بالجملہ مدار کار صحت حدیث مذکور طبرانی وبزار پر ہے اگر وہ صحیح ہے تو ثابت ہوگا کہ معراج شریف سے پہلے کی نمازیں بلکہ ایک نماز بعد کی بھی بے رکوع تھی ورنہ ظاہر احادیث یہی ہے کہ نماز سابق ولا حق باہم یکساں ومتوافق ہیں۔
یہ سب کچھ میرے لیے ظاہر ہوا ہے اور حق کا علم میرے رب کو ہے، اللہ سبحٰنہ وتعالٰی بہتر علم رکھنے والا ہے اور اسی کا علم زیادہ تام اور محکم ہے۔ (ت)
مسئلہ (۲۵۱) اس بنارس محلہ کتواپورہ۔ مرسلہ مولوی حاجی محمد رضا علی صاحب ماہِ رمضان ۱۳۰۸ھ
سوال: خلاصہ فتوائے مولوی صاحب موصوف کہ بطلب تصدیق نزد فقیر فرستادند
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ایک اشتہار جو چھاپا گیا ہے اُس میں لکھا ہے کہ شیخ عبداللہ نامی بماہ ربیع الاول ۱۳۰۷ھ شبِ جمعہ روضہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر بیٹھے تھے اُن کو پیغمبرِ خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اونگھ میں باتیں کیں جب آنکھ کھلی سب مضمون اشتہار کاغذ پر لکھا قبر شریف پر دھرا تھا اور بہت باتیں اُس میں مکتوب میں درباب اس اشتہار کے کیا ارشاد ہے۔ بینوا ایہا العلماء رحمکم اللہ۔
الجواب وھو العلیم
کہتا ہے فقیر محمد رضا علی البنارسی الحنفی اُس میں جو علامات قیامت لکھے ہیں بے شک علامات صغرٰی سب اس زمانہ میں موجود ہیں اور اسلام میں ضعف خصوصاً ہندوستان میں اللہ تعالٰی سب مسلمانوں کو اور فقیر کو تو بہ نصیب کرے مگر اشتہار میں جو لکھا ہے کہ شیخ عبداللہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خواب یا اونگھ میں فرمایا علماء کتب معتبرہ میں لکھتے ہیں اگر کوئی کہے ہم سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خواب میں ایسا فرمایا اگر قائل فاسق ہے تو بلاشک کاذب ہے اور متقی ہے تو دیکھیں گے کہ یہ حکم جو یہ شخص پیغمبر خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتا ہے اگر برابر ہے قرآن وحدیث اور نصوص قطعیہ شرعیہ اور فقہ کے تو یہ قول بھی واجب الاذعان اور واجب الاتباع ہے اور اگر مخالف ہے ہرگز معتبر اور واجب الاتباع نہیں کیونکہ جو کلمہ پیغمبر خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بیداری میں صحابہ کرام سے فرمایا اور متواتر منقول ہے اُسی کا اعتبار کریں گے مخالف کو اَضغاث احلام شمار کریں گے ورنہ تعارض آپ کے کلام میں لازم آئے گا۔
کذا ذکرہ الملا علی قاری فی المقدمۃ السالمۃ فی خوف الخاتمۃ وفی الحرز الثمین والعارف بن ابی جمرۃ الاندلسی المالکی فی بھجۃ النفوس شرح مختصر صحیح البخاری والشھاب احمد الخفاجی الحنفی فی نسیم الریاض وغیرھم فی کتبھم۔
اسی طرح ذکر کیا ہے ملّا علی قاری نے ''المقدمۃ السالمۃ فی خوف الخاتمہ'' اور ''الحرز الثمین'' میں۔ اور عارف ابن ابی جمرہ اندلسی نے ''بہجۃ النفوس'' میں جوکہ مختصر صحیح بخاری کی شرح ہے اور شہاب احمد خفاجی حنفی نے ''نسیم الریاض'' میں، اور دیگر علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں۔ (ت)
اور بھی فرمایا اللہ تعالٰی نے الیوم اکملت لکم دینکم ۱؎ ۔
(آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے)
( ۱؎ القرآن سورۃ المائدۃ ۵ آیت ۳)
کلامِ الٰہی اور کلام رسالت پناہی بعد اکمال کے اب منسوخ نہیں ہوسکتا الغرض کذب اس اشتہار کا کئی طور سے معلوم ہوتا ہے واللّٰہ العلیم الخبیر (اور اللہ علم اور خبر والا ہے) اُس میں لکھا ہے تارک الصلاۃ پر نمازِ جنازہ نہ پڑھیں، غسل نہ دیں، قبرستانِ اہلِ اسلام میں نہ دفن کریں، اُس کے ساتھ کھانا نہ کھائیں، عیادت نہ کریں۔ یہ سب مسائل خلافِ قرآن اور حدیث اور فقہ کے ہیں، خلاف اہلِ سنّت کے ہیں، خوارج سے ملتے ہوئے ہیں، ہمارے مذہب اہل سنّت میں ترکِ نماز گناہِ کبیرہ ہے اور ترکِ فرض اور ارتکابِ کبیرہ سے آدمی کافر نہیں ہوسکتا، ہاں کبیرہ کو کبیرہ نہ جانے تو بلاشک کافر ہے، منکر نصوصِ قطعیہ کا بلاشک کافر ہے، اور کلمہ گو کوغسل نہ دینا، نمازِ جنازہ نہ پڑھنا، مقابرِ اہلِ اسلام میں دفن نہ کرنا نہایت مذموم اور بڑے فساد اور بڑی اہانت کی بات ہے۔ اور تارک الصلاۃ کے کفر واسلام کا بحث درمیان ائمہ اربعہ کے معلوم ہے ہمارے امام اعظم تارک الصلاۃ کو کافر نہیں کہتے فاسق کہتے ہیں اور اس کو ادلہ شرعیہ سے ثابت کرتے ہیں اور مراد کُفر سے تعذیب مثل کفار کے ہے۔
کذا فی شرح الفقہ الاکبر ۲؎ لملاّ علی قاری ومیزان الشعرانی ورحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ وشرح الشیخ عبدالحق للمشکٰوۃ وغیرھا من الکتب المعتبرات۔
(۲؎ شرح الفقہ الاکبر لملّا علی قاری المعاصی تضر مرتکبہا الخ مصطفی البابی مصر ص۷۷)
ملّا علی قاری کی شرح فقہ اکبر میں،امام شعرانی کی میزان میں، رحمۃ الامّہ فی اختلاف الائمہ میں، شیخ عبدالحق کی شرح مشکوٰۃ میں اور دوسری معتبر کتابوں میں اسی طرح مذکور ہے۔ (ت)
اور نماز جنازہ تارک الصلاۃ پر چاہیے۔
قال اللہ تعالٰی: ولاتصل علٰی احد منھم مات ابدا ۱؎
(اور نہ نماز پڑھئے ان میں سے کسی ایک پر جو مرجائے، کبھی بھی۔) اس آیت میں منع صلاۃ اُوپر کافر کے ہے نہ مومن کے اور تارک الصلوٰہ کو قبرستان مسلمانوں میں دفن کرنا چاہئے
کذافی شرح المشکٰوۃ لعبد الحق الدھلوی وتکمیل الایمان
(عبدالحق دہلوی کی شرح مشکوٰۃ میں اور تکمیل الایمان میں اسی طرح ہے) اور تارک الصلاۃ نجس نہیں اُس کے ساتھ بیٹھ کر دوسرے برتن میں کھانے میں کیا قباحت ہے، اور عیادت تارک الصلاۃ کی کیسے ممنوع ہوگی جبکہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عیادت یہود کی کی ہے خصوصاً واسطے تالیف قلوب کے بلاشک جائز ہے
(حدیث میں اسی طرح ہے، اور اس مسئلے کی تحقیق صحاح ستّہ اور ان کی شروح میں ہے) بالجملہ نزدیک فقیر کے کل وصیت نامہ پر لوگ عمل کریں اور اللہ سے ڈریں مگر جو مسائل مخالف فقہ اور نصوص قطیعہ کے ہیں اُس پر ہرگز عمل نہ کریں ورنہ ثواب کے عوض میں عذاب ہاتھ آوے گا،
(۱؎ القرآن سورہ التوبہ ۹ آیت ۸۴)
(۲؎ مشکوٰۃ المصابیح باب عیادۃ المریض الفصل الاول مطبوعہ مجتبائی دہلی ص۱۳۴)
اے ہمارے رب! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کا فیصلہ فرمادے۔ تُو بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے، ہدایت دے ہمیں سیدھے راستے کی۔ آخر سورۃ تک۔
الجواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قال الفقیر عبد المصطفی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی غفراللّٰہ تعالٰی لہ ولاسلافہ وبارک فیہ وفی اخلافہ۔ اٰمین!
کہتا ہے فقیر عبدالمصطفٰی احمد رضا محمدی، سُنّی، حنفی، قادری، بریلوی، اللہ تعالٰی اس کو اور اس کے اسلاف کو بخشے اور اس کو اور اس کے اخلاف کو برکت عطا فرمائے۔ آمین!
حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہونا اگرچہ بلاشبہہ حق ہوتا ہے یہ خواب کبھی اضغاث احلام سے نہیں ہوتی۔ حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ فرماتے ہیں:
من راٰنی فی المنام فقد راٰنی فان الشیطان لایتمثل بی ۱؎۔
جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے مُجھی کو دیکھا کہ شیطان میری مثال بن کر نہیں آسکتا۔ (م)
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من راٰنی فی المنام الخ مطبوعہ مجتبائی لاہور۲/۵۲)
رواہ احمد والبخاری والترمذی عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ اس کو احمد، بخاری اور ترمذی نے انس ابن مالک سے روایت کیا ہے۔ (ت)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم: من راٰنی فقدراٰی الحق فان الشیطان لایتریأبی ۲؎۔
جس نے مجھے دیکھا اُس نے حق دیکھا کہ شیطان میری وضع نہ بنائے گا۔ (م)
(۲؎ صحیح البخاری باب من رای النبی فی المنام ،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۱۰۳۶)
رواہ احمد والشیخان عن ابی قتادۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والاحادیث فی ھذا المعنی متواترۃ۔ اس کو احمد اور بخاری ومسلم نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے، اور اس مفہوم کی احادیث متواتر ہیں۔ (ت)
مگر از انجا کہ حالتِ خواب میں ہوش وحواس عالم بیداری کی طرح ضبط وتیقظ پر نہیں ہوتے، لہذا خواب میں جو ارشاد سُنے مثل سماع بیداری مورث یقین نہیں ہوتا اس کا ضابطہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جو ارشادات بیداری میں ثابت ہوچکے اُن پر عرض کریں اگر اُن سے مخالف نہیں
فبھا سواء وجد مطابقۃ الصریح اولا
(خواہ صراحۃً مطابقت ہو یا نہ۔ ت) ایسی حالت میں اس کا ارشاد ماننا چاہئے اور مخالف ہے تو یقین کریں گے کہ صاحبِ خواب کے سُننے میں فرق ہوا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حق فرمایا اور بوجہ تکدر حواس کہ اثرِ خواب ہے اُس کے سُننے میں غلط آیا جیسے ایک شخص نے خواب دیکھا کہ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُسے میکشی کا حکم دیتے ہیں۔ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا حضور نے میکشی سے نہی فرمائی تیرے سُننے میں اُلٹی آئی، اس امر میں فاسق ومتقی برابر ہیں، نہ متقی کا سماع واجب الصحۃنہ فاسق کا بیان یقینی الکذب بلکہ ضابطہ مطلقاً یہی ہے جو مذکور ہوا پھر کافہ اہلسنت وجماعت کا اجماع قطعی ہے کہ مرتکبِ کبیرہ کافر نہیں۔
قال اللّٰہ عزوجل وان طائفتٰن من المؤمنین اقتتلوا ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ''اور اگر مؤمنوں کی دو۲ جماعتیں لڑ پڑیں''۔ (ت)
(۱؎ القرآن سورۃ الحجرات ۴۹ آیت ۹)
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وان زنی وان سرق علی رغم انف ابی ذر ۲؎۔
اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے ''اگرچہ زنا کرے، اگرچہ چوری کرے، خواہ ابوذر کی ناک خاک آلُود ہوجائے''۔ (ت)
(۲؎ مشکوٰ ۃ المصابیح کتاب الایمان الفصل الاول مطبوعہ مجطبائی دہلی ص۱۴)