Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
18 - 157
مسئلہ (۲۶۲)از فتح گڈہ محلہ سنگت ضلع فرخ آباد مسؤلہ شہاب الدین صاحب۱۶محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ یہاں چند پنچایتی قومیں بتعداد کثیر بلحاظ اپنے اپنے گروہ کے تعداد کے آباد ہیں اور ہر ایک جمعیت وہی مشہور نظام اپنی برادری کا رکھتی ہے جو قریب قریب ہر ایک مقام پر ایسی جمعیتوں میں رائج ہیں یعنی کسی سے کوئی امر خلاف پیش آنے پر جو متعلق برادری ہو اپنے چودھری کے نوٹس میں لاکر بصورت اجتماعی اس درجہ سزا کا استحقاق واقتدار رکھتی ہے کہ کلام وسلام اور طعام نیز ہر ایک تعلق دُنیوی اُس اختلاف کرنے والے شخص سے ترک کرکے اس کو ہی نہیں بلکہ جو اس کا ہم نوایا جو ہم خیال ہو تاوقتیکہ بعد ادائگی تاوان مقرر شدہ قومی آئندہ کے لئے قابلِ قبول ضمانت نہ پیش کردے یہی زندگی جو حیات کی بدترین نمونہ ہے گزارنے پر مجبور ہوگا، پس جو پنچائتیں ایسا احسن نظام امورات دنیوی میں رکھتی ہوں کیا ازروئے شرع شریف متعلق احکامات دینی بالخصوص صوم وصلوٰۃ بعض افراد اپنے اپنے گروہ کو محض موجودہ حالت اسلام سے جو نکبت وادبار کا رُوح فرسا دور ہے متاثر ہوکر (یہ امر منجانب اللہ ہے کہ ایک وقت میں ہر جمعیت کی بعض خدا ترس ہستیوں کو ایسا خیال پیدا ہوا) اگر انہیں قدیمی قواعد وضوابط برادری سے کام لے کر اپنے وابستگان کو پابند صوم وصلوٰۃ ونیز اور کھلے ہوئے نازیبا طرز سے جو سراسر خلافِ اسلام ہی نہیں بلکہ تضحیک کا باعث ہیں۔ مثلاً شرا بخواری وجُواوتاش اور داڑھی منڈوانا حسبِ تعلیم فرقان حمید وفرمودہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم درست کرنے کا مضطرب کُن رجحان ہوتو ان کو یہ اختیارات مرقومہ بالاقدیمہ کا استعمال جبکہ امورات دنیوی میں ہمیشہ سے ہر طرح حاصل ہوگیا حسب تعلیم اسلام اپنے افراد کو حقیقی وسچّا مسلمان بنانے میں جائز ہوگا ونیز بے نمازی کے جنازے کی نماز پڑھی جائے یا نہ؟ اور حکم تہدیدی اس میں کیا ہے؟
الجواب جو تنبیہ وتہدید وتادیب وتشدید اپنے امور دُنیویہ میں کرتے ہیں امور دینیہ میں بدرجہ اولٰی ضروری ہے اگر دنیا کے طالب اور دین سے غافل ہیں اس وجہ سے اس کے تارک اور اُس کے عامل ہیں کیا اچھا ہوکہ اللہ تعالٰی اُن میں بیداری پیدا کرے اور اپنی دنیا سے بڑھ کر دین کا انتظام کریں، جو امور تادیبی اوپر مذکور ہوئے سب جائز ہیں، مگر مالی جرمانہ لینا حرام۔ مسلمان کے جنازہ کی نماز فرض ہے اگرچہ وہ نماز نہ پڑھتا ہو، اس میں حکم تہدیدی صرف اتنا ہے کہ علما وصلحا جن کے  پڑھنے سے اُمیدِ برکت ہوتی ہے بے نماز کا جنازہ خود نہ پڑھیں عوام سے پڑھوادیں۔ لیکن یہ کہ کوئی نہ پڑھے اور اُسے بے نماز دفن کردیں یہ جائز نہیں، ایسا کریں گے تو جتنوں کو اطلاع ہوگی سب گنہگار ہوں گے عالم ہوں خواہ جاہل، اور اُس کی قبر پر نماز پڑھنی واجب ہوگی جب تک اُس کا بدن سلامت رہنا مظنون ہو، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۲۶۳ و ۲۶۴) محمد رضاخان محلہ ربڑی ٹولہ از انجمن خادم الساجدین     مورخہ ۱۶ محرم ۱۳۳۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وہادیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ کچھ غریب مسلمان انجمن خادم الساجدین کے بغرضِ تبلیغ صلوٰۃ شہر سے باہر مواضعات میں ایسی جگہ پر پیدل اور دھوپ اور پیاس کی تکلیف اور بلا کسی نفع ذاتی کے فی سبیل اللہ آدھی رات سے اُٹھ کر گئے اور دوسرے دن واپس آئے، بعض لوگ ان میں بھُوکے پیاسے بھی شامل تھے تقریباً ایک سو مسلمان مستعد نماز ہوگئے ، اُن کے واسطے کیا اجر ہے تاکہ آگے کو ہمت بڑھے۔

(۲)    ایک شخص انجمن سے باہر کا سوال کرتا ہے  یکّہ میں چلو اور اُن سے کرایہ لو، کُل خرچہ کھانے پینے کا لو، اور اس میں رکھا ہی کیا ہے کوئی اپنے لئے نماز پڑھے گا تم کیوں کوشش کررہے ہو، وہ شخص کیسا ہے اور جو لوگوں کو ہمت شکستہ کرے وہ کیسا ہے۔
الجواب: پہلے لوگوں کیلئے ان کی نیتِ نیک پر اجر عظیم ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لان یھدی اللّٰہ بک رجلا خیرلک مماطلعت علیہ الشمس ۱؎ وغربت۔
اللہ تعالٰی ایک شخص کو تیرے ذریعہ سے ہدایت فرمادے تو یہ تیرے لیے تمام رُوئے زمین کی سلطنت ملنے سے بہتر ہے۔ (م)
 (۱؎ جامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۷۲۱۹    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۵/۲۵۹)
ہدایت کو جانے کیلئے آتے جاتے جتنے قدم ان کے پڑیں ہر قدم پر دس نیکیاں ہیں،
قال اللہ تعالٰی:  نکتب ماقدموا واٰثارھم ۲؎۔
ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو نشان پیچھے چھوڑ گئے (م)
 (۲؎ القرآن   سورہ ٰیس ۳۶    آیت ۱۲)
اور جو بغیر سواری نہ جاسکتا ہو اُس کا سواری مانگنا کچھ جُرم نہیں، یوں ہی خرچِ راہ بھی لے سکتا ہے مگر یہ کہنا کہ تم کیوں کوشش کرتے ہو شیطانی قول ہے امر بالمعروف نہی عن المنکر فرض ہے، فرض سے روکنا شیطانی کام ہے۔ بنی اسرائیل میں جنہوں نے مچھلی کا شکار کیا تھا وہ بھی بندر کردئے گئے اور جنہوں نے انہیں نصیحت کرنے کو منع کیا تھا کہ
لم تَعِظُون قومان اللّٰہ مھلکھم اومعذبھم عذابا شدیدا ۳؎
 (کیوں ایسوں کو نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب دے گا۔ م)
 (۳؎ القرآن        سورہ الاعراف ۷    آیت ۱۶۴)
یہ بھی تباہ ہوئے اور نصیحت کرنے والوں نے نجات پائی، اور یہ کہناکہ ''اس میں رکھا ہی کیا ہے'' سب سے سخت کلمہ ہے، اس کہنے والے کو تجدیدِ اسلام وتجدیدِ نکاح چاہئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۶۵)از بریلی محلہ ملوک پور مسؤلہ شفیق احمد خان صاحب۲۶ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ انجمن کا یہ پاس کردہ قانون کہ جو مسجد میں ایک وقت کی نماز کو نہ آوے اور نہ آنے کا کوئی قابلِ اطمینان عذر بھی نہ ہوتو اس کو مسجد میں ایک لوٹا رکھنا پڑے گا۔ یہ حکم شرعی سے ناجائز تو نہیں ہے؟
الجواب: اگر وہ شخص اپنی خوشی سے ہر غیر حاضری کے جرمانہ میں سو۱۰۰ لوٹے یا سو۱۰۰ روپے دے تو بہت اچھا ہے اور اُن روپوں کو مسجد میں صرف کیا جائے لیکن جبراً ایک لوٹا یہ ایک کوڑی نہیں لے سکتا۔
فان المصادرۃ بالمال منسوخ والعمل بالمنسوخ حرام
(کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۶۶) سید عرفان علی صاحب رُکن انجمن خادم الساجدین ربڑی ٹولہ بریلی    ۲ صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جبکہ عشرہ محرم میں نماز کا انتطام منجانب انجمن کیا گیا تھا تو اب اس موقع پر کہ محمد علی وشوکت علی بریلی میں آرہے ہیں اور ۳ بجے سے ۶ بجے تک شہر میں گشت کریں گے اور پھر جوبلی باغ میں تقریر کریں گے پبلک عام کثیر التعداد اُن کے جلوس میں جوبلی باغ میں ہوگی اور اس اثنا میں نمازِ عصر ونمازِ مغرب ونمازِ عشا کاوقت ہوگا پس ایسی حالت میں منجانب انجمن مسلمانوں کو تنبیہ کرنا اور ان کو نماز کے واسطے آمادہ کرنا کوئی نقص شرعی تو نہیں پیدا کرتا ہے، اور نماز کی ترغیب ایسے مواقع پر دلانا موجبِ ثوابِ دارین ہے یا نہیں؟
الجواب: نماز کی ترغیب ہر وقت وہر حال میں ہونی چاہئے اگرچہ ناچ کی مجلس ہو، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۶۷)از شہر (بریلی) محلہ سوداگران مسؤلہ مولوی محمد رضاخان صاحب عرف ننّھے میاں صاحب     ذی القعدہ ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے چند شخصوں کی طرح طرح خوشامدانہ انداز پیار محبت کے طریقے سے نماز باجماعت کی تاکید کی اُن لوگوں کو جب اُس پر کاربند نہ پایا بلکہ اُن میں سے ایک شخص نے دو۲ مرتبہ ترکِ نماز کا اقرار زید کے سامنے کیا عشاء کی جبکہ صلاۃ ہو چکی زید اُنہیں لوگوں کے پاس بیٹھا تھا سب سے نماز کے واسطے کہا ایک شخص نے جواب دیا ہم ابھی آتے ہیں کوئی بیماری یا مجبوری نہ تھی جس نے کہاتھا ہم ابھی آتے ہیں وہ نہ آیا بعد فجر اس سے پُوچھا عشا کی نماز کہاں پڑھی؟ جواب دیا کہ میں نماز کے معاملہ میں جھُوٹ نہ بولوں گا مَیں نے نہیں پڑھی۔ صبح کی نماز کیلئے اکثر زید اِن سب صاحبوں کو جگایا کرتا بعض آتے اور بعض ہوشیار ہوکر اطمینان دلاکر پھر سوجاتے ان میں سے ایک شخص ایک یا دومرتبہ پاخانے گیا فارغ ہوکر پھر سورہا ایسا چند بار کا زید کا عینی مشاہدہ ہے ایک شہادت زید کو ملی کہ ہواخوری کو وقتِ مغرب اُن صاحبوں کا پورا مجمع جنگل میں گیا، یہ شاہد بھی ساتھ تھا، شاہد کے سوا سب نے ہنسی مذاق میں نماز کھودی ان کی متعدد مرتبہ ایسی حرکات دیکھ کر سمجھایا کہ تم لوگ اپنے وطنِ عزیر واقربأ کو چھوڑ کر ہادی بننے کو آئے ہو ہرگز وہ شخص ہادی نہیں ہوسکتا جس کے دل میں عشقِ رسالت نہ ہو، اور نماز سب سے زیادہ حضور کو محبوب۔ نماز پڑھو یہ تمہارے ساتھ ہرجگہ بھلائی کرے گی۔ جب اس پر بھی کاربند نہ ہُوئے تو زید نے اُن سے اُنہوں نے زید سے ترک کلام کردیا پھر ایک مرتبہ زید نے کہا کہ
من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر ۱؎
کے تم مرتکب ہو اور یہ تین سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا مذہب ہے تم نماز کی توہین کرتے ہو اللہ تماری نماز جنازہ نہ ہونے دے میرے عقیدہ میں بارادہ ترک کرنے والا کافر ہے اس پر زید کی نسبت کیا حکم ہے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب کریم تارک صلاۃ کی تکفیر میں سکوت ہے یا تارک صلاۃ اپنے دامنِ رحمت میں لے کر کفر سے بچاتے ہیں۔ جب زید پر اعتراض ہوکہ مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں تارکِ صلاۃ کافر نہیں تم امامِ برحق پر فتوٰی لگاؤ۔ اُس نے جواب دیا کہ میرے باپ کا یہ حکم نہیں، نہ اس سے میری مراد امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سرکار سے علیحدہ چلنا تھا بلکہ زجراً کہا تو اس کہنے والے پر کیا حکم ہوگا؟ اور اگر کوئی حنفی جبکہ امام برحق کا حکم تارکِ صلاۃ پر تکفیر کا نہ ہو یہ عقیدہ رکھے کہ تارکِ صلاۃ عمداً کافر ہے اور اس عقیدہ کو ظنی جانے تو اُس پر کیا حکم ہے۔ جنہوں نے زید کے اس قول پر یوں تعریضاً ایک دوسرے صاحب سے کہا لیجئے اب تو کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں مسلمانوں کو کافر کہا جاتا ہے ایسوں کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
(۱؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۸۰۸۷    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۶/۱۰۲)
الجواب : بلاشبہہ صدہا صحابہ کرام وتابعین عظام ومجتہدین اعلام وائمہ اسلام علیہم الرضوان کا یہی مذہب ہے کہ قصداً تارکِ صلاۃ کافر ہے اور یہی متعدد صحیح حدیثوں میں منصوص اور خود قرآن کریم سے مستفاد:
واقیموا الصّلٰوۃ ولاتکونوا من المشرکین ۱؎o
نماز قائم کرو اور کافروں سے نہ ہو جاؤ۔ (م)
 (۱؎ القرآن    سورہ الروم ۳۰    آیت ۳۱)
زمانہ سلف صالح خصوصاً صدر اول کے مناسب یہی حکم تھا اُس زمانہ میں ترکِ نماز علامتِ کفر تھا کہ واقع نہ ہوتا تھا مگر کافر سے، جیسے اب زنار باندھنا یا قشقہ لگانا علامت کفر ہے۔ جب وہ زمانہ خیر گزرگیا اور لوگوں میں تہاون آیا وہ علامت ہونا جاتا رہا اور اصل حکم نے عود کیا کہ ترکِ نماز فی نفسہٖ کفر نہیں جب تک اُسے ہلکا یا حلال نہ جانے یا فرضیتِ نماز سے منکر نہ ہو، یہی مذہب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے۔

حنفی کہ ظنی طور پر اس کے خلاف کا معتقد ہو خاطی ضرور ہے کہ اب یہ حکم خلافِ تحقیق ونامنصور ہے مگر وہ اس کے سبب نہ معاذاللہ گمراہ ٹھرے گا نہ حنفیت سے خارج کہ مسئلہ فقہی نہیں اور اکابر صحابہ وائمہ کے موافق ہے۔

اور معترضین کا کہنا کہ تم امام برحق پر فتوٰی لگاؤ، محض جہالت اور شانِ امام میں گستاخی ہے۔ کیا صدہا صحابہ وائمہ کا وہ فتوٰی معاذاللہ حضرات امام پر لگتا ہے۔ عمداً تارکِ صلاۃ پر لگتا ہے نہ کہ اُسے کافر نہ جاننے پر۔

معترضین اگر خوفِ خدا کرتے تو انہیں اس کی شکایت نہ ہوتی کہ کفر کے فتوے لگنے لگے بلکہ اس کا خوف ہوتا کہ صدہا صحابہ وائمہ اُن کے کفر پر فتوے دے رہے ہیں۔ کیا محال ہے کہ عنداللہ اُنہی کا فتوٰی حق ہو، مسائل اختلافیہ ائمہ میں حق دائر ہوتا ہے کسی کو یقینا خطا پر نہیں کہہ سکتے۔

غرض معترضین پر فرض ہے کہ توبہ کریں نماز کے پابند ہوں فتواے صدہا صحابہ وائمہ سے ڈریں اور آج اگر وہ نقد وقت نہ ہوتو سوء خاتمہ سے خوف کریں۔ زید نے اگر یہ الفاظ زجراً کہے حرج نہیں، محلِ زجر میں ایسا استعمال ہر قرن وطبقہ کے ائمہ وعلماء بلکہ خود سرکار رسالت علیہ الصلاۃ والتحیۃ سے بکثرت ثابت ہے اور اگر اعتقادِ تکفیر رکھتا ہے تو اس سے باز آئے قولِ صحیح امام اعظم اختیار کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۶۸) از انجمن اسلامیہ قصبہ سانگو وریاست کوٹہ راجپوتانہ    ۲۴/ ربیع الاوّل شریف ۱۳۳۵ھ

یہاں ایک مولوی صاحب آئے اور یہ بیان کیا کہ بے نمازی کے ہمراہ کھانا کھانا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنا نیز وہ بیمار ہوجائے تو اس کے گھر جانا بہت بڑا ثواب ہے، بعضے علماء اس سے اجتناب اور اُس پر کفر اور قید کا فتوٰی دیتے ہیں محض غلطی پر ہیں۔
الجواب:  بے نماز کو ہمارے امام نے کافر نہ کہا مگر بہت صحابہ کرام وتابعین عظام وائمہ اعلام نے اُس کی تکفیر کی، اور خود صحیح حدیث میں ارشاد:
من ترک الصلاۃ متعمدا فقدکفر جہارا ۱؎۔
جس نے قصداً نماز ترک کی وہ علانیہ کافر ہوگیا۔ (م)
 (۱؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۸۵۸۷    مطبوعہ دارالمعرفت، البیروت    ۶/۱۰۲)

(۲؎ معجم اوسط،        حدیث نمبر ۳۳۷۲    مکتبہ المعارف ریاض     ۴/۲۱۱)
جو ائمہ اُس کی تکفیر کرتے ہیں اُن کے نزدیک اُس کی عیادت کو جانا بھی ناجائز ہوگا اُس کے جنازہ کی نماز بھی ناجائز ہوگی ہمارے امام کہ تکفیر نہیں فرماتے اُن کے نزدیک بھی اُسے ضرب شدید وقید مدید کا حکم ہے جس کا اختیار سلطانِ اسلام کو ہے اور کسی کی عیادت کو جانا واجب نہیں، بہ نظر ر جز اگر بے نماز کی عیادت کو نہ جائیں تو کوئی الزام نہیں۔ ہاں جبکہ ہمارے نزدیک وہ کافر نہیں، فقط فاسق فاجر مرتکبِ کبائر ہے تو اُس کے جنازہ کی نماز ضرور ہے پھر بھی علما وپیشوایان قوم اگر اوروں کی عبرت کیلئے اُس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور بعض عوام سے پڑھوادیں تو یہ بھی مستحسن ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter