اُسی میں ہے: ولایعارضہ قول عــہ جبریل فی حدیث المواقیت حین صلی الخمس بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: ھذا وقتک ووقت الانبیاء من قبلک، لان المراد، کماقال الرافعی، انہ وقتھم اجمالا، وان اختص کل منھم بوقت ۳؎۔
اور اس کے معارض نہیں ہے جبریل کا یہ کہنا کہ یہ آپ کا وقت ہے اور آپ سے پہلے انبیاء کا بھی۔ حدیث مواقیت کے مطابق جبریل نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب انہوں نے رسول اللہ کو پانچ نمازیں پڑھائی تھیں عدمِ تعارض کی وجہ یہ ہے کہ یہ اوقات دیگر انبیاء کو اجمالی طور پر ملے تھے، انفرادی طور پر تو ہر نبی کو ان میں سے کچھ وقت دِیے گئے تھے۔ (ت)
(۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الرابع خصائص امۃ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۵/۴۲۵)
عـــہ: رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وستأتی تخریجاتہ ۱۲ منہ (م) اسے ابوداؤد اور ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اس کی تخریجات آگے آرہی ہے ۱۲ منہ (ت)
لمعات وشرح ابن حجر مکّی میں ہے: واللفظ للاول، قولہ ھذا وقت الانبیاء من قبلک ، یدل بظاھرہ علی ان الصلوات الخمس کانت واجبۃ علی الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام، والمراد التوزیع بالنسبۃ الٰی غیر العشاء، اذمجموع ھذہ الخمس من خصوصیاتنا، وامّا بالنسبۃ الیھم فکانماعدا العشاء متفرقا فیھم، کماجاء فی الاخبار ۱؎۔
اور لفظ لمعات کے ہیں -- جبریل کا یہ کہنا کہ یہ آپ کا وقت ہے اور پہلے انبیاء کا بھی، بظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ پانچ نمازیں پہلے انبیاء پر واجب تھیں لیکن یہاں مراد یہ ہے کہ عشاء کے علاوہ باقی نمازیں دیگر انبیاء پر تقسیم کی گئی تھیں کیونکہ پانچ نمازوں کا مجموع ہماری خصوصیات میں سے ہے۔ باقی انبیاء کو تو عشاء کے علاوہ باقی نمازیں متفرق طور پر ملی تھیں، جیسا کہ روایات میں آیا ہے۔ (ت)
علّامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: الصلوات الخمس لم تجتمع لغیرہ ولغیر امتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ولا لنبی قبلہ، فانما الانبیاء قبلہ کانت لھم صلاۃ موافقۃ لبعض ھذہ، دون مجموعھا ۲؎۔
پانچ نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے علاوہ کسی اُمت کیلئے جمع نہیں کی گئیں، نہ آپ سے پہلے کسی نبی کیلئے۔ پہلے انبیاء کو جو نمازیں ملی تھیں تو ان میں سے ہر نبی کی نماز ان اوقات میں سے کسی ایک وقت کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی، مجموع طور پر پانچ نمازیں اُن میں سے کسی کو بھی نہیں دی گئی تھیں۔ (ت)
(۲؎ نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی تعظیمہٖ صلی اللہ علیہ وسلم بماتضمنہ کرامۃ الاسراء مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۲/۲۵۷)
اقول: مگر فقیر غفرلہ اللہ تعالٰی لہ نے کوئی دلیل صحیح صریح اس پر نہ پائی وکل ماذکروہ فلایفید المدعی ،اومعارض بماھو اصح واقوی، کمافصلنا ذلک فی تحریر مستقل لنافی ھذا المقال، کتبناہ بتوفیق اللّٰہ تعالٰی بعد ورود ھذا السؤال، ملخصہ انھم احتجوا علی ذلک باحادیث واٰثار، منھا(۱) حدیث صحیح مسلم عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی خبر الاسراء فاعطی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثلثا، اعطی الصلوات الخمس، واعطی خواتیم سورۃ البقرۃ، وغفرلمن لم یشرک باللّٰہ من ا متہ شیئا المقحمات فانہ ظاھر فی اختصاصھا بہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎۔
یہ سب باتیں جو علماء نے ذکر کی ہیں اِثبات مدعی کیلئے مفید نہیں ہیں، یا زیادہ صحیح اور قوی روایات سے معارض ہیں یہ بات ہم نے اس موضوع پر اپنی ایک مستقل تحریر میں مفصل طور پر بیان کی ہے جو اس سوال کے آنے پر لکھی گئی تھی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علماء نے پانچ نمازوں کے مجموعے کا اس امت کے ساتھ مختص ہونے پر چند احادیث وآثار سے استدلال کیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث صحیح مسلم کی ہے جو واقعہ معراج کے بارے میں عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ کو تین چیزیں عطا کی گئیں، پانچ نمازیں، سورہ بقر کی آخری آیتیں اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کی مغفرت جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ پانچ نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے خاص ہیں۔ (ت)
(۳؎ الصحیح المسلم باب فی قول اللہ تعالٰی ولقد راٰہ نزلۃ اخرٰی مطبوعہ قدیمی کتب خانہ لاہور ۱/۹۷)
قلت: وذلک لانہ کان محل الاکرام الخاص فینبغی اختصاص الخمس ایضا بہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کالباقیین۔ قال فی نسیم الریاض (فاعطی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثلثا) من الفضائل المخصوصۃ بہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎ اھ۔
(۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی تعظیمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بماتضمنہ کرامۃ الاسراء مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۲/۲۵۶)
میں کہتا ہوں: ظاہر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ موقعہ اکرامِ خاص کا تھا اس لئے پانچ نمازیں بھی آپ کیلئے خاص ہونی چاہئیں جس طرح باقی دو۲ چیزیں آپ کیلئے خاص ہیں۔ نسیم الریاض میں ہے (پس دی گئیں رسول اللہ کو تین۳ چیزیں) یعنی اُن فضائل میں سے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں اھ (ت)
اقول: لک ان تقول بعد تسلیم لزوم الخصوص فی کل عطاء یعطی فی مقام الاختصاص، لایلزم الخصوص من کل وجہ، فقدکانت الصلاۃ فریضۃ علی الانبیاء صلوات اللّٰہ تعالٰی وسلامہ علیھم وفی کل دین الٰھی، کماقال تعالٰی فی سیدنا اسمٰعیل علٰی ابنہ الکریم وعلیہ الصلاۃ والتسلیم،
وکان یأمر اھلہ بالصلوٰۃ والزکٰوۃ وکان عند ربہ مرضیا ۲؎۔
(۲؎ القرآن سورہ مریم ۱۹ آیت ۵۵)
میں کہتا ہوں تم اس کے جواب میں کہہ سکتے ہوکہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اختصاص کے موقعہ پر جو چیزیں دی جائیں ان میں ہر ایک کا خاص ہونا ضروری ہے۔ تاہم ہر لحاظ سے خاص ہونا تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ نمازیں تمام انبیاء پر اور ہر دینِ الٰہی میں فرض تھیں جس طرح اللہ تعالٰی سیدنا اسمٰعیل ان کے کریم بیٹے پر اور ان پر صلوٰۃ وسلام ہو۔ کے بارے میں فرماتا ہے ''وہ حکم دیا کرتا تھا اپنے اہلِ خانہ کو نماز اور زکوٰۃ کا، اور اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھا''
وقال عزوجل عن عبدہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام،
واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیا ۳؎۔
اور اللہ عزوجل نے اپنے بندے عیسٰی علیہ السلام کا یہ قول بیان کیا ہے ''اور حکم دیا ہے مجھے اللہ تعالٰی نے نماز اور زکوٰۃ کا، جب تک میں زندہ رہوں''
(۳؎ القرآن ، سورہ مریم ۱۹ ، آیت ۳۱)
وفی الحدیث عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاخیر فی دین لاصلوٰۃ فیہ ۴؎
(۴؎ سنن ابی داؤد باب ماجاء فی خبر الطائف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۷۲)
اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے جس میں نماز نہ ہو،
وقدکانت اوقات صلاتھم ھی ھذہ الاوقات، لقول جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ھذا وقتک ووقت الانبیاء من قبلک ۵؎۔