والمراد بالطلوع، المبتنی علیہ احکام الشرع، تجاوز اول حاجب الشمس فی جھۃ الشرق عن دائرۃ الافق الحسی بالمعنی الاعم، المسمّٰی فی کلام البعض بالافق الترسی، بحرکۃ الکل، وبالغروب تجاوز کل قرصھا فی جھۃ الغرب عن الدائرۃ المذکورۃ بالحرکۃ المزبورۃ، فوضح امتیاز النھار العرفی عن النھار النجومی، فانہ من انطباق مرکز الشمس علی دائرۃ الافق الحقیقی من قبل المشرق، الی انطباقہ علیھا فی جھۃ المغرب، فان اتحد الافقان یکون العرفی اکبر من النجومی، بقدر مایطلع نصف کرۃ الشمس ویغرب النصف، وان انحط الترسی من التحقیق، وھو الاکثر،لاسیما من جھۃ دقائق الانکسار الافقی، فزیادۃ العرفی ازید۔ نعم، ان وقع فوقہ بقدر نصف قطر الشمس مع دقائق الانکسار یستوی النھاران، اوازید من ذلک فیفضل النجومی، کمالایخفی وھذہ فائدۃ سنحت للقلم حین التحریر فاحببنا ایرادھا۔
جس طلوع پر شرعی احکام مبنی ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ شرقی جانب جو دائرہ افقِ حسی ہے اُفقِ حسِی کا عام معنی مراد ہے جس کو بعض نے اُفقِ ترسی کا نام دیا ہے۔ اس دائرے سے، پُورے سورج کی حرکت کے ساتھ، سورج کا پہلا کنارہ گزرجائے۔ اور غروب سے مراد یہ ہے کہ سورج کی پوری ٹکیہ، اسی دائرے سے، اسی حرکت کے ساتھ، غربی جانب سے گزر جائے۔ اس سے نہار عرفی اور نہار نجومی کا امتیاز بھی واضح ہوگیا، کیونکہ نہار نجومی شروع اس وقت ہوتی ہے جب شرقی جانب سورج کا مرکز، افق حقیقی کے دائرے پر منطبق ہوجائے، اور ختم اس وقت ہوتی ہے جب غربی جانب سورج کا مرکز افقِ حقیقی کے دائرے پر منطبق ہوجائے۔ اب اگر دونوں افق (حقیقی اور ترسی) متحد ہوں تو نہار عرفی، نہار نجومی سے اتنی بڑی ہوگی جتنی دیر میں سورج کا آدھا کُرہ طلوع ہوتا ہے اور آدھا غروب ہوتا ہے۔ اور اگر ترسی، حقیقی سے نیچے ہو، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے خصوصاً جب افقی انکسار کے دقیقوں کو ملحوظ رکھا جائے تو نہار عرفی اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ ہاں، اگر ترسی، حقیقی سے، سورج کے نصف قطر جتنا اوپر ہو اور انکسار کے دقیقے بھی ملحوظ ہوں تو نہار عرفی اور نہار نجومی برابر ہوجائیں گی۔ اور اگر سورج کے نصف قطر کی مقدار سے زیادہ اُوپر ہوتو نہار نجومی بڑھ جائے گی، جیسا کہ مخفی نہیں ہے یہ فائدہ لکھتے وقت قلم کیلئے ظاہر ہواتو ہم نے اس کو ذکر کرنا مناسب سمجھا۔ (ت)
اور نہار شرعی طلوع فجر صادق سے غروب کل آفتاب تک ہے تو اس کا نصف ہمیشہ اُس کے نصف سے پہلے ہوگا، مثلاً فرض کیجئے آج تحویل حمل کا دن ہے آفتاب بریلی اور اُس کے قریب مواضع میں جیب گھڑی کے ۶ بج کر ۷ منٹ پر چمکا اور ۶ بج کر ۱۴ منٹ پر ڈوبا ۴ بج کر ۴۸ منٹ پر صبح ہوئی تو اس دن نہار شرعی ۱۳ گھنٹے ۲۶ منٹ کا ہے جس کا آدھا ۶ گھنٹے ۴۳ منٹ ہوا اسے ۴ گھنٹے ۴۸ منٹ پر بڑھایا تو ۱۱ گھنٹے ۳۱ منٹ کا وقت آیا اور نصف النہار شرعی وقت استوائے حقیقی سے ۴۰ منٹ پیشتر ہو
الا تسع وعشرین کمایتوھم فافھم واعرف ان کنت تفھم
(نہ کہ انیس منٹ، جیسا کہ وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس کو سمجھو اور جانو، اگر سمجھ رکھتے ہو۔ ت) اسی کو ضحوہ کبرٰی کہتے ہیں اسی وقت کے آنے تک کچھ کھایا پیا نہ ہوتو روزے کی نیت جائز ہے، اس دوسرے قول پر اس وقت سے نصف النہار عرفی یعنی استوائے حقیقی تک کہ تحویل حمل کے دن ۱۲ بج کر ۱۱ منٹ پر ہوگا، سارا وقت کراہت کا ہے جس میں نماز ناجائز وممنوع اور پُرظاہر کہ یہ مقدار اختلافِ موسم سے گھٹتی بڑھتی رہے گی یہ قول ائمہ خوارزم کی طرف نسبت کیا گیا اور امام رکن الدین صباغی نے اسی پر فتوٰی دیا
، ردالمحتار میں ہے: عزافی القھستانی القول بان المراد انتصاف النھار العرفی ای ائمۃ ماوراء النھر وبان المراد انتصاف النھار الشرعی وھو الضحوۃ الکبرٰی الی الزوال الی ائمۃ خوارزم ۱؎۔
قہستانی میں اس قول کو ائمہ ماوراء النہر کی طرف منسوب کیا ہے کہ مراد عُرفی نہار کا نصف ہونا ہے، اور اس قول کو ائمہ خوارزم کی طرف منسوب کیا ہے کہ مراد شرعی نہار کا نصف ہونا ہے یعنی ضحوہ کبرٰی زوال تک۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار مطلب یشترط العلم بدخول الوقت مطبوعہ المصطفی البابی مصر ۱/۲۷۳)
اُسی میں ہے: وفی القنیۃ، واختلف فی وقت الکراھۃ عند الزوال، فقیل من نصف النھار الی الزوال، لروایۃ ابی سعید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انہ نھی عن الصلاۃ نصف النھار حتی تزول الشمس، قال رکن الدین الصباغی، وما احسن ھذا، لان النھی عن الصلاۃ فیہ یعتمد تصورھا فیہ ۱؎ اھ ما فی الشامی، وھذا کماتری من الفاظ الافتاء۔
(۱؎ ردالمحتار مطلب یشترط العلم بدخول الوقت مصطفی البابی مصر ۱/۲۷۳)
اور قنیہ میں ہے کہ زوال کے قریب مکروہ وقت کی مقدار میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ نصف النہار سے زوال تک ہے، کیونکہ ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ نے نصف النہار سے زوال تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، رکن الدین صباغی نے کہا ہے کہ یہ کتنا ہی اچھا استدلال ہے کیونکہ اس وقت میں نماز سے منع کرنے کی ضرورت تب ہی پڑسکتی ہے جب یہ وقت کم ازکم اتنا ضرور ہوکہ اس میں نماز پڑھی جاسکے، شامی کی عبارت ختم ہُوئی۔ اور جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ افتاء کے الفاظ ہیں۔ (ت)
اقول: ویؤیدہ مافی الشامی عن الطحطاوی عن ابی السعود عن الحموی عن البرجندی عن الملتقط، فی باب الکسوف، انھا اذا انکسفت بعد العصر اونصف النھار دعواولم یصلوا ۲؎، ای لکراھۃ النفل فی الوقتین، ووجہ التأیید ظاھر لیس بخاف۔
(۲؎ ردالمحتار باب الکسوف مصطفی البابی مصر ۱/۶۲۲)
اقول: (میں کہتا ہوں): اسی کا مؤید ہے وہ جو شامی میں ہے۔ شامی نے طحطاوی سے، اس نے ابوالسعود سے، اس نے حموی سے، اس نے برجندی سے، اس نے ملتقط سے باب الکسوف میں نقل کیا ہے کہ اگر سورج گرہن عصر کے بعد یا نصف النہار کے وقت لگے تو لوگ دعا کریں گے اور نماز نہیں پڑھیں گے، یعنی اس وجہ سے کہ ان دو۲ وقتوں میں نفل پڑھنا مکروہ ہے، تائید کی وجہ ظاہر ہے، مخفی نہیں۔ (ت)
غرض جب علماء میں اختلاف ہے اور ایک امام اجل نے اس قول کو ترجیح دی اور اُس کے خلاف ترجیح منقول نہ ہُوئی تو احتیاط اسی پر عمل کرنے میں ہے۔
حتی یتبین خلافہ اقول والمسئلۃ بعد تحتاج الٰی زیادۃ تحقیق وتحریر، وللعبد الضعیف ھھنا ابحاث سنوردھا ان شاء اللّٰہ تعالٰی فی غیر ھذا التحریر، واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ انتھی ماکتبت فی الجواب۔ واللّٰہ سبحٰنہ اعلم بالصواب ۱؎۔
یہاں تک کہ اس کا خلاف ظاہر ہوجائے اقول (میں کہتا ہوں) ابھی مسئلہ مزید تحقیق وتحریر کا محتاج ہے اور عبد ضعیف کی، یہاں کچھ بحثیں ہیں جنہیں عنقریب ہم کسی اور تحریر میں پیش کریں گے، واللہ تعالٰی اعلم، جو کچھ میں نے جواب میں لکھا ہے وہ ختم ہوا۔ واللہ سبحٰنہ اعلم بالصواب۔ (ت)
مسئلہ (۲۷۱) ثالثہ:بڑھ سے بڑھ یہ وقت کس قدر ہے؟
اقول: گنگوہی صاحب نے اس سوال کا جواب بھی قلم انداز کردیا، اس کا جواب اجمالی یہ ہے کہ ہمارے بلاد میں انتہا درجہ یہ وقت ۴۸ منٹ تک پہنچتا ہے جبکہ آفتاب انقلاب صیفی میں ہوتا ہے یعنی ۲۲ جون کو ٹھیک دوپہر سے اتنے منٹ بیشتر نصف النہار شرعی ہوجاتا ہے اور تحویلِ حمل ومیزان یعنی ۲۱ مارچ و ۲۴ ستمبر کو ۳۹ منٹ پہلے ہوتا ہے نہ اس سے گھٹے نہ اس سے بڑھے باقی ایام میں انہیں کے بیچ میں دورہ کرتا ہے وتفصیل ذلک یطول جدا (اور اس کی تفصیل بہت طویل ہے ۔ ت) اور ٹھیک دوپہر سے یہ مراد کہ جب دائرہ ہندیہ میں ظل ثانی خط الزوال پر پورا منطبق ہو یہی نہار عرفی کا گویاعـــہ نصف حقیقی ہے
عـــہ اس گویا اور کہیے اورسمجھی کی وجہ عالمِ ہیاَ ت پر مخفی نہیں اور یہ بھی وہ جان سکتا ہے کہ یہ وقت وقت استوائے حقیقی تحقیقی کس صورت میں ہوگا ۱۲ منہ (م)
اسی کو استوائے حقیقی کہئے اس وقت آفتاب بیچ آسمان میں ہونا سمجھئے احکام شرعیہ میں اسی وقت کا اعتبار ہے نصف النہار شرعی سے اسی وقت تک نماز مکروہ ہے اس کے بعد پھر وقتِ ممانعت نہیں رہتا اس وقت بارہ بجے فرض کیجئے اور اس سے گھنٹہ بھر پہلے گیارہ وعلٰی ہذٰا القیاس ان گھڑی گھنٹوں کے بارہ کا حکم زوال ونصف النہار وشروع وقت ظہر میں اصلاً اعتبار نہیں اگرچہ نہایت صحیح ہوں کہ نظر عوام میں ان کا کمال صحت توپ سے مطابقت اور توپ قطع نظر اس سے کہ اکثر غلط چلتی ہے فقیر نے گیارہ منٹ تک کی غلطی اُس میں مشاہدہ کی ہے اگر پُوری صحیح بھی چلے تو خود اس حساب پر نہیں چلتی، فقیر نے بارہا بچشمِ خود مشاہدہ کیا ہے کہ دوپہر کی توپ صحیح چلی ہے اور اُس وقت آفتاب مرأی العین میں صاف پلٹ چکا ہے یا ابھی وسط آسمان پر بھی نہ آیا ولہذا تحویل حوت کا شمس کہ بحساب دائرہ ہندیہ مع حصہ انکسار افقی ہمارے شہر میں ۵ بج کر ۳۹ منٹ پر ڈوبنا چاہئے توپ کے اعتبار سے قریب ۶ بجے کے ۵ بج کر ۵۶ منٹ پر ڈوبتا ہے تحویلِ قوس کا مہرکہ بحساب مذکور دائرہ ۶ بج کر ۴۲ منٹ پر چمکنا چاہئے توپ کے گھنٹوں پر ۶ سے ۳۱ منٹ بعد طلوع کر آتا ہے اسی طرح ہرجگہ فرق پائیے گا یہ امر ضرور قابلِ لحاظ ہے یہیں سے وہ عقدہ کھل گیا کہ ہم نے مسئلہ ثانیہ کے جواب میں نصف النہار شرعی ۱۱ پر ۳۱ منٹ آکر لکھا اور پھر اس سے استوائے حقیقی تک ۴۰ منٹ کا فاصلہ رکھا حالانکہ ۱۱ پر ۳۱ کے بعد ۱۲بجنے تک صرف ۲۹ منٹ کا فصل ہے تو وجہ یہ کہ اُس مسئلہ میں انہیں رواجی مدراسی گھنٹوں کا حساب لیا تھا ولہذا طلوعِ شمس حمل ۶ پر ۷ منٹ آکر مانا۔ یہ ہے ان مسائل کا اجمالی تخمینی جواب اور تفصیل وتحقیق مفضی تطویل واطناب۔
وفیما ذکرنا کفایۃ لاولی الباب وصلی اللّٰہ تعالٰی علی المولٰی الاواب سیدنا محمد والاٰل والاصحاب واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
اور جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ عقلمندوں کے لئے کافی ہے، اور درود بھیجے اللہ تعالٰی بہت رجوع کرنے والے آقا سیدنا محمد پر اور ان کی آل واصحاب پر۔ واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ (ت)
مسئلہ (۲۷۲):از حیدرآباد دکن قریب دروازہ دبیرپورہ مدرسہ محمدیہ مرسلہ مولوی عبدالخالق صاحب اعظم گڈھی ۱۲ جمادی الاخرٰی ۱۳۱۷ھ
حضرت مولٰنا العلام والحبر القمقام حامی السنۃ قامع البدعۃ بقیۃ السلف حجۃ الخلف مولانا الحاج المولوی احمد رضاخان صاحب مدظلہ العالی بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح رائے عالی متعالی ہوکہ ان دنوں یہاں کہ علما بلکہ چار پانچ علمائے ہند مثل حضرت مولانا مولوی لطف اللہ صاحب علی گڈھی وجناب مولوی محمد منصور علی خان صاحب مراد آبادی وجناب مولوی محمد یعقوب صاحب اعظم گڈھی وغیرہم نے مثلین سوی الزوال کا فتوٰی دیا بعدہ، مولوی عبدالوہاب صاحب بہاری صدر مدرس مدرسہ نظامیہ نے سب علماء کے فتوے کو رَد کردیا اور لکھا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی قول مثلین سے رجوع کرکے قول صاحبین کی طرف آگئے ہیں اب التماس ہے کہ آپ اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں۔ خادم الطلبہ محمد عبدالخالق
الجواب: مولانا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، قول سیدنا الامام الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وہی مثلین بعد فیئ الزوال ہے اور وہی احوط وہی اصح وہی من حیث الدلیل ارجح اسی پر اجماع واطباق جملہ متون متین وہی مختار ومرضی جمہور محققین شارحین اُسی پر افتاے اکثر کبراےائمہ مفتین امام کا اس سے رجوع فرمانا ثابت نہیں اجماع متون مذہب موضوعہ لنقل المذہب کے حضور بعض حکایات شاذہ خاملہ غیر محفوظہ قابلِ لحاظ کب ہوئیں بلکہ قول یک مثل ہے مرجوع عنہ ہے۔
لماصرح بہ فی البحر والخیریۃ وردالمحتاروغیرھا ان کل ماخرج عن ظاھر الروایۃ فھو مرجوع عنہ ۱؎۔ ھذا ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات ۲؎۔
وفقنااللّٰہ تعالٰی لھا وتقبلھا منا بالکرم واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔کیونکہ بحر، خیریہ اور ردالمحتار وغیرہ میں تصریح ہے کہ جو قول ظاہر الروایۃ کے خلاف ہو اس سے رجوع کیا جاچکا ہوتا ہے۔ اور ہر ایک کی ایک سمت ہے جس کی جانب وہ منہ کرتا ہے تو نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالٰی ہمیں نیکیوں کی توفیق دے اور اپنے کرم سے انہیں قبول فرمائے۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم، وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار مطلب فی حدیث اختلاف امتی رحمۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۵۰) (۲؎ القرآن سورہ البقرۃ ۲ آیت ۱۴۸)
مسئلہ (۲۷۳) از کلکتہ فوجداری بالاخانہ نمبر ۳۶ مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب ۱۸ جمادی الآخرہ ۱۳۰۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں کلکتہ میں آج کل آفتاب 61/2بجے طلوع ہوتا ہے اور پونے چھ بجے غروب اور نمازِ عصر پونے چار بجے ادا کی جاتی ہے کہ اُس وقت سایہ سوائے سایہ اصلی کے دو مثل کسی طرح نہیں ہوتا اس صورت میں نماز مذہب مفتی بہ کے موافق ہوئی یا نہیں اور ایسی حالت میں جماعت میں شریک ہونا چاہیئے یا جماعت کا ترک اختیار کیا جائے صرف حکم چاہتا ہوں مجھے دلائل کی ضرورت نہیں، بینوا توجروا۔
الجواب : حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک جب تک سایہ ظل اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہوجائے وقتِ عصر نہیں آتا اور صاحبین کے نزدیک ایک ہی مثل کے بعد آجاتا ہے اگرچہ بعض کتب فتاوٰی وغیرہ تصانیف بعض متاخرین مثل برہان طرابلسی وفیض کرکی ودرمختار میں قول صاحبین کو مرجح بتایا مگر قولِ امام ہی احوط واصح اور ازروئے دلیل ارجح ہے، عموماً متون مذہب قولِ امام پر جزم کیے ہیں اور عامہ اجلہ شارحین نے اُسے مرضی ومختار رکھا اور اکابرائمہ ترجیح وافتا بلکہ جمہور پیشوایانِ مذہب نے اُسی کی تصحیح کی، امام(۱)ملک العلما ابوبکر مسعود نے بدائع اور امام(۲) سرخسی نے محیط میں فرمایا: ھو الصحیح ۳؎ (یہی صحیح ہے)۔ امام(۳) اجل قاضیخان نے اسی کو تقدیم دی اور وہ اسی کو تقدیم دیتے ہیں جو اظہر من حیث الدرایۃ اور اشہر من حیث الروایۃ ہو ۴؎ ۔
کمانص علیہ فی خطبۃ الخانیۃ (جیسا کہ خانیہ کے خطبہ میں یہ بات صراحۃً مذکور ہے۔ ت) اور وہی قول معتمد ہوتا ہے کمافی الطحطاوی والشامی (جیسا کہ شامی اور طحطاوی میں ہے۔ ت) یونہی(۴) امام طاہر بخاری نے خلاصہ میں اسے تقدیم دی۔ امام اجل(۵) برہان الدین صاحبِ ہدایۃ نے ہدایہ اور امام(۶) اجل ابوالبرکات نسفی نے کافی اور امام(۷) زیلعی نے تبیین الحقائق میں اسی کی دلیل مرجح رکھی، امام(۸) اجل محبوبی نے اسی کو اختیار فرمایا۔ امام(۹) صدرالشریعۃ نے اسی پر اعتماد کیا وہ چند متأخرین اعنی مصنفین برہان وفیض ودرمختار ان اکابر میں ایک کی بھی جلالتِ شان کو نہیں پہنچتے۔ فتاوٰی(۱۰) غیاثیہ وجواہر(۱۱) اخلاطی میں فرمایا: ھو المختار (یہی مختار ہے) علامہ(۱۲) قاسم نے تصحیح قدوری میں اسی کی تحقیق کی، امام(۱۳) سمعانی نے خزانۃ المفتین میں اسی پر اقتصار فرمایا قول خلاف کا نام بھی نہ لیا، امام(۱۴) محمود عینی نے اسی کی تائید فرمائی، ملتقی(۱۵) الابحر میں اسی کو مقدم رکھا اور وہ اسی کو تقدیم دیتے ہیں جو ارجح ہو کماذکر فی خطبتہ (جیسا کہ اس کے خطبے میں ذکر کیا گیا ہے۔ ت) اور وہی مختار للفتوٰی ہوتا ہے کمافی شرحہ ۱؎ مجمع الانھر (جیسا کہ اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے ت)
(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر خطبہ کتاب مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۷)
مراقی(۱۶) الفلاح میں ہے ھو الصحیح وعلیہ جل المشایخ والمتون ۲؎
(یہی صحیح ہے اور اسی پر بزرگ مشایخ ومتون مذہب ہیں)
(۲ ؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃمطبوعہ نور محمد کارخانہ کتب کراچی ص۹۴)
طحطاوی(۱۷) علی المراقی میں ہے صححہ جمھور اھل المذھب ۳؎
(جمہور ائمہ مذہب نے اسی کی تصحیح فرمائی)
(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃمطبوعہ نور محمد کارخانہ کتب کراچی ص۹۴)