Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
17 - 157
مسئلہ ۲۵۵: از پیلی بھیت مدرسۃ الحدیث    ۸ محرم الحرام ۱۳۳۲ھ

بکر نے ایک عالم کے فرمانے سے مسلمانوں کے رُوبرو یہ تجویز پیش کی کہ جو شخص نماز نہ پڑھے اُس کو حقّہ پانی نہ دیا جائے اور جتنے وقت کی نماز نہ پڑھے ایک پیسہ جرمانہ ہونا چاہئے۔ زید نے اس کا یہ جواب دیا کہ اس طور کی نماز پڑھوانی زینہ دوزخ کا ہے اس بارہ میں حکمِ شریعت کیا ہے بینوا توجروا۔
الجواب : حقّہ پانی نہ دینے کی تجویز ٹھیک ہے اور مالی جرمانہ جائز نہیں۔ لانہ شیئ کان ونسخ کمابینہ الامام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالٰی (کیونکہ یہ چیز پہلے تھی لیکن بعد میں منسوخ ہوگئی تھی جیسا کہ امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے۔ ت) مگر زید کا وہ کلمہ بہت بُرا اور سخت بیجا ہے
فان المصادرۃ المالیۃ تجوز عند الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
 (کیونکہ مالی جرمانہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک جائز ہے۔ ت) نماز پڑھوانا زینہ دوزخ نہیں بلکہ نہ پڑھنا۔ زید توبہ کرے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۶: از علی گڑھ کالج کمرہ نمبر ۶ مرسلہ محمد عبدالمجید خان یوسف زئی سرسید کورٹ۲۹ صفر ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرح متین درمیان اس مسئلہ کے کہ ایک مسلمانوں کے مدرسہ میں جہاں انگریزی تعلیم ہوتی ہے پنجگانہ نماز کی سخت تاکید ہے مسجد میں بعد ہر نماز کے ہر طالب علم کی حاضری ایک رجسٹر میں درج ہوتی ہے اور جو غیر حاضر پائے جاتے ہیں اُن پر جُرمانہ ہوتا ہے اس تشریح کے ساتھ کہ فجر، ظہر، عصر اور عشا کی غیر حاضری میں فی نماز دو۲ پیسے فی کس جرمانہ اور مغرب کی غیر حاضری میں فی کس ۲/ جرمانہ ہوگا، آیا یہ طریقہ نماز کی حاضری لینے اور جرمانہ کرنے کا کہاں تک ازروئے شرع جائز ہے اس لحاظ سے کہ طالب علم خصوصا انگریزی کے نماز کی طرف شاید بوجہ اثر نئی روشنی کے رجوع نہ ہوں لہذا ضرورۃً اس قسم کی کارروائی مناسب ہے اور ایسا کیا جاسکنے میں چنداں حرج نہیں ہے آیا یوں صحیح ہے۔ فقط
الجواب: تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ درمختار میں ہے:
لاباخذ مال فی المذھب ۱؎ بحر۔
مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رُو سے جائز نہیں ہے۔ بحر (ت)
 (۱؎ درمختار باب التعزیر    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۲۶)
اُسی میں ہے:وفی المجتبٰی انہ کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ ۲؎۔
اور مجتبٰی میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ کردیا گیا۔ (ت)
 (۲؎  درمختار باب التعزیر    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۲۶)
ردالمحتار میں بحر سے ہے: وافاد فی البزازیۃ، ان معنی التعزیر باخذ المال، علی القول بہ، امساک شیئ من مالہ عندہ مدۃ لینزجر، ثم یعیدہ الحاکم الیہ، لا ان یاخذہ الحاکم لنفسہ اولبیت المال، کمایتوھمہ الظلمۃ، اذلایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۱؂
اور بزازیہ میں افادہ کیا ہے کہ مالی تعزیر کا قول اگر اختیار کیا بھی جائے تو اس کا صرف اتنا ہی مطلب ہے کہ اس کا مال کچھ مدّت کے لئے روک لینا تاکہ وہ باز آجائے، اس کے بعد حاکم اس کا مال لوٹادے، نہ یہ کہ حاکم اپنے لیے لے لے یا بیت المال کیلئے، جیسا کہ ظالم لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ شرعی بسبب کے بغیر کسی کا مال لینا مسلمان کے لئے روا نہیں۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار    باب التعزیر    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۱۹۵ )
ہاں وہ طلبہ جن کو وظیفہ دیا جاتا ہے اُن کے وظیفہ سے وضع کرلینا جائز ہے
فانہ لیس اخذ شیئ من ملکھم بل امتناع تملیک شیئ منھم
 (کیونکہ یہ ان کی ملکیت سے کوئی چیز لینا نہیں ہے بلکہ اس چیز کو ان کے ملک میں جانے سے روکنا ہے۔ ت) یا جو طلبہ فیس نہیں دیتے جس روز جماعت میں حاضر نہ ہوں دوسرے روز ان سے کہا جائے کل تم نے جماعت قضا کی آج بغیر اتنی فیس دیے تم کو سبق نہ دیا جائیگا اور جو ماہوار فیس دیتے ہیں اُس مہینے تو اُن سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، دوسرے مہینے کے شروع پر اُن سے کہا جائے کہ گزشتہ مہینے میں تم نے اتنی جماعتیں قضا کیں آئندہ مہینے تمہیں تعلیم نہ دی جائے گی جب تک اس قدر زائد فیس نہ داخل کرو
وذلک لان الاجارۃ تنعقد شیئا فشیئا
 (اور یہ اس لئے کہ اجارہ بتدریج منعقد ہوتا ہے۔ ت) یا یہ صورت ممکن ہے کہ ہر مہینے کے شروع میں طلبہ کو کوئی خفیف قیمت کی چیز مثلاً قلم یا تھوڑی سی روشنائی یا کاغذ تقسیم کیا جائے اور یہ تقسیم بطور بیع ہو اُس قیمت کو جو انتہائی جرمانہ قضائے جماعت کا اُن کے ذمّے ہوسکے مثلاً یہ قلم سات روپے کو ہم نے تمہارے ہاتھ بیع کیا اور اُن سے کہہ دیا جائے کہ یہ بیع قطعی ہے اس میں کوئی شرط نہیں ہم اس سے جدا ایک وعدہ احسانی تم سے کرتے ہیں کہ اگر تم نے اس مہینے میں بلاعذر صحیح شرعی کوئی جماعت قضا نہ کی تو سرماہ پر یہ زرثمن تمام وکمال تمہیں معاف کردیں گے اس صورت میں بھی قضائے جماعت کی حالت میں وہ ثمن کل یا بعض اُن سے وصول کرلینا جائز ہوگا۔
ولایلزم فساد البیع بالشرط المعھود القائم مقام الملفوظ، لتقدم التصریح بنفیہ، والصریح یفوق الدلالۃ ۲؎، کماافادہ الامام قاضیخان فی فتاواہ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ درمختار    باب المہر    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۲۰۲)
اور شرط معہود سے، جوکہ ملفوظ کے قائم مقام ہو، بیع کا فاسد ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ پہلے اس کی صراحۃً نفی ہوچکی ہے اور صراحت کو دلالت پر ترجیح حاصل ہے جیسا کہ امام قاضیخان نے اپنے فتاوٰی میں افادہ کیا ہے۔ (ت)
مسئلہ ۲۵۶: از بشارت گنج مرسلہ فتح محمد صاحب    ۱۲ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ آیا جہاز پر یا چلتی ریل گاڑی میں نماز کی بابت کیا حکم ہے اگر سنّت وفرض ونفل ادا کیے جائیں تو ہوتے ہیں یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب چلتے جہاز خواہ لنگر کیے ہوئے اور کنارے سے میلوں دُور ہو اُس پر نماز جائز ہے اور ناؤ اگر کنارے پر ٹھہری ہے اور جہاز کی طرح زمین پر نہیں بلکہ پانی پر ہے اور یہ اُتر کر کنارے پر نماز پڑھ سکتا ہے تو ٹھہری ہُوئی ناؤ میں بھی فرض اور وتر اور صبح کی سُنتیں نہ ہوسکیں گے اور چلتی ہوئی میں بدرجہ اولٰی نہ ہوں گے جیسے سیر دریا کے بجرے کنارے کنارے جاتے ہیں اور انہیں روک کر زمین پر نماز پڑھ سکتے ہیں اور اگر اُتر کر کنارے پر نماز نہ پڑھ سکنا اپنی ذاتی معذوری سے ہے تو ہر نماز ہوجائے گی اور اگر کسی کی ممانعت کے سبب ہے تو پڑھ لے اور پھر پھیرے یہی حکم ریل کا ہے ٹھہری ہُوئی ریل میں سب نمازیں جائز ہیں اور چلتی ہوئی میں سنّتِ صبح کے سوا سب سنّت ونفل جائز ہیں مگر فرض ووتر یا صبح کی سنتیں نہیں ہوسکتیں اہتمام کرے کہ ٹھہری میں پڑھے اور دیکھے کہ وقت جاتا ہے پڑھ لے اور جب ٹھہرے پھر پھیرے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۷ تا ۲۵۹:از گوری ڈاج نہ رائے پور ضلع مظفر پور مرسلہ عبدالجبار صاحب    ۳۰رجب ۱۳۳۶ھ

زید پیکر اشیاء مسکرہ حالت حواس خمسہ وطہارت جسم وجامہ وعدم موجودگی بدبو کے مسجد میں نماز اداکرتا ہے پس ان صورتوں میں نماز مقبول ہُوئی یا نہیں وحکم سکر کہاں تک مذہب امام ابوحنیفہ میں ہے۔

(۲) ایک شخص نے چار پیالے تاڑی پی اُسے نشہ نہیں ہُوا اور بدبُو بھی باقی نہیں نماز اداکی ہوئی یا نہیں۔

(۳) نمازِ ظالم وربوٰ خوار مقبول ہے یا نہیں؟ معاصیِ ربٰو خوار وشراب خور میں کسی قدر فرق ہے ونماز جنازہ ربوٰ خوار، شراب خور وظالم مومنین کی جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: طبرانی نے بسند حسن سائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من شرب مسکرا ماکان لم تقبل لہ صلاۃ اربعین یوما ۱؎۔
جو کوئی نشہ کی چیز پئے چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہو۔ (م)
 (۱؎ المعجم الکبیر للطبرانی    حدیث ۶۶۷۲    مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۷/۱۵۴)
مگر وعیدات سب مقید مشیت ہیں
ویغفر مادون ذلک لمن یشاء ۲؎
(اس سے (یعنی شرک سے) کم تر گناہ، جس کے چاہے بخش دے۔ ت)
   ( ۲؎ القرآن، سورہ النساء ۴،    آیت ۴۸)
صورت مذکورہ میں صحتِ نماز وادائے فرض میں شبہہ نہیں رہا قبول محلِ عدل میں اُس کی شرط عظیم ہے
انما یتقبل اللّٰہ من المتقین ۳؎
 (اللہ تعالٰی متقین ہی سے قبول کرتا ہے۔ ت)
 (۳؎ القرآن ، سورہ المائدہ ۵، آیت ۲۷ )
اور مقامِ فضل حدث عن البحر بماشئت ولاحرج
 (سمندر کے جُود وسخا کے بارے میں جو چاہو بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ت) ہے، یہاں رب العزۃ نے حدیہ مقرر فرمائی ہے
حتی تعلموا ماتقولون ۴؎
 (یہاں تک کہ تم جان لو جوکچھ کہہ رہے ہو۔ ت)
(؎ القرآن ، سورہ النساء ۴،    آیت ۴۳)
جب حالت یہ ہو اور شرائط مجتمع، تو زید سے عدمِ قبول پر جزم جہل وجرأت علی اللہ ہے جیسے عمرو غیر شارب سے قبول پر
اتقولون علی اللّٰہ مالا تعلمون ۵؎
 (کیا تم اللہ پر افترا کرتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ ت)
 (۵؎ القرآن ، سورہ الاعراف ۷، آیت ۲۸)
ہاں اجمالاً یوں کہہ سکتے ہیں کہ شارب کی نماز چالیس۴۰ دن قبول نہیں، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا، خالص زید پر حکم باطل ہی ہے جیسے
الّا لعنۃ اللّٰہ علی الظٰلمین ۶؎
 (گواہ رہو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ ت)
 (۶؎ القرآن ، سورہ ہود ۱۱،    آیت ۱۸)
یوں کہنا جائز کہ ظالم ملعون ہیں اور یہ کہنا حرام کہ زید پر لعنت۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
جوابِ سوالِ دوم: نماز بلاشبہہ ہوگئی استجماع شرائط وارتفاع موانع کے بعد جواز پر دلیل طلب کرنا جہالت ہے، جو کہے نہ ہُوئی وہ دلیل دے۔ یہ جہل ومکابرہ وہابیہ کا شیوہ ہے کہ قائلِ جواز سے دلیل طلب کریں اور حرام کہنے کے لئے دلیل کی حاجت نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
جوابِ سوالِ سوم: قبولِ نماز کا جواب جواب اوّل اور فرضیت عہ۱ نماز جواب عہ ۲ سوم سے واضح ربا وشراب دونوں حرام وگناہِ کبیرہ ہیں خمرا گرام الخبائث ہے کہ اسے پی کر جو بھی ہو تھوڑا ہے تو ربا میں حق العبد بھی ہے
عہ ۱: یعنی اس کے جنازہ کی نماز کی فرضیت ۱۲ (م) عہ ۲: یہ سائل کے سوال کے اعتبار سے سوم ہے جو ذبائح میں منقول ہوا ہے۔ (م)
لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۱؎
(باطل طریقہ سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔ ۱
 (۱؎ القرآن    سورہ البقرہ ۲    آیت ۱۸۸)
مسئلہ ۲۶۰: مدرسہ اہل سنّت منظرِ اسلام بریلی مسؤلہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی ۱۲ صفر۱۳۳۷ھ
شخص یک نماز راازوقت تاخیر کند یعنی سستی کند وادا نیز کند قضاے ہفتاد ہزارسال در د وزخ میماند ایں مسئلہ صحیح است یانہ۔
کوئی شخص اگر ایک نماز میں وقت سے تاخیر کرے یعنی سُستی کرے، اگرچہ بعد میں ادا کرلے تو اس کو دوزخ میں اتنا رہنا پڑے گا کہ ستّر ہزار سالوں کی نماز اس دوران قضا کی جاسکے کیا یہ مسئلہ صحیح ہے یا نہیں؟۔ (ت)
الجواب : تاخیر آنچناں کہ بلاعذر شرعی از وقت برآرد وقضاکند بلاشبہہ حرام وفسق وکبیرہ است عذاب ومغفرتش مفوض بمشیت است وہیچ مسلمان بیش ازعمر دنیا کہ ہفت ہزار سال ست دردوزخ نماند، واللہ تعالٰی اعلم۔
عذر شرعی کے بغیر اتنی تاخیر کہ وقت چلاجائے اور قضا کرنی پڑے، بے شک حرام، فسق اور کبیرہ گناہ ہے۔ اس کو عذاب دینا یا بخش دینا اللہ کی مشیت کے سپرد ہے اور کوئی مسلمان دوزخ میں دنیا کی عمر یعنی سات ہزار سال سے زیادہ نہیں رہے گا۔ (ت)
مسئلہ (۲۶۱)حافظ نجم الدین صاح گندہ نالہ شہر بانس بریلی

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ نماز کے واسطے سوتے آدمی کو جگادینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب ضرور ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter