Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
22 - 157
نقایہ(۱۸) میں روایت خلاف کی تضعیف فرمائی شرح(۱۹) المجمع للمصنف میں ہے
انہ المذھب واختارہ اصحاب المتون وارتضاہ الشارحون ۴؎
 (مذہب یہی ہے اور اسی کو اصحابِ متون نے اختیار فرمایا اور اسی کو شارحین نے مرضی وپسندیدہ رکھا)
 ( ۴؎ البحرالرائق بحوالہ شرح المجمع کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۱/۲۴۵)
ینابیع(۲۰) وعلمگیری(۲۱) میں ہے ھو الصحیح ۵؎ (یہی صحیح ہے)
 (۵؎ الفتاوٰی الہندیۃ الباب الاول فی المواقیت مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۵۱)
جامع(۲۲) الرموز میں اسی کو مفتٰی بہ بتایا، السراج(۲۳) المنیر میں ہے علی قولہ الفتوی ۶؎ (امام ہی کے قول پر فتوٰی ہے)
 (۶؎ السراج المنیر)
بحر(۲۴)الرائق پھر ردالمحتار(۲۵) میں ہے قول امام سے عدول کی اجازت نہیں اس مذہب مہذب پر دلیل جلیل صحیح بخاری شریف کی حدیث باب الاذان للمسافر ۷؎ میں ہے کہ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب اقدس تھے مؤذن نے اذانِ ظہر دینی چاہی، فرمایا: ابرد (وقت ٹھنڈا کر) دیر کے بعد پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی، فرمایا: ابرد (وقت ٹھنڈا کر)، دیر کے بعد مؤذن نے سہ بارہ اذان کا ارادہ کیا، فرمایا: ابرد (وقت ٹھنڈا کر) اور یونہی تاخیر کا حکم فرماتے رہے حتی ساوی الظل التلول (یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا) اُس وقت اذان کی اجازت فرمائی اور ارشاد فرمایا: ''گرمی کی شدّت جہنم کی سانس سے ہے تو جب گرمی سخت ہو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھو''۔
 (۷؎ صحیح البخاری        باب الاذن للمسافر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۸۷)
مشاہدہ شاہد اور قواعد علم ہیأت گواہ اور خودائمہ شافعیہ کی تصریحات ہیں کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ ہوتا ہی نہیں معدوم محض ہوتا ہے خصوصاً اقلیم ثانی میں جس میں حرمین طیبین اور اُن کے بلاد ہیں۔ امام نووی، شافعی وامام قسطلانی شافعی نے فرمایا: ٹیلے زمین پر نصب کی ہوئی اشیاء کی مانند نہیں بلکہ زمین پر پھیلے ہوتے ہیں تو زوال کے بہت زمانے کے بعد اُن کا سایہ شروع ہوتا ہے جب ظہر کا اکثر وقت گزر جاتا ہے ظاہر ہے کہ جب آغاز اُس وقت ہوگا تو ٹیلوں کے برابر ہرگز نہ پہنچے گا مگر مثل ثانی کے بھی اخیر حصہ میں اُس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اذان نہ دینے دی تو نماز تو یقینا اور بھی بعد ہوئی تو بلاشبہہ مثل ثانی بھی وقت ظہر ہوا اور اس حدیث کو ارادہ جمع بین الصلاتین پر حمل کرنا خود اسی حدیث کے الفاظ سے باطل ہے حضور یہاں ابراد کا اظہار فرمارہے ہیں کہ نماز اپنے وقت کے ٹھنڈے حصّے میں پڑھی جائے نہ یہ کہ وقت نکال دینے کے بعد دوسری نماز کے وقت میں اداکی جائے، حضور یہاں حکم عام ارشاد فرمارہے ہیں کہ جب گرمی سخت ہو یوں ہی وقت ٹھنڈا کرو یہ نہیں فرماتے کہ جب مسافر ہوتو ظہر کو عصر سے ملاکر پڑھو اور یہیں سے ظاہر ہوگیا کہ حدیث امامت جبریل جس کے بھروسے پر برہان ودرمختار نے مثل اول اختیار کیا اصل حجت نہیں ہوسکتی کہ وہ دنیا میں سب سے پہلی حدیث اوقات ہے نماز شب اسرا میں فرض ہوئی اور اسی کے دن میں وقتِ ظہر کو آکر جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام نے بیان اوقات کے لئے امامت کی تو جو حدیث اُس کے خلاف ہے اُس کے بعد اور اُس کی ناسخ ہے اور قول دو مثل سے امام کا رجوع فرمانا ہرگز صحیح نہیں بلکہ اُس کا خلاف ثابت ہے کہ تمام متونِ مذہب وہی نقل فرمارہے ہیں اور متون ہی نقل مذہب کیلئے موضوع ہیں، امام محمد نے کتاب الاصل یعنی مبسوط میں کہ کتب ظاہر الروایۃ سے ہے وہی قول امام لکھا ۔ نہایہ میں ہے امام سے وہی ظاہر الروایہ ہے، غایۃ البیان میں ہے یہی امام کا مذہب مشہور وماخوذ ہے۔ محیط میں ہے قول امام سے یہی صحیح ہے۔ ینابیع میں ہے امام سے یہی روایت صحیح ہے۔ شرح مجمع میں ہے مذہب امام یہی ہے کل ذلک فی البحر ۱؎ (یہ سب بحر میں ہے۔ ت)
 (۱؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۱/۲۴۵)
تو بعض نقول خاملہ مرجوحہ کی بنا پر زعم رجوع محض ناموجہ ہے بلکہ قول ایک مثل ہی ہے رجوع ثابت ہے کہ وہ خلاف ظاہر الروایۃ ہے اور جو کچھ خلاف ظاہر الروایۃ ہے مرجوع عنہ ہے کمافی البحر والخیریۃوغیرھما (جیسا کہ بحر اور خیریہ وغیرہ میں ہے۔ت) تو یہ مذہب مہذب بوجوہ کثیرہ مذہب صاحبین پر مرجح ہوا۔
اولاً یہی مذہب امام ہے اور مذہب امام اعظم پر عمل واجب جب تک کوئی ضرورت اس کے خلاف پر باعث نہ ہو۔

ثانیاً اسی پر متون مذہب ہیں اور متون کے حضور اور کتابیں مقبول نہیں ہوتیں۔

ثالثا اسی پر مرسلہ شروح ہیں اور شروح فتاوٰی پر مقدم۔

رابعاً اجلہ اکابرائمہ تصحیح وفتوی مثل امام قاضی خان وایام برہان الدین صاحبِ ہدایہ وامام ملک العلماء مسعود کاشانی صاحبِ بدائع وغیرہم رحمہم اللہ تعالٰی نے اسی کی ترجیح وتصحیح فرمائی اور جلالت شان مصححین باعث ترجیح ہے۔

خامساً جمہور مشایخِ مذہب نے اس کی تصحیح وترجیح کی اور عمل اسی پر چاہئے جس طرف اکثر مشایخ ہوں۔

سادساً اسی میں احتیاط ہے کہ مثل ثانی میں عصر پڑھی تو ایک مذہب جلیل پر فرض ذمہ سے ساقط نہ ہوا پڑھی بے پڑھی برابر رہی اور بعد مثل ثانی پڑھی تو بالاتفاق صحیح وکامل ادا ہُوئی۔

سابعاً رہیں حدیثیں بعض صاحبوں نے گمان یہ کیا کہ احادیث مذہب صاحبین میں نص ہیں بخلاف مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہم، حالانکہ حق یہ ہے کہ صحاح احادیث دونوں جانب موجود ہرگز کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ مذہب صاحبین پر کوئی حدیث صحیح صریح سالم عن المعارض ناطق ہے جسے دعوٰی ہو پیش کرے اور بامداد روح پُرفتوح حضرت سیدنا الامام رضی اللہ تعالٰی عنہ اس فقیر سے جواب لے اِن شاء اللہ تعالٰی یا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ حدیث جس سے مخالف نے استناد کیا صحیح نہ تھی یا صحیح تھی تو مذہب صاحبین میں صریح نہ تھی یا یہ بھی سہی تو اس کا معارض صحیح موجود ہے اور فقیر اِن شاء اللہ تعالٰی ثابت کردے گا کہ اس تعارض میں احادیث مذہب صاحبین کو منسوخ ماننا ہی مقتضائے اصول ہے اور اگر نہ مانیں تاہم تعارض قائم ہوکر تساقط ہوگا اور پھر وہی مذہب امام رنگ ثبوت پائے گا کہ جب بوجہ تعارض مثل ثانی میں شک واقع ہُوا کہ یہ وقت ظہر ہے یا وقت عصر اور اس سے پہلے وقت ظہر بالیقین ثابت تھا تو شک کے سبب خارج نہ ہوگا اور وقتِ عصر بالیقین نہ تھا تو شک کے سبب داخل نہ ہوگا والحمداللہ رب العٰلمین۔ بالجملہ عندالتحقیق مثل ثانی میں عصر ادا ہی نہ ہوگی بلکہ فرض ذمہ پر باقی رہے گا ورنہ علی التنزل اُس وقت نماز مکروہ ہونے میں تو شک نہیں کہ جب بعض کتبِ فقہ میں اس وقت نماز ظہر میں کراہت گمان کی صرف اس خیال سے کہ صاحبین کے نزدیک وقت قضا ہوگیا حالانکہ فرض ظہر بالاجماع ساقط ہوجائیگا اگرچہ قضاہی سہی تو اس وقت نمازِ عصر لاجرم سخت کراہت رکھے گی کہ امام کے نزدیک ہنوز وقت ہی نہ آیا تو فرض ہی سرے سے ساقط نہ ہوگا اُدھر خلاف صاحبین تھا یہاں خلاف امام وہاں قضاء ادا میں خلاف تھا اور صحت اجماعی ادھرنفسِ صحت وبطلان ہی میں نزاع ہے جب وہاں کراہت زعم کی گئی تو یہ کس درجہ شدید مکروہ ہونا چاہئے اور یہ تو بے شمار کتبِ ائمہ میں تصریح ہے کہ اس وقت عصر کا پڑھنا بے احتیاطی ہے پس محتاط فی الدین کو لازم کہ اگر جانے کہ مجھے مثل ثانی کے بعد جماعت مل سکتی ہے اگرچہ ایک ہی آدمی کے ساتھ تو اس جماعت باطلہ یا کم ازکم مکروہہ بکراہت شدیدہ میں شریک نہ ہو بلکہ وقت اجماعی پر اپنی جماعت صحیحہ نظیفہ اداکرے اور اگر جانے کہ پھر میرے ساتھ کو کوئی نہ ملے گا تو بتقلید صاحبین شریک جماعت ہوجائے اور تحصیل صحت متفق علیہا ورفع کراہت کیلئے مثل ثانی کے بعد پھر اپنی تنہا ادا کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
Flag Counter