واضح باتوں میں بھی (ابن حجر کی تردید کردیتے ہیں) حالانکہ وہ ابن حجر کے شاگردوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان دونوں پر اور تمام علماء کرام پر رحمت نازل فرمائے۔ (ت)

ہاں شہروں باغوں خصوصاً نخلستان وکوہستان کی آبادیوں جنگلوں میں جہاں اُفق نظروں سے دُور ہوتا ہے غالباً یہ شرق سے اُٹھتی ہُوئی تاریکی خوب بلند ہوکر نظر آتی ہے اور یہ وقت خاص غروب کا ہوتا ہے بلکہ بہت جگہ اس سے بھی پہلے غروب ہوچکتا ہے کلمات علماء مثل قول امام ابوزکریا،
قال بعد مانقلنا سابقا، وانما جمیع بینھما لانہ قد یکون فی واد ونحوہ بحیث لایشاھد غروب الشمس فیعتمد اقبال الظلام وادبار الضیاء ۱؎۔
 (۱؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم    حدیث اقبل اللیل    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ     ۱/۳۵۱)
ابوزکریا نے، بعد اس کے جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں، کہا ہے کہ (اقبال لیل اور غروب کو) جمع اس لئے کیا ہے کہ کبھی روزہ دار کسی وادی وغیرہ میں ہوتا ہے جہاں غروب کا مشاہدہ نہیں ہوسکتا تو تاریکیوں کے آنے اور روشنی کے جانے پر اعتماد کرنا پڑتا ہے (ت)
Flag Counter