فیہ سعید بن خیثم الھلالی، قال الازدی منکر الحدیث عن اسد بن عبداللّٰہ العسری عــہ۔ قال البخاری:لایتابع علٰی حدیثہ۔
اس میں ابن خثیم ہلالی ہے۔ ازدی نے کہا ہے کہ سعید، اسد ابن عبداللہ العسری سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے بخاری نے کہا:اس کی حدیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (ت)
عــہ ھکذا فی الاصل بخط الناسخ وکتب علیہ بعض المصححین لعلہ العنبری اقول الصحیح القسری والعسری لیس بشیئ عثرنا علیہ قط فی الانساب وھو اسد بن عبداللّٰہ بن یزید بن البجلی اخو خالد القسری بفتح القاف وسکون المھملۃ فی حدیثہ لین من الخامسۃ مات سنۃ مائۃ وعشرین روی عن ابیہ وعن یحیی بن عفیف وروی عنہ سعید بن خیثم وسلم بن قیتبۃ وسلیمان بن صالح سلمویہ وکان امیر اعلی خراسان جوادا ممدوحا قال البخاری یتابع فی حدیثہ کذافی التقریب وتھذیب التھذیب ۱۲ فقیر محمد حامد رضا قادری غفرلہ۔
اصل کتاب میں کاتب کا لکھا ہُوا اسی طرح ہے، بعض تصحیح کرنے والوں نے لکھا ہے کہ شاید العنبری ہو اقول (میں کہتا ہوں) میرے نزدیک یہ لفظ القسری ہے العسری کوئی لفظ نہیں۔ انساب میں ہم اس پر اصلاً مطلع نہ ہوسکے، یہ اسد بن عبداللہ بن یزید بن البجلی خالد القسری کے بھائی ہیں قاف پر زبر اور سین پر جزم ہے اس کی حدیث میں کمزوری ہے
پانچویں طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ایک سو بیس۱۲۰ ہجری میں ان کا وصال ہوا انہوں نے اپنے والد اور یحیی بن عفیف الکندی سے روایت کی ہے اور ان سے سعید بن خیثم وسلم بن قتیبہ اور سلیمان بن صالح سلمویہ نے روایت کی ہے یہ خراسان کے امیر تھے بڑے سخی اور لائقِ تعریف تھے۔ بخاری کہتے ہیں کہ ان کی حدیث میں متابعت کی گئی جیسا کہ التقریب والتہذیب میں ہے ۱۲ فقیر محمد حامد رضا قادری غفرلہ (ت)
(اور داؤد نے گمان کیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے تو اس نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی اور رکوع میں گرگیا اور انابت اختیار کی۔ ت) کے ورود میں اگر تامل بھی ہو
فان کثیرا منھم فسروا ھھنا الرکوع بالسجود وان قال الحسین بن الفضل ان معناہ خربعد ماکان راکعا ای سجد
(کیونکہ بہت سے علماء نے یہاں رکوع سے سجود مراد لیا ہے، اگرچہ حسین ابن فضل نے کہا ہے کہ ''گرگیا'' کا معنٰی یہ ہے کہ رکوع کے بعد گرگیا یعنی سجدے میں چلاگیا۔ ت) تو آیہ کریمہ
یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین ۲؎o
(اے مریم! عاجزی اختیار کرو اپنے رب کے رُوبرو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ ت) ظاہرۃ الورود ہے۔
(۱؎ القرآن ۳۸/۲۴)
(۲؎ القرآن سورۃ آل عمران ۳ آیت ۴۳)
معالم میں ہے: انما قدم السجود علی الرکوع لانہ کذلک کان فی شریعتھم، وقیل: بل کان الرکوع قبل السجود فی الشرائع کلھا، ولیس الواو للترتیب بل للجمع ۱؎۔
(۱؎ تفسیر معالم التنزیل تفسیر سورہ آل عمران مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱۔۲/۳۴۷)
کہا گیا ہے کہ یہاں سجدے کا ذکر رکوع سے پہلے اس لئے ہے کہ ان کی شریعت میں اسی طرح تھا اور بعض نے کہا ہے کہ رکوع تمام شریعتوں میں سجدے سے پہلے تھا اور واؤ ترتیب کے لئے نہیں ہے بلکہ جمع کیلئے ہے۔ (ت)
اقول یہاں اگرچہ تاویل رکوع بخشوع ممکن مگر حدیثِ شبِ معراج:
ثم دخلت المسجد فعرفت النبیین مابین قائم و راکع وساجد ۲؎
پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے نبیوں کو جاناکہ کچھ قیام میں ہیں کچھ رکوع میں اور کچھ سجود میں۔
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ مطبعۃ العامرۃ مصر۶/۵۶)
رواہ الحسن بن عرفۃ وابونعیم عن ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ اس کو حسن ابن عرفہ اور ابونعیم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (ت)
جس میں تصریح ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب مسجدِ اقصٰی میں تشریف فرما ہُوئے انبیائے کرام علیہم الصلٰو ۃ والسلام کو ملاحظہ فرمایا کوئی قیام میں ہے کوئی رکوع میں کوئی سجود میں نص مفسر غیر قابل التاویل ہے۔
فانہ یفید التقسیم، ولایجوز ان یکون الخشوع قسیما للقیام والسجود۔ فاندفع ماذکر العلامۃ الزرقانی ھٰھنا حیث قال تحت قولہ مابین قائم وراکع، ای خاشع کخشوع الراکع، فلایرد ان الرکوع من خصائص الامۃ ۳؎ الٰی اٰخر ماقدمنا نقلہ ورأیتنی، کتبت علی ھامشہ، ماحاصلہ ان فیہ مثل ماقدمنا عن الزرقانی نفسہ ان النص یحمل علی حقیقتہ الشرعیۃ مھما امکن، وقد امکن، واختصاص ھذہ الامۃ من بین الامم، لاینفی صدور الرکوع من الانبیاء علیھم الصّلاۃ والسلام، لاسیما بعد الوفاۃ؛ لاسیما بعد ماظھرت شریعۃ نبی الانبیاء صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلیھم وسلم ونسخت شرائعھم عن اٰخرھا۔ وقِرانہ بقیام وسجود ادلُ دلیل علی ان المراد الرکوع الشرعی۔ وکیف یحمل علی اللغوی وھو الخشوع، مع انہ قسم بینھم القیام والرکوع والسجود، اَفَتَری قائمھم وساجدھم غیر خاشع؟ اھ ماکتبت علیہ۔
کیونکہ یہ تقسیم کا فائدہ دیتا ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ خشوع، قیام اور سجود کے بالمقابل ایک قسم ہو۔ اس سے مسترد ہوگئی وہ بات جو علّامہ زرقانی نے یہاں ذکر کی ہے۔ انہوں نے'' کچھ قیام میں'' ''کچھ رکوع میں'' کی شرح کرتے ہُوئے کہا ہے ''یعنی اس طرح خشوع کرنے والے جس طرح رکوع کرنے والا کرتا ہے'' اب یہ اعتراض پیدا نہیں ہوگا کہ رکوع اس امت کی خصوصیات سے ہے...... آخر تک، جیسا کہ ہم پہلے زرقانی سے نقل کرچکے ہیں ۔ اور مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے اس کے حاشیہ پر جو لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اس میں بھی وہی خامی ہے جو ہم زرقانی ہی سے نقل کرچکے ہیں کہ نص جہاں تک ہو سکے اپنی شرعی حقیقت پر حمل کی جائے گی، اور (یہاں شرعی حقیقت مراد لینا) ممکن ہے۔ اور باقی امتوں میں سے اس امت کا رکوع کے ساتھ خاص ہونا، اس بات کے منافی نہیں ہے کہ انبیاء سے رکوع کا صدور ہوتا رہا ہے، خصوصاً ان انبیاء کے وصال کے بعد، خصوصاً نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ظاہر ہونے اور باقی انبیاء کی شریعتیں یکسر منسوخ ہونے کے بعد۔ اور حدیث میں رکوع کا قیام اور سجود کے ساتھ مذکور ہونا، واضح دلیل ہے کہ یہاں شرعی رکوع مراد ہے۔ لغوی رکوع یعنی خشوع مراد ہو بھی کیسے ہوسکتا ہے جبکہ انبیاء کیلئے تین۳ قسم کی عبادات مذکور ہیں یعنی قیام، رکوع اور سجود۔ کیا تمہارے خیال میں جو انبیاء قائم یا ساجد تھے وہ خشوع کرنے والے نہیں تھے؟ میں نے جو کچھ حاشیہ میں لکھا تھا وہ ختم ہوا۔ (ت)
(۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ مطبعۃ العامرۃ مصر ۶/۵۷)
ثمّ اقول: الحدیث ان دلّ علی خلوصلاۃ بنی اسرائیل عن الرکوع، کان ادل علی خلوصلاۃ الامۃ الابرھیمیۃ عنہ، فان ملتنا ھذہ ھی الملۃ الابرھیمیۃ، مع
ان اللّٰہ تعالٰی یقول وعھدنا الٰی ابرٰھیم واسمٰعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود ۱؎ وقال تعالٰی واذ بوأنا لابرھیم مکان البیت ان لاتشرک بی شیئا وطھر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود ۲؎۔
وادعاء ان المراد بالرکع الامۃ المحمدیۃ خاصۃ واضح البعد۔ صلی اللّٰہ تعالٰی علی الجیب واٰلہ وامتہ وبارک وسلّم۔
پھر میں کہتا ہوں کہ (حضرت علی والی) حدیث اگر اس پر دال ہے کہ بنی اسرائیل کی نمازیں رکوع سے خالی تھیں تو ملتِ ابراہیمیہ کی نمازوں کے رکوع سے خالی ہونے پر بطریقِ اولٰی دال ہوگی کیونکہ ہماری ملّت تو ملتِ ابراہیمی ہی ہے باوجودیکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ''اور عہد کیا ہم نے ابراہیم واسمٰعیل کی طرف کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے، اعتکاف کرنے والوں کے لئے اور رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے پاک رکھو''۔ اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے ''اور جب ٹھکانا بنادیا ہم نے ابراہیم کے لئے بیت اللہ کی جگہ کو کہ نہ شریک ٹھہراؤ میرے ساتھ کسی کو اور میرے گھر کو پاک رکھو طواف کرنے والوں کے لئے،قیام کرنے والوں کیلئے اور رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے۔ اور یہ دعوٰی کرنا کہ رکوع کرنے والوں سے مراد صرف امتِ محمدیہ ہے واضح طور پر بعید ہے صلی اللہ علی الحبیب وآلہٖ وامتہٖ وبارک وسلم۔ (ت)
(۱؎ القرآن سورہ البقرۃ ۲ آیت ۱۲۵)
(۲؎ القرآن سورہ الحج ۲۲ آیت ۲۶)
یہ علام نجم الدین محمد بن محمد غیطی امام شیخ الاسلام فقیہ محدث عارف باللہ زکریا انصاری قدس سرہ الشریف کے تلمیذ اور حافظ الشان ابنِ حجر عسقلانی کے تلمیذ التلمیذ اور شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز صاحب کے استاد
سلسلہ حدیث ہیں دیکھو انہوں نے امام ابنِ حجر کا وہ فتوٰی نقل کرکے حدیث کے باطل وموضوع ہونے کو برقرار رکھا پھر بھی فعل کی وصیت فرمائی کہ اولیائے کرام کا اتباع اور اُن کے حکم کا امتثال اور اُن کے افعال سے تبرک نصیب ہو وباللہ التوفیق اسی طرح جناب شیخ مجدد صاحب نے بھی اس کی ہدایت فرمائی جلد ثانی مکتوبات میں لکھتے ہیں: