الی غیر ذلک مماعرف فی موضعہ۔ ومن الجادۃ المعروفۃ ردالمحتمل الی المحکم، لاعکسہ، کمالایخفی، فیجب القول بالاسلام۔
اس کے علاوہ اور بھی توجیہات ہیں جن کی تفصیل ان کے مقام پر ملے گی، اور معروف راستہ یہی ہے کہ محتمل کو محکم کی طرف لوٹایا جائے، نہ کہ اس کا اُلٹ، جیسا کہ ظاہر ہے، اس لئے اسلام کا ہی قول کرنا پڑے گا۔ (ت)
ادھر کے بعض دلائل حلیہ وغیرہا میں ذکر فرمائے از انجملہ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:خمس صلوات کتبھن اللّٰہ علی العباد (پانچ نمازیں خدا نے بندوں پر فرض کیں)الٰی قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من لم یأت بھن فلیس لہ عنداللّٰہ عھد ان شاء عذبہ وان شاء ادخلہ الجنۃ ۲؎
(۲؎ سنن النسائی باب المحافظۃ علی الصلوات الخمس نور محمد کارخانہ تجارت کراچی ۱/۸۰)
(جو اُنہیں نہ پڑھے اس کے لئے خدا کے پاس کوئی عہد نہیں اگر چاہے تو اُسے عذاب فرمائے اور چاہے تو جنت میں داخل کرے) رواہ الامام مالک وابوداؤد والنسائی وابن حبان فی صحیحہ (اسے امام مالک، ابوداؤد، نسائی اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ ت) یہ حدیث اُس کے اسلام پر نص قاطع ہے کہ اگر معاذ اللہ کافر ہوتا تو اس کے کہنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ دوسری حدیث میں ہے حضور اکرم سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(۱؎ مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مطبوعہ دارالفکر بیروت ۶/۲۴۰)
دفتر تین۳ ہیں، ایک دفتر میں سے اللہ تعالٰی کچھ نہ بخشے گا اور ایک دفتر کی اللہ عزوجل کو کچھ پرواہ نہیں اور ایک دفتر میں سے اللہ تبارک وتعالٰی کچھ نہ چھوڑے گا، وہ دفتر جس میں سے اللہ عزوجل کچھ نہ بخشے گا دفتر کفر ہے اور وہ جس کی اللہ سبحٰنہ وتعالٰی کو کچھ پرواہ نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اپنے اور اپنے رب کے معاملہ میں مثلاً کسی دن کا روزہ ترک کیا یا کوئی نماز چھوڑ دی کہ اللہ تعالٰی چاہے تو اُسے معاف کردے گا اور درگزر فرمائے گا، اور وہ دفتر جس میں سے کچھ نہ چھوڑے گا وہ حقوق العباد ہیں اُس کا حکم یہ ہے ضرور بدلہ ہونا ہے۔ (م)اسے امام احمد اور حاکم نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا (ت)
بالجملہ وہ فاسق ہے اور سخت فاسق مگر کافر نہیں وہ شرعاً سخت سزاؤں کا مستحق ہے ائمہ ثلٰثہ مالک وشافعی واحمد رضی اللہ تعالٰی عنہم فرماتے ہیں اُسے قتل کیا جائے۔ ہمارے ائمہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے نزدیک فاسق فاجر مرتکب کبیرہ ہے اُسے دائم الحبس کریں یہاں تک کہ توبہ کرے یا قید میں مرجائے امام محبوبی وغیرہ مشایخ حنفیہ فرماتے ہیں کہ اتنا ماریں کہ خُون بہادیں پھر قید کریں یہ تعزیرات یہاں جاری نہیں لہذا اُس کے ساتھ کھانا پینا میل جول سلام کلام وغیرہ معاملات ہی ترک کریں کہ یونہی زجر ہو اسی طرح بنظر زجر ترک عیادت میں مضائقہ نہیں یہودی کی عیادت فرمانی بنظرِ تالیف وہدایت تھی یہاں اس کی عیادت نہ کرنی بنظر زجر ہے، دونوں مقاصد شرعیہ ہیں۔ رہی نماز جنازہ وہ اگرچہ ہر مسلمان غیر ساعی فی الارض بالفساد کے لئے فرض ہے۔
وھذا منہ، کقاتل نفسہ، بل اولی فان قتل نفسہ اشد من قتل مؤمن غیرہ، وقتل المؤمن اکبر عنداللّٰہ من ترک الصلاۃ۔ وقدقال فی الدر: من قتل نفسہ، ولوعمدا، یغسل ویصلی علیہ، بہ یفتی، وان کان اعظم وزراً من قاتل غیرہ ۲؎،
اور یہ انہی میں سے ہے جس طرح خودکشی کرنے والا۔ بلکہ بطریقِ اولٰی، کیونکہ خودکشی کرنا دوسرے مومن کو قتل کرنے سے زیادہ شدید جرم ہے اور مومن کو قتل کرنا نماز چھوڑنے سے بڑا گناہ ہے۔ اور درمختار میں کہا ہے کہ جو اپنے آپ کو قتل کردے، خواہ جان بوجھ کر ہی، اس کو غسل دیا جائے گا اور نماز پڑھی جائے گی،اسی پر فتوٰی ہے، اگرچہ اس کا گناہ دوسرے کو قتل کرنے والے سے بڑا ہے۔
(۲؎ درمختار باب صلوٰۃ الجنازہ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۱۲۲)
قال فی ردالمحتار: بہ یفتی: لانہ فاسق غیر ساعٍ فی الارض بالفساد، وان کان باغیا علی نفسہ، کسائر فساق المسلمین۔ زیلعی ۱؎۔
(۱؎ درمختار باب صلوٰۃ الجنازۃ مطبوعہ مجتبائی مصر ۱/۶۴۳)
شامی میں ہے کہ اسی پر فتوٰی ہے کیونکہ یہ فاسق تو ہے مگر زمین میں فساد پھیلانے والا نہیں، اگرچہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، جس طرح باقی فاسق مسلمان۔ زیلعی۔ (ت)
مگر فرضِ عین نہیں فرض کفایہ ہے پس اگر علما وفضلا باقتدائے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی المدیون وفی قاتل فسہ بغرض زجر وتنبیہ نماز جنازہ بے نماز سے خود جُدا رہیں کوئی حرج نہیں، ہاں یہ نہیں ہوسکتا کہ اصلاً کوئی نہ پڑھے یوں سب آثم وگنہگار ر ہیں گے، مسلمان اگرچہ فاسق ہو اُس کے جنازہ کی نماز فرض ہے الامن استثنی ولیس ھذا منھم (مگر جو مستثنی ہیں، اور یہ ان میں سے نہیں ہے۔ ت) نماز پڑھنا اس پر فرض تھا اور جنازہ کی نماز ہم پر فرض ہے اگر اُس نے اپنا فرض ترک کیا ہم اپنا فرض کیونکر چھوڑ سکتے ہیں
، درمختار میں ہے: ھی فرض علٰی کل مسلم مات، خلا اربعۃ، بغاۃ، وقطاع طریق اذاقتلوا فی الحرب، ومکابر فی مصرلیلا، وخناق خنق غیر مرۃ ۲؎۔
(۲؎ درمختار باب صلوٰۃ الجنازۃ مطبوعہ مصطفی البابی دہلی ۱/۱۲۲)
نماز جنازہ ہر مسلمان کی فرض ہے، جبکہ وہ مرجائے۔ سوائے چار آدمیوں کے، باغی، ڈاکو جبکہ لڑائی میں مارے جائیں، رات کو شہر میں غنڈہ گردی کرنیوالا اور گلا گھُونٹنے والا جس نے کئی مرتبہ یہ کارروائی کی ہو۔ (ت)
اسی طرح غسل دینا، مقابرِ مسلمین میں دفن کرنا اماتنا اللّٰہ تعالٰی علی الاسلام الصادق، انہ رؤف رحیم، اٰمین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۔ اٰمین۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۲ : ۲۸ ذی الحجہ ۱۳۱۲ہجریہ مقدسہ۔
جناب مولوی صاحب دام اقبالکم۔ بعد سلام علیک کے ملتمس ہُوں کہ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس نے نماز کو چھوڑا اُس میں اور مشرک میں کچھ فرق نہیں، تو عرض یہ ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو اکثر لوگ بے نماز ہیں کیا وہ سب لوگ شرک میں داخل ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ جو کچھ آیت وحدیث کا اس بارہ میں حکم ہو تحریر فرمائیے تاکہ معلوم ہو۔ بینوا تؤجروا۔
الجواب: بلاشبہہ حدیث میں آیا ہے کہ ہم میں اور مشرکوں میں فرق نماز کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو نماز کا تارک ہے وہ مشرکوں کے فعل میں اُن کا شریک ہے پھر اگر دل سے بھی نماز کو فرض نہ جانے یا ہلکا سمجھے جب تو سچّا مشرک پورا کافر ہے ورنہ اُس کا یہ کام کافروں مشرکوں کا سا ہے اگرچہ وہ حقیقۃً کافر مشرک نہ ٹھہرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۳: از جُوناگڑھ سرکل مدار المہام مرسلہ مولوی امیر الدین صاحب۲۰ رجب ۱۳۱۶ھ
ایک واعظ برسرِ مجلس بیان کرتا ہے کہ جس شخص نے ایک وقت کی نماز قصداً ترک کی اس نے ستّر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کیا، مستفتی خوب جانتا ہے کہ بے نمازی سے بُرا اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور شرع شریف میں اس کیلئے وعید بھی سخت آئی ہے مگر دریافت طلب یہ امر ہے کہ الفاظ مذکورہ کتاب وسنّت واختلافِ ائمہ سے ثابت ہیں یا نہیں، برتقدیر ثبوت نہ ہونے کے قائل کی نسبت شریعت کا کیا حکم ہے؟
الجواب: معاذ اللہ کسی وقت کی نماز قصداً ترک کرنا سخت کبیرہ شدیدہ وجریمہ عظیمہ ہے جس پر سخت ہولناک جانگزا وعیدیں قرآنِ عظیم واحادیث صحیحہ میں وارد، مگر بدمذہب اگرچہ کیسا ہی نمازی ہو اللہ عزّوجل کے نزدیک سنی بے نماز سے بدر جہا بُرا ہے کہ فسقِ عقیدہ فسقِ عمل سے سخت تر ہے اور صرف گناہانِ جوارح میں کلام کیجئے تو مسلمان کو عمداً ناحق قتل کرنا ترکِ نماز سے سخت تر ہے اُس پر اگر احادیث میں حکم کفر ہے اس پر خود قرآن عظیم میں حکم خلود فی النار ہے
۱؎(، ۱؎ القرآن ۴/۹۳)
والعیاذ باللّٰہ تعالٰی۔ واعظ نے جو مضمون بیان کیا اس کے قریب قریب دربارہ سُور خوار احادیث مرفوعہ حضرت ابوہریرہ وحضرت اسود زہری خال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وحضرت براء بن عازب وحضرت عبداللہ بن سلام وحضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت عبداللہ بن عباس وآثار موقوفہ حضرت امیرالمومنین عثمان غنی وحضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں ابن ماجہ وابن ابی الدنیا وابن جریر وبیہقی وابن مندہ وابونعیم وطبرانی وحاکم وابنِ عساکر وبغوی وعبدالرزاق کے یہاں مروی
وقدذکرناھا بتخاریجھا فی کتاب البیوع من فتاوٰنا
(اس کو ہم نے تمام تخریجوں کے ساتھ اپنے فتاوٰی کی کتاب البیوع میں بیان کیا ہے۔ ت) مگر ان میں سے کسی میں بیت اللہ کا ذکر نہیں، البتہ ایک حدیثِ صحیح میں حطیم کعبہ کا ذکر ہے کہ ظناً زمینِ کعبہ ہے نہ یقینا، اُس میں ماں کا لفظ نہیں۔
امام احمد وطبرانی عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بسندِ صحیح راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:درھم ربا یاکلہ الرجل، وھو یعلم، اشد عنداللّٰہ من ستۃ وثلثین زنیۃ فی الحطیم ۱؎۔
ایک درم سُود کا کہ آدمی دانستہ کھالے اللہ تعالٰی کے نزدیک حطیمِ کعبہ میں چھتیس۳۶ بار زنا کرنے سے سخت تر ہے۔ (م)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن حنظلہ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۵/۲۲۵)
اور دربارہ ترک نماز اگرچہ اس سے سخت تر مذمت ارشاد ہوئی یہاں تک کہ احادیثِ مرفوعہ حضرت جابر بن عبداللہ وحضرت بریدہ اسلمی وحضرت عبادہ بن صامت وحضرت ثوبان وحضرت ابوہریرہ وحضرت عبداللہ بن عمرو حضرت انس بن مالک وحضرت عبداللہ بن عباس وآثار موقوفہ حضرت امیر المومنین علی مرتضٰی وحضرت عبداللہ بن عباس وحضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت جابر بن عبداللہ وحضرت ابودرداء وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم میں احمد ومسلم وابوداؤد ونسائی وابن ماجہ وابنِ حبان وحاکم وطبرانی ومحمد بن نصر مروزی وہروی وبزار وابویعلی وابوبکر بن ابی شیبہ وتاریخ بخاری وابن عبدالبر وغیرہم کے یہاں ترکِ نماز پر صراحۃً حکم کفر وبے دینی مروی
کمافصلہ الامام المنذری فی الترغیب
(جیسا کہ امام منذری نے ترغیب میں پوری تفصیل بیان کی ہے۔ ت) مگر اس بارہ میں وہ الفاظ کہ واعظ نے ذکر کیے اصلاً نظر سے نہ گزرے، واعظ سے سند مانگی جائے اگر سند معتبر پیش نہ کرسکے تو بے ثبوت ایسے ادعاجہل فاضح ہیں اور گناہ واضح والعیاذ باللّٰہ رب العٰلمین واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۴ : از غازی پور محلہ میاں پُورہ مرسلہ منشی علی بخش صاحب محرر دفتر ججی غازی پور۱۷ ذیقعدہ ۱۳۲۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک وقت کی نماز قضا کرنے سے بھی آدمی فاسق کہا جاتا ہے یا نہیں؟
الجواب : ہاں جو ایک وقت کی نماز بھی قصداً بلاعذر شرعی دیدہ ودانستہ قضا کرے فاسق ومرتکب کبیرہ ومستحق جہنم ہے والعیاذ باللّٰہ تعالٰی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔