Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
15 - 157
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم شفاعتی لاھل الکبائر من امتی ۳؎۔
اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے ''اگرچہ زنا کرے، اگرچہ چوری کرے، خواہ ابوذر کی ناک خاک آلُود ہوجائے''۔ (ت)
 (۳؎ مسند احمد بن حنبل    از مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ       مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳/۲۱۳)
اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے ''اگرچہ زنا کرے، اگرچہ چوری کرے، خواہ ابوذر کی ناک خاک آلُود ہوجائے''۔ (ت)

بلکہ مذہبِ معتمد ومحقق میں استحلال بھی علی اطلاقہ کفر نہیں جب تک زنا یا شربِ خمر یا ترک صلاۃ کی طرح اس کی حرمت ضروریاتِ دین سے نہ ہو غرض ضروریات کے سوا کسی شے کا انکار کفر نہیں اگرچہ ثابت بالقواطع ہوکہ عندالتحقیق آدمی کو اسلام سے خارج نہیں کرتا مگر انکار اُس کا جس کی تصدیق نے اُسے دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا اور وہ نہیں مگر ضروریاتِ دین
کماحققہ العلماء المحققون من الائمۃ المتکلمین
 (جیسا کہ ائمہ متکلمین کے محقق علماء نے تحقیق کی ہے۔ ت) ولہذا خلافت خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا منکر مذہب تحقیق میں کافر نہیں حالانکہ اُس کی حقانیت بالیقین قطعیات سے ثابت
وقد فصل القول فی ذلک سیدنا العلامۃ الوالد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی بعض فتاوٰہ
(اس موضوع پر سیدنا علامہ والد ماجد رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض فتاوٰی میں مفصل گفتگو کی ہے۔ ت) بالجملہ اس قدر پر تو اجماعِ اہلِ سنّت ہے کہ ارتکابِ کبیرہ کفر نہیں بااینہمہ تارک الصلاۃ کا کفر واسلام سے ہمارے ائمہ کرام میں مختلف فیہ اقول وباللّٰہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں ۔ ت) اگرچہ کفر تکذیب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی بعض ماجاء بہ من عندربہ جل وعلا کانام ہے اور تکذیب صفت قلب مگر جس طرح اقوال مکفرہ اس تکذیب پر علامت ہوتے اور اُن کی بنا پر حکمِ کفر دیا جاتا ہے یوں ہی بعض افعال بھی اُس کی امارت اور حکم تکفیر کے باعث ہوتے ہیں۔
کالقاء المصحف فی القاذورات والسجود للصنم وقتل النبی والزنا بحضرتہ وکشف العورۃ عند الاذان وقراء ۃ القراٰن علی جھۃ الاستخفاف وکل مادل علی الاستھزاء بالشرع اوالاز دراء بہ۔
جیسا کہ قرآن کریم کو گندگی میں پھینکنا، بُت کے لئے سجدہ کرنا، نبی کو قتل کرنا، اس کے رُوبرو زنا کرنا، اذان سُن کر شرمگاہ کو ننگا کرنا، قرآن کو تحقیر کے انداز میں پڑھنا، اس کے علاوہ ہر وہ عمل جو شریعت کے ساتھ استہزاء واہانت پر دلالت کرے۔ (ت)
یہ حکم اُس اجماع کا منافی نہیں ہوسکتا کہ نفس فعل من حیث ہو مبنائے تکفیر نہیں بلکہ
من حیث کونہ علما علی الجحود الباطنی والتکذیب القلبی، والعیاذ باللّٰہ تعالٰی منہ
 (اس لحاظ سے کہ یہ باطنی انکار اور قلبی تکذیب کی علامت ہے والعیاذ باللہ۔ ت) صدر اول میں ترک نماز بمعنے کف بھی کہ حقیقۃً فعل من الافعال ہے اسی قبیل سے گنا جاتا۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: کان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لایرون شیئامن الاعمال ترکہ کفراً غیر الصّلاۃ ۱؎۔
اصحابِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کو کفر نہ جانتے۔ (م)
 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح    کتاب الصلاۃ    الفصل الثالث    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص۵۹)
رواہ الترمذی والحاکم وقال صحیح علی شرطھما وروی الترمذی عن عبداللّٰہ بن شقیق العضلی مثلہ۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے بھی، اور کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم کی شروط کے مطابق ہے، اور ترمذی نے عبداللہ ابن شقیق عضلی سے بھی ایسی ہی روایت کی ہے۔ (ت)
ولہذا بہت صحابہ وتابعین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین تارک الصلاۃ کو کافر کہتے سیدنا امیر المومنین علی مرتضٰی مشکل کشا کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم فرماتے ہیں: من لم یصل فھو کافر ۲؎
 (جو نماز نہ پڑھے وہ کافر ہے۔ م) رواہ ابن ابی شیبۃ والبخاری فی التاریخ۔
 (۲؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلاۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۸۵)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: من ترک الصلاۃ فقد کفر ۳؎
 (جس نے نماز چھوڑی وہ بیشک کافر ہوگیا۔ م) رواہ محمد بن نصر المروزی وابو عمر بن عبدالبر۔
 (۳؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلاۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر  ۱/۳۸۶)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: من ترک الصلاۃ فلادین لہ ۱؎
(جس نے نماز ترک کی وہ بے دین ہے۔ م) رواہ المروزی۔
 (۱؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۸۵)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: من لم یصل فھو کافر ۲؎ (بے نماز کافر ہے۔ م) رواہ ابوعمر۔
(۲؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر  ۱/۳۸۵)
ابودردا ء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: لا ایمان لمن لاصلاۃ لہ ۳؎
 (بے نماز کیلئے ایمان نہیں۔ م) رواہ ابن عبدالبر۔
 (۳؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۸۶)
ایضاً امام اسحٰق فرماتے ہیں: صح عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان تارک الصلاۃ کافر وکذلک کان رأی اھل العلم من لدن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان تارک الصلاۃ عمدا من غیر عذر حتی یذھب وقتھا کافر ۴؎۔
سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بصحت ثابت ہُوا کہ حضور نے تارک الصلاۃ کو کافر فرمایا اور زمانہ اقدس سے علما کی یہی رائے ہے کہ جو شخص قصداً بے عذر نماز ترک کرے یہاں تک کہ وقت نکل جائے وہ کافر ہے۔ (م)
 (۴؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۸۶ )
اسی طرح امام ابوایوب سختیانی سے مروی ہوا کہ ترک الصلاۃ کفر لایختلف فیہ ۵؎
 (ترکِ نماز بے خلاف کفر ہے۔ م)

ابن حزم کہتا ہے:
 (۵؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۸۶)
قدجاء عن عمرو عبدالرحمٰن بن عوف ومعاذ بن جبل وابی ھریرۃ وغیرھم من الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم ان من ترک صلاۃ فرض واحد متعمدا حتی یخرج وقتھا فھو کافر مرتد، ولایعلم لھؤلاء مخالف ۱؎۔
امیر المومنین عمر فاروق اعظم وحضرت عبدالرحمن بن عوف احد العشرۃ المبشرہ وحضرت معاذ بن جبل امام العلماء وحضرت ابوہریرہ حافظ الصحابہ وغیرہم اصحاب سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین سے وارد ہوا کہ جو شخص ایک نمازِ فرض قصداً چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے وہ کافر مرتد ہے۔ ابنِ حزم کہتا ہے اس حکم میں ان صحابہ کا خلاف کسی صحابی سے معلوم نہیں۔ م) انتہی ۔
 (۱؎ الترغیب والترہیب    من ترک الصلٰو ۃ لعمد    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۹۳)
اور یہی مذہب حکم بن عتیبہ وابوداؤد طیالسی وابوبکر بن ابی شیبہ و زہیر بن حرب اور ائمہ اربعہ سے حضرت سیف السنۃ امام احمد بن حنبل اور ہمارے ائمہ حنفیہ سے امام عبداللہ بن مبارک تلمیذ حضرت امام اعظم اور ہمارے امام کے استاذ الاستاذ امام ابراہیم نخعی وغیرہم ائمہ دین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا ہے۔
ذکر کل ذلک الامام الحافظ زکی الدین عبدالعظیم المنذری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ۔
یہ سب امام حافظ زکی الدین ٍعبدالعظیم منذری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ذکر کیا ہے۔ (ت)
اور اسی کو جمہور ائمہ حنبلیہ نے مختار ومرجح رکھا، امام ابن امیر الحاج حلیہ میں فرماتے ہیں:عند احمد فی الروایۃ المکفرۃ انہ یقتل کفرا، وھی المختارۃ عند جمھور اصحابہ، علی ماذکرہ ابن ھبیرۃ ۲؎۔
امام احمد اپنی تکفیر والی روایت کے مطابق اس بات کے قائل ہیں کہ اس کو کفر کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ یہی روایت ان کے اکثر اصحاب کے نزدیک مختار ہے، جیسا کہ ابن ہبیرہ نے بیان کیا ہے۔ (ت)
 (۲؎ حلیۃ المحلی)
اور بیشک بہت ظواہر نصوص شرعیہ آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ علٰی صاحبہا افضل الصلٰو ۃ والتحیۃ اس مذہب کی مؤید،
کمافصل جملۃ منھا خاتمۃ المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد فی الکتاب المستطاب، الکلام الاوضح فی تفسیرا لم نشرح، وفی سرور القلوب فی ذکر المحبوب، وفی جواھر البیان فی اسرار الارکان وغیرھا من تصانیفہ النقیۃ العلیۃ الرفیعۃ الشان ، اعلی اللّٰہ تعالٰی درجاتہ فی غرفات الجنان، اٰمین!
جیسا کہ ان میں سے کچھ کو تفصیل سے بیان کیا ہے، خاتم المحققین سیدنا والد ماجد نے اپنی عمدہ کتاب الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح میں، اور اسرار القلوب فی ذکر المحبوب میں، اور جواھر البیان فی اسرار الارکان میں اور اپنی دیگر ستھری، بلند مرتبہ وعالی شان کتابوں میں۔ اللہ تعالٰی جنت کے بالا خانوں میں ان کے درجے بلند فرمائے، آمین!

بالجملہ اس قول کو مذاہب اہلسنت سے کسی طرح خارج نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ایک جِم غفیر قدمائے اہلسنت صحابہ وتابعین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا مذہب ہے اور بلاشبہہ وہ اُس وقت وحالت کے لحاظ سے ایک بڑا قوی مذہب تھا صدر اول کے بعد جب اسلام میں ضعف آیا اور بعض عوام کے قلب میں سُستی وکسل نے جگہ پائی، نماز میں کامل چُستی ومستعدی کہ صدر اول میں مطلقاً ہر مسلمان کا شعار دائم تھی اب بعض لوگوں سے چھُوٹ چلی وہ امارت مطلقہ وعلامت فارقہ ہونے کی حالت نہ رہی لہذا جمہور ائمہ نے اُسی اصل اجماعی مؤید بدلائل قاہرہ آیات متکاثرہ واحادیث متواترہ پر عمل واجب جانا کہ مرتکبِ کبیرہ کافر نہیں یہی مذہب ہمارے ائمہ حنفیہ وائمہ شافعیہ وائمہ مالکیہ اور ایک جماعت ائمہ حنبلیہ وغیرہم جماہیر علمائے دین وائمہ معتمدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا ہے کہ اگرچہ تارک نماز کو سخت فاجر جانتے ہیں مگر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتے اور یہی ایک روایت حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ہے اس کی رُو سے یہ مذہب مہذب حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا مجمع علیہ ہے،
حلیہ میں فرمایا: ذھب الجمھور، منھم اصحابنا ومالک والشافعی واحمد فی روایۃ، الی انہ لایکفر۔ ثم اختلفوا فی انہ ھل یقتل بھذا الترک؟ فقال الائمۃ الثلاثۃ، نعم، ثم ھل یکون حداً اوکفراً؟ فالمشھور من مذھب مالک، وبہ قال الشافعی، انہ حد۔ وکذا عند احمد فی ھٰذہ الروایۃ الموافقۃ للجمھور فی عدم الکفر ۱؎۔
جمہور، جن میں ہمارے علماء بھی شامل ہیں اور مالک وشافعی اور ایک روایت کے مطابق احمد بھی، کی رائے یہ ہے کہ اس کو کافر نہیں کہا جائیگا۔ پھر ان میں اختلاف ہے کہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے اس کو قتل کیا جائے گا یا نہیں؟ تو تین اماموں نے کہا ہے کہ ہاں (قتل کیا جائے گا) پھر یہ قتل بطور حد ہوگا یا کفر کی وجہ سے؟ تو مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ بطور حد ہوگا۔ شافعی بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد بھی، اپنی اس روایت کے مطابق جو جمہور کے موافق ہے، یعنی عدمِ کفر والی روایت۔ (ت)
 (۱؎ حلیۃ المحلی)
اور اس طرف بحمداللہ نصوص شرعیہ سے وہ دلائل ہیں جن میں اصلاً تاویل کو گنجائش نہیں بخلاف دلائل مذہب اول کہ اپنے نظائر کثیرہ کی طرح استحلال واستخفاف وجحود وکفران وفعل مثل فعل کفار وغیرہا تاویلات کو اچھی طرح جگہ دے رہے ہیں یعنی فرضیتِ نماز کا انکار کرے یا اُسے ہلکا اور بے قدر جانے یا اُس کا ترک حلال سمجھے تو کافر ہے یا یہ کہ ترکِ نماز سخت کفرانِ نعمت وناشکری ہے۔
کماقال سیدنا سلیمٰن علیہ الصلاۃ والسلام لیبلونی ءاشکرام اکفر ۱؎۔
جیسا کہ سیدنا سلیمٰن علیہ السلام نے فرمایا ''تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار بنتا ہوں یا ناشکرا''یایہ کہ اُس نے کافروں کا سا کام کیا،
 (۱؎ القرآن ،  سورہ النمل ۲۷،  آیت ۴۰)
Flag Counter