فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ (۲۶۹) مرسلہ حاجی الٰہ یار خان صاحب ۱۱ رجب ۱۳۰۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ روزہ نفل میں جو نیت کو قبل زوال کے کرنے کو لکھا ہے اور زوال کے وقت جو نماز مکروہ ہے تو اس وقت سے کیا مراد ہے اور بڑھ سے بڑھ یہ وقت کس قدر ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: یہ سوال مع جوابِ مولوی گنگوہی صاحب پیش ہوا اس میں تین۳ مسئلے ہیں، دو۲ کا گنگوہی صاحب نے جواب ہی نہ دیا اور ایک کا کہ دیا محض غلط کہ نہ دینا اُس سے ہزار جگہ بہتر تھا وہ مسائل یہ ہیں: مسئلہ اولٰی: باب صیام میں وقت زوال جس تک نیتِ روزہ نفل ہوجانا چاہئے کیا ہے؟ اقول: فی الواقع روزہ ماہ مبارک ونذر معین وروزہ نفل جبکہ ادا ہو نہ قضا تو مذہب صحیح یہی ہے کہ ان کی نیت نصف النہار شرعی سے پہلے ہوجانی چاہئے جسے ضحوہ کبرٰی کہتے ہیں اُس کے بعد بلکہ خاص ضحوہ کبرٰی کے وقت بھی نیت کافی نہیں،
درمختار میں ہے: یصح اداء صوم رمضان والنذر المعین والنفل بنیتہ من اللیل الی الضحوۃ الکبرٰی، لابعدھا ولاعندھا، اعتبار الاکثر الیوم ۱؎۔
رمضان کے روزے، نذرمعین کے روزے اورنفلی روزے کی ادا صحیح ہے اگر رات سے ضحوہ کبرٰی تک نیت کرلی جائے، ضحوہ کبرٰی کے بعد یا اس کے دوران نیت کرنے سے روزہ نہیں ہوگا کیونکہ دن کے بیشتر حصّے کا اعتبار ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصوم مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۱۴۶)
اور نہار شرعی طلوعِ فجر صادق سے غروب مرئی کل قرص شمس تک ہے، ردالمحتار میں ہے:
الیوم الشرعی من طلوع الفجر الی الغروب ۲؎۔
شرعی دن، طلوعِ فجر سے غروب تک ہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار ، کتاب الصوم ، مطبوعہ مجتبائی دہلی ، ۲/۸۰)
یہ ہمیشہ نہار عرفی سے کہ طلوعِ مرئی کنارہ بالائی شمس سے غروب مرئی کل جرم شمس تک ہے بمقدار مدت فجر زیادہ ہوتا ہے یعنی جس جگہ، جس فصل جس مہینے بلکہ جس دن میں طلوعِ فجر سے طلوعِ شمس بمعنی مذکور تک جتنی مدت ہوگی اُس دن کا نہار شرعی اس کے نہارِ عرفی سے اُسی قدر بڑا ہوگا اور ظاہر ہے کہ جب دو بڑی چھوٹی چیزوں میں صرف ابتدا مختلف اور انتہا متفق ہوتو اکبر کا نصف اصغر کے نصف سے بقدر نصف زیادت کے پہلے ہوگا لہذا ہمیشہ نصف النہار شرعی نصف النہار عرفی حقیقی یعنی نصف النہار دائرہ ہندیہ سے بقدر نصف مقدار فجر کے پیشتر ہوتا ہے، ردالمحتار میں ہے:
اعلم، ان کل قطر نصف نھارہ قبل زوالہ بنصف حصۃ فجرہ ۳؎۔
جان لوکہ ہر علاقے کا نصف النہار، بقدر نصفِ حصّہ فجر، زوال سے پہلے ہوتا ہے۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الصوم مطبوعہ مجتبائی دہلی ۲/۸۵)
پس یہی حساب ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے آج کی فجر دریافت کرلی کہ کس مقدار کی ہُوئی اُس کی تنصیف میں جتنے منٹ سکنڈ آئے ٹھیک دوپہر یعنی کیلی کا سایہ دھوپ گھڑی میں خط نصف النہار پر منطبق ہونے سے پیشتر اُتنے ہی منٹ سکنڈ لے لئے وہی وقت حقیقی نصف النہار شرعی کا ہوا اُس سے پہلے نیت روزے کی ہو جانی چاہئے اور پُر ظاہر کہ نہ نہار عرفی دائماً ایک حالت پر رہے نہ مقدار فجر دواماً یکساں ہو بلکہ دونوں ہر روز گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ افق مستوی میں بھی کہ بوجہ میل عـــہ وتزاید وتناقض میل تفاوت طوالع ومطالع ضروری ہے نہ کہ عـــہ نصف میل باعثِ اختلاف طوالع یا مطالع ہے اور اس کا تزاید وتناقص باعثِ اختلاف طوالع فی المطالع کمالایخفی علٰی ذی درایۃ ۱۲ (جیسا کہ ذی فہم پر مخفی نہیں۔ ت) (م) آفاق مائلہ نہ کہ ہمارے بلادجن میں سائل ومجیب کا کلام ہے جن کے مدارات کا دائرہ معدل النہار سے میل میل کلی پر بھی کئی درجے افزوں ہے کہ کمابیش عرض الخ رکھتے ہیں بریلی جس کا عرض الح الح ہے یہاں نہارنجومی کہ افق حقیقی پر جانب انطباق مرکز شمس سے جانب غرب انطباق تک ہے روز انقلاب صیفی پونے چودہ گھنٹے سے زائد ۱۳ گھنٹے ۴۸ منٹ تک پہنچتا ہے اور روز انقلاب شتوی سوادس ساعت سے بھی کم ۱۰ گھنٹے ۱۲ منٹ کا ہوتا ہے اور مقدار فجر یعنی طلوعِ فجر سے طلوع نجومی شمس تک او اخر جوزا واوائل سرطان میں پونے دو گھنٹے کے قریب یعنی تقریباً ایک گھنٹہ ۳۹ منٹ اور نزدیکی اعتدالین میں سوا گھنٹے سے کچھ زائد یعنی تخمیناً ایک گھنٹا ۲۲ منٹ تو نہار شرعی ہمیشہ ایک مقدار پر کیونکر رہ سکتا ہے نہ زنہار اس کا تفاوت ایسا قلیل ہے جسے بے مقدار وناقابلِ اعتبار سمجھ کر ہمیشہ کیلئے ایک اندازہ مقرر کردیجئے بلکہ اس کی کمی بیشی سوا پہر کامل تک پہنچتی ہے انقلاب اول میں تخمیناً یہ ل یعنی ساڑھے پندرہ گھنٹے کا نہار شرعی ہوتا ہے کہ پانچ پہر سے بھی زائد ہوا کجا ساڑھے چار پہر اور انقلاب ثانی میں تقریباً مامہ یعنی پونے بارہ گھنٹے کا کہ چار پہر سے بھی کم ہوا کہاں ساڑھے چار پہر پونے بارہ اور ساڑھے پندرہ کا تفاوت وہی سوا پہر کامل ہوا یا نہیں پھر ایسی شدید التفاوت چیز میں ایک مقدار کا تخمینہ کردینا کس قدر غلط وباعثِ مغالطہ مسلمین ہوگا مثلاً جب عوام نے یہ اندازہ جان لیا کہ ساڑھے چار پہر کا نہار شرعی ہوتا ہے اس کے اکثر حصّے میں نیت ہوجانی چاہئے یعنی غروبِ آفتاب تک اس کے نصف سے زیادہ باقی ہو اور اس کا نصف سوا دوپہر یعنی پونے سات گھنٹے تو اس حکم کا حاصل یہ ہوا کہ اگر شام تک ۰۶ گھنٹے سے کچھ بھی زیادہ وقت باقی ہے جب تو روزے کی نیت صحیح ہوجائے گی اور ۰۶ یا اس سے کم ہیں تو ہرگز صحیح نہ ہوگی اب ملاحظہ کیجئے جب آفتاب تحویل سرطان پر آیا اور ۷ بجے ڈوبا یعنی وقت حقیقی سے تقریباً ڈیڑھ منٹ سات پر تو حقیقی بارہ بجے کے چند منٹ بعد بھی یہ بات صادق ہے کہ شام تک ۶ گھنٹے ۴۵ منٹ سے زیادہ وقت ہے تو لازم کہ اُس دن دوپہر ڈھلے پر بھی نیت روزہ ہوجائے حالانکہ یہ بالاجماع باطل ہے بلکہ اُس دن حقیقی سواگیارہ بجے سے چند منٹ پہلے بھی نیت جائز نہیں کہ ۱۱ بج کر ۱۱ منٹ پر نصف النہار شرعی ہوچکا اور جب آفتاب تحویل جدی پر آیا اور سوا پانچ سے کچھ کم یعنی وقت حقیقی سے تقریباً ۵ بج کر ۱۰ منٹ پر ڈوبا تو لازم کہ اُس دن ساڑھے دس بجے بھی نیت جائز نہ ہوکہ اب شام تک ۰۶ گھنٹے باقی نہیں حالانکہ اُس دن ۱۱ کے بعد یعنی حقیقی وقت سے ۱۱ بج کر ۱۹ منٹ تک بھی نیت جائز ہے کہ نصف النہار شرعی اب ہوگا پس ثابت ہوا کہ ۰۴ پہر کا تخمینہ محض غلط وباعثِ تغلیط اور بنائے کار اُسی حساب پر واجب جو ہم بیان کر آئے، واللہ تعالٰی اعلم۔ رہا لفظ زوال کہ عبارت امام اجل ابوالحسن قدوری رحمہ اللہ تعالٰی میں واقع عندالتحقیق اُس سے دوپہر ڈھلے ہی کا وقت مراد ہے اس روایت پر نصف النہار عرفی تک اِن روزوں کی نیت جائز ہے مگر مختار ومعتمد وہی روایت سابقہ ہے کہ نصف النہار شرعی سے پہلے نیت ہوجانی ضرور ہے ہدایہ(۱) وقایہ(۲) وشرح وقایہ(۳) وعتابیہ(۴) وجواہر(۵) الاخلاطی وشرح(۶) نقایہ برجندی وشرح(۷) علامہ اسمٰعیل ومتن(۸) نورالایضاح میں اسی کو اصح کہا اور شرح(۹) جامع صغیر للامام السرخسی وکافی(۱۰) شرح وافی وشرح(۱۱) کنز للزیلعی ومتن(۱۲) اصلاح میں اسی کو صحیح بتایا اور نقایہ(۱۳) وکنز(۱۴) وملتقی(۱۵) وتنویر(۱۶) ودر(۱۷) واشباہ(۱۸) وغیرہا مرسلہ معتمدات میں اسی پر جزم کیا اور یہی من حیث الدلیل اقوٰی تو اسی پر عمل وفتوٰی اس سوال کا جواب اسی قدر ہے باقی اُس روایت کو غلط کہنا ائمہ کے ساتھ گنگوہی صاحب کا سوءِ ادب ہے کہ قدوری(۱) ومجمع(۲) وفتاوٰی(۳) خانیہ وفتاوٰی(۴) خلاصہ وشرح(۵) طحاوی وخزانۃ(۶) المفتین وغیرہا معتبرات میں کہ اجلہ متون وشروح وفتاوٰی مذہب سے ہیں اُسی پر جزم واعتماد کیا۔