Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
23 - 157
مسئلہ (۲۷۴) شعبان ۱۳۳۱ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عصر کا وقت مستحب  و وقت مکروہ کیا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: نمازِ عصر میں ابر کے دن تو جلدی چاہیئے، نہ اتنی کہ وقت سے پیشتر ہوجائے۔ باقی ہمیشہ اس میں تاخیر مستحب ہے۔ اسی واسطے اس کا نام عصر رکھا گیا لانھا تعصر (یعنی وہ نچوڑ کے وقت پڑھی جاتی ہے) حاکم ودارقطنی نے زیاد بن عبداللہ نخعی سے روایت کی ''ہم امیرالمومنین علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے ساتھ مسجد جامع میں بیٹھے تھے مؤذن نے آکر عرض کی: یا امیرالمومنین نماز۔ امیر المومنین نے فرمایا بیٹھو۔ وہ بیٹھ گیا۔ دیر کے بعد پھر حاضر ہوا اور نماز کیلئے عرض کی۔ امیرالمومنین نے فرمایا
ھذا الکلب یعلمنا السنۃ
(یہ کتّا ہمیں سنّت سکھاتا ہے) پھر اٹھ کر ہمیں نمازِ عصر پڑھائی۔ جب ہم نماز پڑھ کر وہاں آئے جہاں مسجد میں پہلے بیٹھے تھے
فجثونا للرکب لنزول الشمس للغروب نتراھا ۱؎
 (ہم زانوؤں پر کھڑے ہوکر سورج کو دیکھنے لگے کہ وہ غروب کے لئے نیچے اتر گیا تھا)''۔
 (۱؎ سنن الدارقطنی     باب ذکر بیان المواقیت الخ    مطبوعہ نشر السنۃ ملتان    ۱/۲۵۱)
یعنی دیواریں اُس زمانے میں نیچی نیچی ہوتیں آفتاب ڈھلک گیا تھا بیٹھے سے نظر نہ آیا دیوار کے نیچے اُتر چکا تھا گھٹنوں پر کھڑے ہونے سے نظر آیا، مگر ہرگز ہرگز اتنی تاخیر جائز نہیں کہ آفتاب کا قرص متغیر ہوجائے اُس پر بے تکلف نگاہ ٹھہرنے لگے یعنی جبکہ غبارِ کثیر یا ابرِ رقیق وغیرہ حائل نہ ہو کہ ایسے حائل کے سبب تو ٹھیک دوپہر کے آفتاب پر نگاہ بے تکلف جمتی ہے اس کا اعتبار نہیں بلکہ صاف شفاف مطلع میں اس قدرتی دائمی حیلوات کرہئ بخار کے سبب کہ اُفق کے قُرب میں نگاہ کو اُس کا کثیر حصّہ طے کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے طلوع وغروب کے قرب آفتاب پر نگاہ بے تکلف جمتی ہے جب اُس سے اونچا ہوتا اور کرہئ بخار کا قلیل حصّہ حائل رہ جاتا ہے شعاعیں زیادہ ظاہر ہوتیں اور نگاہ جمنے سے مانع آتی ہیں اور یہ حالت مشرق ومغرب دونوں میں یکساں ہے جس کا حال اس شکل سے عیاں ہے ۱ب کرہئ زمین ہے ا موضع ناظر ہے یعنی سطح زمین کی وہ جگہ جہاں دیکھنے والا شخص کھڑا ہے ح ء زمین کے سب طرف کرہئ بخار ہے جسے عالمِ نسیم وعالمِ لیل ونہار بھی کہتے ہیں اور یہ ہر طرف سطحِ زمین سے ۴۵ میل یا قول اوائل پر ۵۲ میل اونچا ہے اس کی ہوا اوپر کی ہوا سے کثیف تر ہے تو آفتاب اور نگاہ میں اس کا جتنا زائد حصّہ حاصل ہوگا اتنا ہی نور کم نظر آئے گا اور نگاہ زیادہ ٹھہرے گی ہ مرکز شمس ہے ا ہ ہر طرف وہ خطّہ ہے جو نگاہ ناظر سے شمس پر گزرتا ہے پہلے نمبر پر آفتاب افقِ شرقی سے طلوع میں ہے اور دوسرے تیسرے نمبر پر چڑھتا ہوا ساتویں نمبر پر افق غربی پر غروب کے پاس پہنچا ظاہر ہے کہ جب آفتاب پہلے نمبر پر ہے تو خطہ ا ہ کا حصّہ ا ر کرہئ بخار میں گزرا اور دوسرے پر ا ح تیسرے پر ا ط چوتھے پر ا ح، اور اقلیدس سے ثابت ہے کہ ان میں ا ر سب سے بڑا ہے اور آفتاب جتنا اُونچا ہوتا جاتا ہے ا ح ا ط وغیرہ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں کہ یہاں تک کہ نصف النہار پر خط ا ح سب سے چھوٹا رہ جاتا ہے ہم نے اپنے محاسبات ہندسیہ میں ثابت کیا ہے کہ خط ا ح یعنی دوپہر کے وقت کا خط پانسو اٹھانوے۵۹۸ میل سے بھی زائد ہے پھر جب آفتاب ڈھلکتا ہے وہ خطوط اسی نسبت پر بڑے ہوتے جاتے ہیں ا ی برابر ا ط کے پڑتا ہے اور ا ک برابر ا ح کے اور ا ل برابر ا ر کے ہے یہاں سے واضح ہوگیا کہ یہ قدرتی دائمی سبب ہے جس کے باعث آفتاب جب نصف النہار پر ہوتا ہے اپنی انتہائی تیزی پر ہوتا ہے اور اُس سے پہلے اور بعد دونوں پہلوؤں پر جتنا افق سے قریب تر ہوتا ہے اُس کی شعاع دھیمی ہوتی ہے یہاں تک کہ شرق وغرب میں ایک حد کے قرب پر اصلاً نگاہ کو خیرہ نہیں کرتی مشرق میں جب تک اس حد سے آفتاب نکل کر اونچا نہ ہوجائے اُس وقت تک نماز منع اور وقت کراہت کا ہے اور مغرب میں جب آفتاب اس حد کے اندر آجائے اُس وقت سے غروب تک نماز منع اور وقت کراہت کا ہے، تو اس بیان سے سبب بھی ظاہر ہوگیا اوریہ بھی کھُل گیا کہ مشرق ومغرب دونوں جانب میں یہ وقت برابر ہے نہ یہ کہ مشرق کی طرف، تو یہ وقت پندرہ بیس منٹ رہے جو تقریباً ایک نیزہ بلندی کی مقدار ہے اور مغرب میں ڈیڑھ دو گھنٹے ہوجائے جو اُس سے کئی نیزے زائد ہے تجربہ سے یہ وقت تقریباً بیس منٹ ثابت ہُوا ہے تو جب سے آفتاب کی کرن چمکے اُس وقت سے بیس منٹ گزرنے تک نماز ناجائز اور وقت کراہت ہوا اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقتِ کراہت آجائے گا، اور آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی۔ ہاں یہ جو بعض کا خیال ہے کہ آفتاب متغیر ہونے سے مراد دھوپ کا مَیلا ہونا ہے یہ ہرگز صحیح نہیں، جاڑے کے موسم میں تو آفتاب ڈھلکنے کے تھوڑی ہی دیر بعد کہ ابھی سایہ ایک مثل بھی نہیں پہنچتا اور بالاجماع وقتِ ظہر باقی ہوتا ہے یقینا آفتاب بہت متغیر ہوجاتا ہے اور بین طور پر دُھوپ میں زردی پیدا ہوجاتی ہے تو چاہئے کہ عصر کا وقت آنے سے پہلے ہی وقتِ کراہت آجائے اور نماز بے کراہت مل ہی نہ سکے اور یہ صریح باطل ومحال ہے،
5_1.jpg
 ابو السعود علی الکنز اور طحطاوی علی الدر میں ہے:

المراد ان یذھب الضوء فلایحصل للبصر بہ حیرۃ ولاعبرۃ لتغیر الضوء لان تغیر الضوء یحصل بعد الزوال ۱؎۔
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ دارالمعرفت بیروت    ۱/۱۷۸)
یعنی تغیر آفتاب سے مراد یہ ہے کہ اُس کی روشنی جاتی رہے تو نگاہ کو اس سے خیرگی حاصل نہ ہو اور دھوپ کا تغیر کچھ معتبر نہیں کہ یہ تو زوال کے بعد ہوجاتا ہے (ت)

بالجملہ سخن تحقیق وہ ہے جو ائمہ نے کتاب الاسرار وبحرالرائق وغیرہما میں تصریح فرمائی کہ جس نماز میں تاخیر مستحب ہے جیسے فجر وعصر وغیرہما، وہاں تاخیر کے یہ معنی ہیں کہ وقت کے دو۲ حصّے کریں نصف اول چھوڑ کر نصف آخر میں پڑھیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں وقت سے مراد وقتِ مستحب ہے کہ وقتِ مستحب کے نصف آخر میں پڑھیں، جب یہ قاعدہ معلوم ہوگیا اب تعیین وقت کے لئے مثل ثانی کے وقت کا تخمینہ لکھیں جس سے ظہر وعصر کا اندازہ ہوسکے وہ یہ کہ ۲۱ مارچ تحویلِ حمل اور ۲۳۔۲۴ ستمبر تحویل میزان میں ختم مثل ثانی یعنی شروع وقت عصر حنفی سے آفتاب کے غروب شرعی تک ان بلاد میں ایک گھنٹا ۴۱ منٹ باقی ہوتے ہیں اور ۲۰۔۲۱۔ اپریل تحویل ثور اور ۲۳۔۲۴۔ اگست تحویل سنبلہ کو ایک گھنٹا ۵۰ منٹ ہوتے ہیں اور ۲۱۔۲۲ مئی تحویل جوزا اور ۲۳ جولائی تحویل اسد کو دو۲ گھنٹہ ایک منٹ اور ۲۳ جون تحویل سرطان کو دو۲ گھنٹے ۶ منٹ، اور یہ سال میں سب سے بڑا وقت عصر ہے کہ اس سے زیادہ ان بلاد میں کبھی نہیں ہوتا اور ۲۴۔ اکتوبر تحویل عقرب اور ۱۹ فروری تحویل حوت کو ایک گھنٹا۳۶ منٹ اور ۲۲۔۲۳ نومبر تحویل قوس سے ۲۲ دسمبر تحویل جدی اور پھر ۲۰۔۲۱ جنوری تحویل دلو تک دو۲ مہینے برابر بلکہ اس سے بھی کچھ زائد ایک گھنٹا۳۵ منٹ باقی ہوتا ہے اور یہ سال میں سب سے چھوٹا وقتِ عصر ہے کہ اس سے کم ان بلاد میں کبھی نہیں ہوتا، اسی حساب سے جس دن جتنا وقت عصر ہو اس کے آخر سے ۲۰ منٹ وقت مکروہ کے نکال کر باقی کے دو۲ حصّے کریں حصّہ اول چھوڑ کر حصّہئ دوم سے وقت مستحب ہے اور حصّہ اول میں بھی اصلاً کراہت نہیں، ہاں اتنی تعجیل کہ دو۲ مثل پُورے ہونے میں شک ہو ضرور سخت خلاف احتیاط ہے اُس سے بچنا چاہئے کہ اگر وہم وخدشہ ہے تو کراہت ہے اور اگر واقعی شک ہے تو امام کے طور پر ہوگی ہی نہیں یونہی اتنی تاخیر نہ چاہئے کہ وقت کراہت آنے کا اندیشہ ہوجائے اور اس سے پہلے پہلے اصلاً کسی قسم کی کراہت کا نام ونشان نہیں، نہ وہ اللہ ورسول کے نزدیک کاہل ہے یہ محض غلط وباطل ہے جب شرع مطہر اُس وقت کو مستحب فرمارہی ہے تو کیا وقت مستحب میں ادا کرنا مکروہ اور فاعل کاہلی کے ساتھ منسوب ہوسکتا ہے یہ نری نادانی ہے پھر اگر اس نے احتیاط کی اور نماز میں تطویل کی کہ وقتِ کراہت وسط نماز میں آگیا جب بھی اس پر اعتراض نہیں، نہ کہ وقت کراہت آنے سے پہلے ختم کردے اور اعتراض ہو، 

رمختار میں ہے:
لوشرع فیہ قبل التغیر فمدہ الیہ لایکرہ ۱؎ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
سورج میں تغیر آنے سے پہلے نماز شروع کی پھر تغیر تک لمبی کردی تو مکروہ نہیں ہوگی واللہ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۱)
مسئلہ ۲۷۵ و ۲۷۶    شوال ۱۳۲۰ھ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِن مسائل میں:

(۱)    فرض وسنّت ہر دو کا اولیٰ وقت کیا ہے؟

(۲)    امسال وقت صلاۃ عیدالفطر انتہا درجہ کب تک تھا جس نے بعد ساڑھے گیارہ بجے نماز پڑھی اس کی نماز ہوئی یا نہیں؟
الجواب: (۱) سنّت قبلیہ میں اولیٰ اول وقت ہے بشرطیکہ فرض وسنّت کے درمیان کلام یا کوئی فعل منافی نماز نہ کرے اور سنّت بعدیہ میں مستحب فرضوں سے اتصال ہے مگر یہ کہ مکان پر آکر پڑھے تو فصل میں حرج نہیں لیکن اجنبی افعال سے فصل نہ چاہئے یہ فصل سنت قبیلہ وبعدیہ دونوں کے ثواب کو ساقط اور انہیں طریقہ مسنونہ سے خارج کرتا ہے اور فرضِ فجر وعصر وعشاء میں مطلقاً اور ظہر میں بموسم گرما۔ تاخیر مستحب ہے اور مغرب میں تعجیل۔ تاخیر کے یہ معنی کہ وقت غیر مکروہ کے دو۲ حصے کرکے پہلا نصف چھوڑ دیں دوسرے نصف میں نماز پڑھیں کمانص علیہ فی البحرائق وغیرہ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۲) مذہب اصح پر اس کی نماز نہ ہوئی وقت اس کے قریب قریب ختم ہوچکا تھا مگر ایسی جگہ علما آسانی پر نظر فرماتے ہیں ہمارے علما کا دوسرا قول یہ ہے کہ وقت عید زوال تک ہے اس تقدیر پر جس نے بارہ بج کر چھ منٹ تک بھی سلام پھیر دیا اس کی نماز ہوگئی کہ اس دن بارہ بج کر ساڑھے چھ منٹ پر زوال ہوا تھا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۷۷)از سندیلہ مرسلہئ بعض علما بتوسط مولٰنا مولوی محمد وصی احمد صاحب محدث سورتی۔    دوم ربیع الاول شریف ۱۳۱۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز مغرب کا وقت افق شرقی کی جڑ سے سیاہی نمودار ہوتے ہی معاً ہوجاتا ہے یا جب سیاہی بلند ہوجاتی ہے اُس وقت آفتاب ڈوبتا ہے برتقدیر ثانی وہ بلندی کتنے گز ہوتی ہے اور آبادیوں میں سیاہی شرق سے نظر آنے پر نماز کا وقت سمجھا جائے گا یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب: اقول:  وباللّٰہ التوفیق (اللہ تعالٰی کی مدد سے کہتا ہوں۔ ت) افق شرقی سے سیاہی کا طلوع قرص شمس کے شرعی غروب سے بہت پہلے ہوتا ہے سیاہی کئی گز بلند ہوجاتی ہے اُس وقت آفتاب ڈوبتا ہے جس طرح قرض شمسی کے شرعی طلوع سے سیاہی غربی کا غروب بہت بعد ہوتا ہے آفتاب مرتفع ہوجاتا ہے اُس وقت تک سواد مرئی رہتا ہے اس پر عیان وبیان وبرہان سب شاہد عدل ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس الخبر کالمعاینۃ ۱؎
 (خبر مشاہدہ کی طرح نہیں۔ ت)
 (۱؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۷۵۷۴    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۵/۳۵۷)
جسے شک ہو طلوع وغروب کے وقت جنگل میں جاکر جہاں سے دونوں جانب افق صاف نظر آئیں مشاہدہ کرے جو کچھ مذکور ہُوا آنکھوں سے مشاہدہ ہوجائے گا الحمداللہ عجائبِ قرآن منتہی نہیں۔
کما فی حدیث الترمذی عن امیرالمؤمنین علی عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاتنقضی عجائبہ ۲؎۔
جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں امیرالمومنین علی، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ (ت)
 (۲؎ جامع الترمذی    ماجاء فی فضل القرآن    مطبوعہ امین کمپنی دہلی    ۲/۱۱۴)
ایک ذرا غور سے نظر کیجئے تو آیہ کریمہ
تولج الّیل فی النھار وتولج النھار فی الّیل ۳؎
(تُو، رات کو دِن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ت)
 ( ۳؎ القرآن الحکیم        ۳/۲۷)
کے مطالعہ رفیعہ سے اس مطلب کی شعاعیں صاف چمک رہی ہیں رات یعنی سایہ زمین کی سیاہی کو حکیمِ قدیر عزجلالہ، دن میں داخل فرماتا ہے ہنوز دن باقی ہے کہ سیاہی اٹھائی اور دن کو سواد مذکور میں لاتا ہے ابھی ظلمتِ شبینہ موجود ہے کہ عروس خاور نے نقاب اٹھائی،
فان ایلاج شیئ فی شیئ یقتضی وجودھما، لاان یعدم احدھما فیعقبہ الاٰخر، واللیل والنھار بمعنی الملوین متضادان لایجتمعان، فلابد من التجوز۔ ومن اقرب وجوھہ ماذکر العبد، من حمل اللیل علی السواد، فیبقی النھار علٰی حقیقتہ ویظھر الایلاج من دون کلفۃ، ولایتجاوز التجوز قدر الحاجۃ۔ ویمکن العکس ایضا، بان یحمل النھار علی الاشعۃ الشمسیۃ واللیل علی حقیقتہ، فیکون اشارۃ الٰی ظھور نور الشمس فی الافق الشرقی واللیل باق بعد، کمافی الصبح الاول۔ وان ارید اللیل العرفی فاظھرو اکمل۔ والی حصول اللیل مع بقاء الضوء الشمسی فی الافق الغربی من الشفقین الاحمر والابیض وان کان الامام الفخر الرازی رحمہ اللّٰہ تعالٰی لایرضی ان یجعل تلک الانوار من الشمس حتی الصبح الصادق ایضا، کمااطال الکلام فیہ فی سورۃ الانعام، تحت قولہ عزوجل فالق الاصباح ۱؎
 (۱؎ التفسیر الکبیر زیر آیت فالق الاصباح    مطبوعہ مطبعۃ بہیۃ مصریۃ    ۱۳/۹۵)
کیونکہ ایک چیز دوسری میں تبھی داخل کی جاسکتی ہے جب دونوں موجود ہوں، نہ کہ ایک ختم ہوجائے اور اس کے بعد دوسری آئے۔ اور دلیل ونہار بمعنی رات دن، آپس میں متضاد ہیں، اکٹھے نہیں ہوسکتے، تو مجازی معنی مراد لینا ضروری ہے۔ اور اس کا اقرب طریقہ وہی ہے جو بندے نے بیان کیا ہے کہ لیل سے مراد تاریکی لی جائے اور نہار اپنے حقیقی معنی میں ہو۔ اس طرح داخل کرنے کا مفہوم بغیر کسی تکلف کے ظاہر ہوجائے گا اور مجاز کی طرف ضرورت سے زیادہ نہیں جانا پڑے گا۔ اور اس کا عکس بھی ممکن ہے، یعنی نہار سے مراد سورج کی شعاعیں لی جائیں اور لیل اپنی حقیقی معنی میں ہو۔ اس صورت میں آیت کے اندر اشارہ ہوگا کہ مشرقی افق میں سورج کی روشنی نمودار ہوجاتی ہے اور رات ابھی باقی ہوتی ہے جیسا کہ صبح کاذب کے وقت ہوتا ہے۔ اور اگر لیل سے مراد لیل عرفی لی جائے تو یہ مفہوم مزید واضح اور کامل ہوجاتا ہے۔ نیز اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہوگا کہ مغربی افق میں شفق احمر اور ابیض کے دوران سورج کی روشنی باقی ہوتی ہے، اس کے باوجود رات ہوجاتی ہے اگرچہ امام فخرالرازی ان روشنیوں کو، حتی کہ صبح صادق کی روشنی کو بھی سو رج کی روشنی ماننے پر بھی راضی نہیں ہیں، جیسا کہ سورہئ انعام کی تفسیر میں اللہ تعالٰی کے فرمان ''فالق الاصباح'' کے تحت انہوں نے اس موضوع پر لمبی گفتگو کی ہے،
ولیس الامر کماظن، واغتر بقولہ العلامۃ الزرقانی فظن ان ھذا مذھب منقول، فنسبہ لاھل السنۃ، مع انہ لیس الامن توسعات الامام فی البحث والکلام ولم یستدل لہ الاببحث عقلی، لاتام ولاجلی۔ ومن البدیھی عندکل احدان الشفق والصبح اختان، وماامرھما الاواحدا۔ وقداخرج ابی شیبۃ عن العوام بن حوشب قال: قلت لمجاھد، ماالشفق؟ قال: ان الشفق من الشمس ۱؎۔
 (۱؎ الدر المنثور زیر آیۃ فلااقسم بالشفق مطبوعہ مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی قم، ایران ۵/۳۳۰)
ذکرہ فی الدر المنثور، تحت قولہ تعالٰی فلااقسم بالشفق، بل فی التفسیر الکبیر تحت الکریمۃ، اتفق العلماء علی انہ اسم للاثر الباقی من الشمس فی الافق بعد غروبھا ۲؎۔
(۲؎ التفسیر الکبیر ، زیر  آیۃ  فلااقسم  بالشفق   مطبوعہ مطبعۃ  ہیۃ مصریہ  مصر ، ۳۱/۱۰۹)
اما دلیلہ العقلی فقدردہ العبد الضعیف بکلام لطیف ذکرتہ علی ھامشہ وباللّٰہ التوفیق۔
حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح انہوں نے سمجھا ہے۔ ان کی گفتگو سے علامہ زرقانی کو دھوکہ ہُوا اور انہوں نے رازی کی رائے کو مذہبِ منقول سمجھ کر اہل سنّت کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ ان توسعّات میں سے ہے جو امام رازی بحث اور کلام میں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ امام رازی نے اس پر کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی صرف ایک عقلی بحث کی ہے، جو نہ تام ہے نہ واضح۔ اور یہ تو سب کے لئے بدیہی ہے کہ شفق اور صبح دونوں بہنیں ہیں اور ان کا معاملہ ایک جیسا ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے عوام ابن حوشب سے تخریج کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد سے پوچھا: ''شفق کیا ہے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''شفق سورج سے ہے''۔ یہ روایت دُرمنثور میں اللہ تعالٰی کے فرمان ''فلااقسم بالشفق'' کے تحت مذکور ہے۔ بلکہ تفسیر کبیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ علما کا اتفاق ہے کہ شفق سورج کے اس اثر کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد افق پر باقی رہتا ہے۔ رہی امام رازی کی عقلی دلیل، تو اس کو عبدِ ضعیف نے ایک لطیف کلام کے ساتھ رد کردیا ہے، جو تفسیر کبیر کے حاشیے پر مرقوم ہے، وباللہ التوفیق۔ (ت)
قرآن عظیم کا نائب کریم کلام صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وجامع ترمذی ومسند امام احمد میں امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذااقبل اللیل من ھھنا وادبر النھار من ھھنا وغربت الشمس فقد افطر الصائم ۱؎۔
جب ادھر سے رات آئے اور اُدھر سے دن پیٹھ دکھائے اور سورج پُورا ڈوب جائے تو روزہ دار کا روزہ پُورا ہوچکا۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء اذااقبل اللیل مطبوعہ امین کمپنی دہلی۱/۸۸)
لیل سے مراد سیاہی ہے اور نھار سے مقصود ضوء فان الاقبال من ھھنا والادبار من ھھنا انما یکون لھما
(کیونکہ تاریکی اور روشنی ہی ادھر سے آتی ہیں اور اُدھر جاتی ہیں۔ ت)
تیسیر میں ہے:   اذااقبل اللیل، یعنی ظلمتہ، وادبر النھار، ای ضوؤہ ۲؎۔
جب کہ رات آئے، یعنی اس کی تاریکی، اور دن واپس جائے، یعنی اس کی روشنی۔ ت
 (۲؎ التیسر شرح الجامع الصغیر حدیث مذکور کے تحت مکتبہ امام شافعی ریاض سعودیہ۱/۷۶)
Flag Counter