اما المجمع فنقل عنہ فی ردالمحتار واما شرح الطحاوی فرمزلہ فی خزانۃ المفتین، واما الاربعۃ البواقی فرأیت فیھا بعینی۔
مجمع سے ردالمحتار نے نقل کیا ہے، شرح طحاوی کی طرف خزانۃ المفتین میں اشارہ کیا گیا ہے اور باقی چاروں میں، مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ (ت)
بلکہ خود محرر مذہب سیدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتاب الصوم میں وہی قول زوال ارشاد کیا،
کمانص علیہ الامام شمس الائمۃ السرخسی فی شرح الجامع الصغیر، ورأیت النقل عنہ فی الایضاح شرح الاصلاح للعلامۃ ابن کمال الوزیر۔
جیسا کہ شمس الائمہ سرخسی نے جامع صغیر کی شرح میں کہا ہے اور علامہ ابن کمال وزیر کی ایضاح شرح اصلاح میں، میں نے اس کی نقل دیکھی ہے۔ (ت)
تو ایسی جگہ ارسال زبان نازیبا وزیان اور زوال سے زوال نہار شرعی مراد لے کر قصد توفیق بھی خلاف تحقیق کی مرسلہ ائمہ یہاں ابقائے خلاف کرتے ہیں اور خود ایک جانب کو اصح وصحیح کہنے کا یہی مفاد عبارت ہدایہ یوں ہے:
قال فی المختصر (یعنی القدوری) مابینہ وبین الزوال، وفی الجامع الصغیر قبل نصف النھار وھو الاصح ۱؎ الخ۔
کہا مختصر میں (یعنی قدوری میں) ''اس کے اور زوال کے درمیان''۔ اور جامع صغیر میں ہے ''نصف النہار سے پہلے''۔ اور یہ اصح ہے الخ (ت)
(۱؎ الہدایۃ کتاب الصوم مطبوعہ المکتبہ العربیۃ کراچی ۱/۱۹۲)
شرح وقایہ میں ہے: فی الجامع الصغیر بنیۃ قبل نصف النھار ای قبل نصف النھار الشرعی، وفی مختصرالقدوری الی الزوال، والاول اصح ۱؎۔
(۰۱؎ شرح الوقایۃ کتاب الصوم مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ دہلی ۱/۳۰۶)
جامع الصغیر میں ہے ''اگر نصف نہار سے پہلے نیت کرے'' یعنی نصف نہار شرعی سے پہلے، اورمختصر قدوری میں ہے کہ زوال تک صحیح ہے، لیکن پہلا قول صحیح ہے۔ (ت)
کافی للامام النسفی میں ہے: ذکر فی المختصر، وبینہ وبین الزوال، وفی الجامع الصغیر، قبل نصف النھار، وھو
الصحیح ۲؎۔
مختصر میں مذکور ہے ''اس کے اور زوال کے درمیان'' اور جامع صغیر میں ہے ''نصف نہار سے پہلے'' اور یہ صحیح ہے الخ (ت)
(۲؎ کافی شرح وافی)
تبیین الحقائق میں ہے: قال فی المختصر (یعنی الکنز) الی ماقبل نصف النھار، وھو المذکور فی الجامع الصغیر، وذکر القدوری مابینہ وبین الزوال، والصحیح الاول ۳؎۔
(۳؎ تبین الحقائق کتاب الصوم المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ مصر ۱/۳۱۵۹)
کہا مختصر میں (یعنی کنز میں) ''نصف نہار سے پہلے تک''۔ یہی جامع صغیر میں بھی مذکور ہے۔ اور قدوری نے کہا ہے ''اس کے اور زوال کے درمیان'' اور صحیح پہلا قول ہے۔ (ت)
برجندی میں ہے: اشار القدوری انہ تجوز النیۃ فیما بین الصبح والزوال، وفی الھدایۃ الاول ۴؎۔
قدوری نے اشارہ کیا ہے کہ نیت صبح اور زوال کے درمیان صحیح ہے۔ اور ہدایہ میں ہے کہ پہلا قول اصح ہے۔ (ت)
(۴؎ شرح النقایہ للبرجندی کتاب الصو م نولکشور لکھنؤ ۱/۲۱۱)
اس کے لئے نیت کافی ہے، اگر صبح اور زوال کے درمیان کرے، یا نصف نہار سے پہلے، اور یہ اصح ہے (ت)
(۵؎ جواہر الاخلاطی ، کتاب الصو م قلمی نسخہ غیر مطبوعہ ۱/۴۸)
اور نص قاطع وہ ہے کہ تاتارخانیہ میں محیط سے نقل فرمایا:
یظھر ثمرۃ الاختلاف فیما اذانوی عند قرب الزوال ۱؎ اھ۔
اختلاف کا نتیجہ تب ظاہر ہوگا جب زوال کے قریب نیت کرے اھ (ت)
(۱؎ الفتاوٰی التاتارخانیۃ الفصل الثالث فی النیۃ مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۳۵۷)
اقول: بلکہ بعد اس عنایت کے بھی توفیق ؎۱ نہ ہُوئی (انتصاف پر بھی مابینہ وبین الزوال وقبل الزوال وقرب الزوال صادق حالانکہ مذہب صحیح پر خاص وقت ضحوہ کبرٰی بھی نیت کافی نہیں کماقدمنا عن الدر وغیرہ (جس طرح ہم نے در وغیرہ سے پہلے نقل کیا ہے)(صـ۱۲۲) پھر اس تکلیف بے حاصل سے کیا حاصل۔ غرض نہ تغلیط مقبول نہ توفیق معقول بلکہ جواب وہی ہے جو فقیر نے ذکر کیا وباللّٰہ التوفیق وافاضۃ التحقیق واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
؎۱ نعم لواول بالمنتصف کان توفیقا وان لم یکن تحقیقا ۱۲ منہ
(م) ہاں اگر (اس قول کی) تاویل نصف النہار کے ساتھ کردی جاتی تو ان میں تطبیق ہوجاتی اگرچہ اس میں بھی تسامح ہے۔ (ت)
مسئلہ ۲۷۰ ثانیہ:وقت زوال جس میں نماز ممنوع کیا وقت ہے۔
اقول: گنگوہی صاحب نے اس سوال کا جواب نہ دیا پیشتر بھی فقیر سے یہ سوال ہوا تھا بقدر ضرورت جواب لکھا گیا یہاں اس کی نقل پر اقتصار ہوتا ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زوال کا وقت جس میں نماز ناجائز ہے کیا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: زوال تو سُورج ڈھلنے کو کہتے ہیں یہ وقت وہ ہے کہ ممانعت کا وقت نکل گیا اور جواز کا آیا کماصرح بہ في البحر ۲؎ عن الحلیۃ ۔(جیسا کہ بحرالرائق میں حلیہ سے اسکی تصریح کی گئی ہے)
تو وقت ممانعت کو زوال کہنا صریح مسامحت ہے اور غایت تاویل مجاز مجاورت بلکہ اسے وقت استوا کہنا چاہئے یعنی نصف النہار کا وقت، اب علما کو اختلاف ہے کہ اس سے نہار عرفی کا نصف حقیقی ؎۲ مراد ہے
؎۲ احتراز ہے نصف النہار عرفی سے کہ ۱۲ بجے کے وقت کو کہتے ہیں، یہ سال میں چار۴ دن یعنی ۱۵ / اپریل۱۴ جون، ۳۱/اگست، ۲۴ دسمبر کے سوا ہمیشہ نصف النہار حقیقی سے آگے پیچھے ہوتا ہے جس کا تقدم تاخر تقریباً پاؤ گھنٹے تک پہنچتا ہے یعنی زیادت میں تقریباً ۱۴ منٹ اور کمی میں ۱۶، پھر یہ بھی اُس وقت ہے کہ گھڑیاں اصل تعدیل الایام بلدی پر جاری کی جائیں اور اگر دوسرے مقام کے وقت پر اجرا ہو جیسے ہندوستان میں وقت مدراس کو اختلاف طول سے یہ دن متبدل ہوجائیں گے، مثلاً بریلی جس کا وقت مدراس سے ۳ منٹ ۱۹ سیکنڈ زائد ہے یہاں تقریبی مساوات یعنی جیبی گھڑی کے ۱۲ بجے پر ٹھیک دوپہر ہونا ان چار تاریخوں پر ہوگا ۴ و ۲۵ مئی و ۱۱ ستمبر و ۱۸ دسمبر ۱۲ منہ- یہ بھی اس وقت تک تھا اب کہ جولائی ۱۹۰۵ء سے مدراس ٹائم منسوخ اور وسط ہند کے وقت پر گھڑیاں جاری کی گئی ہیں یعنی جہاں طول ۸۲ درجے ہے جس کے ۰۵ گھنٹے ہوئے، اس اختلاف نے بریلی میں صرف دو۲ ہی دن مساوات کے رکھے ۸ اکتوبر اور ۲۸ نومبر، اور کمی کی مقدار یعنی جیبی گھڑی کے ۱۲ بجے سے نصف النہار حقیقی کا پہلے ہونا صرف ۴ منٹ رہ گئی، اور زیادت یعنی حبیبی کے ۱۲ بجے سے ٹھیک دوپہر بعد کو ہونا ۲۶ منٹ تک پہنچ گئی ۱۲ منہ (م)
یعنی دوپہر جس وقت مرکز آفتاب بالائے افق دائرہ نصف النہار پرپہنچتا اور سایہ اپنی مقدار اصلی پر آکر اُس کے بعد جانبِ مشرق پلٹتا اور گھٹنے کی انتہا ہوکر پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہ قول ائمہ ماوراء النہر کی طرف منسوب یا نہار شرعی کا نصف مراد ہے جسے ضحوہ کبرٰی کہتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ نہار عرفی طلوع کنارہ شمس سے غروب کل قرص شمس تک ہے۔