سجود بھی تھا: کما فی حدیث ایذاء ابی جھل وغیرہ من الکفرۃ، لعنھم اللّٰہ تعالی، حین صلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عند الکعبۃ، فرمقوا سجودہ، فالقوا علیہ مااُلقُوا بہ فی قلیب بدر ملعونین۔ والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ والحدیث معروف فی الصحیحین وغیرھما عن ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، وفیہ من قول الکفار ''یجیئ بہ ثم یمھلہ حتی اذاسجد وضع بین کتفیہ؛ قال: فانبعث اشقاھم فلما سجد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وضعہ بین کتفیہ، وثبت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ساجدا ۱؎۔ الحدیث۔ وقدقال تعالٰی فی سورۃ اقرأ، واسجد واقتربo
جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس میں ابوجہل اور دیگر کفار لعنھم اللّٰہ کی ایذا رسانی کا ذکر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے تو کفار نے اُن کے سجدے پر نگاہ رکھی اور آپ پر وہ کچھ ڈال دیا (یعنی اوجھڑیاں وغیرہ) جس کے بدلے میں بدر کے کنویں میں ملعون کرکے پھینک دئیے گئے۔ اور یہ حدیث صحیحین وغیرہ میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معروف ہے اور اس میں ہے کہ کوئی جاکر اوجھڑیاں لائے پھر محمد کو اتنی مہلت دے کہ وہ سجدے میں چلاجائے، اس وقت اس کے شانوں کے درمیان اوجھڑیاں رکھ دے۔ راوی کہتا ہے کہ ان میں سے جو بہت بدبخت تھا وہ اس کام کیلئے تیار ہوگیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے اوجھڑیاں آپ کے شانوں کے درمیان رکھ دیں اور آپ سجدے میں پڑے رہے۔ الحدیث۔ اور اللہ تعالٰی نے سورۃ اقرأ میں فرمایا ہے: ''اور سجدہ کرو اور قُرب حاصل کرو''۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری باب المرأۃ تطرح علی المصلی شیئا من الاا ذٰی مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۷۴)
جماعت بھی تھی: کماتقدم من حدیث المبعث، ولفظہ عن ابن اسحٰق، ثم قام بہ جبرئیل فصلی بہ، وصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بصلاتہ، (الی ان قال فی خدیجۃ) صلی بھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کماصلی بہ جبرئیل، فصلت بصلاتہ ۱؎۔ اھ
جیسا کہ بعث والی حدیث گزری ہے اور اس کے الفاظ ابنِ اسحٰق کے ہاں اس طرح ہیں ''پھر جبریل آپ کے ساتھ کھڑے ہُوئے اور آپ کو نماز پڑھائی اور رسول اللہ نے جبریل کی نماز کے مطابق نماز پڑھی (یہاں تک کہ خدیجہ کے بارے میں کہا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی جس طرح جبریل نے رسول اللہ کو پڑھائی تھی چنانچہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مطابق نماز پڑھی۔ اھ
(۱؎ سیرت ابن اسحٰق)
وقد قال تعالٰی وطائفۃ من الذین معک ۲؎
اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ''اور ایک جماعت ان لوگوں کی جو تمہارے ساتھ ہے''
(۲؎ القرآن ۷۳/۲۰)
واخرج الشیخان عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما فی حدیث مجیئ الجن الیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اول البعث، انھم اتوہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وھو یصلی باصحابہ صلاۃ الفجر ۳؎،
بخاری ومسلم نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے جس میں ابتداءِ وحی کے دوران رسول اللہ کے پاس جنّات کے آنے کا ذکر ہے۔ اس میں ہے کہ جب جنّات آپ کے پاس آئے اس وقت آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے۔
قال الزرقانی المراد بالفجر الرکعتان اللتان کان یصلیھا قبل طلوع الشمس ۴؎ الخ۔
زرقانی نے کہا ہے کہ فجر کی نماز سے مراد وہ دو۲ رکعتیں ہیں جو طلوعِ آفتاب سے پہلے پڑھا کرتے تھے الخ۔ (ت)
(۴؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الاول ذکر الجن مطبوعہ المطبعۃ العامرۃ مصر ۱/۳۴۹)
جہر بھی تھا: قال تعالٰی قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا اناسمعنا قراٰنا عجبا یھدی الی الرشد فاٰمنّابہ ۵؎،
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ''کہو وحی کی گئی ہے میری جانب کہ جِنوں کی ایک جماعت نے کان لگاکر سُنا تو کہا ہم نے ایک عجیب قرآن سُنا ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے''
(۵؎ القرآن ۷۲/۱۔۲)
وقد کانوا سمعوہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی صلاۃ الفجر، کماتقدم، ومرّ حدیث ابن اسحٰق فی اسلام امیر المؤمنین عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، وروی ابن سنجر فی مسندہ عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ''خرجت اتعرض رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قبل ان اسلم، فوجدتہ قدسبقنی الی المسجد، فقمت خلفہ، فاستفتح سورۃ الحاقۃ، فجعلتُ اتعجّب من تألیف القراٰن، فقلت: ھوشاعر کماقالت قریش، فقرأ انہ لقول رسول کریمo وماھو بقول شاعر قلیلا ماتؤمنونo فقلت: کاھن، علم مافی نفسی، فقرأ ولابقول کاھن قلیلا ماتذکرونo الی آخر السورۃ، فوقع الاسلام فی قلبی کل موقع ۱؎۔
اور جنّات نے رسول اللہ کی یہ قرأت نمازِ فجر میں سُنی تھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اور ابن اسحٰق کی روایت بھی گزرچکی ہے جو امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بارے میں ہے۔ اور ابن اسحٰق نے اپنے مسند میں عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ فرماتے ہیں ''اسلام لانے سے پہلے ایک دن میں رسول اللہ کا سامنا کرنے کے لئے گھر سے نکلا تو آپ اُس وقت مسجد کو جاچکے تھے میں جاکر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا، انہوں نے سورۃ الحاقہ شروع کی تو میں قرآن کی تالیف وترتیب پر حیران رہ گیا اور میں نے دل میں کہا کہ یہ شخص شاعر ہے، اُسی وقت آپ نے یہ آیت پڑھی ''اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے تم بہت کم ایمان لاتے ہو''۔ میں نے سوچا کہ یہ کاہن ہے کہ اس کو میرے دل کی بات معلوم ہوگئی، اُسی وقت آپ نے یہ آیت پڑھی ''نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو سورۃ کے آخر تک - چناچنہ اسلام میرے دل میں پُوری طرح گھر گیا۔
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب مقصد اول اسلامِ عمرِ فاروق مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۱/۳۲۲)
اقول: لکن ذکر ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما فی حدیثہ المذکور نزول الحاقۃ بعد بنی اسرائیل بسبع وعشرین سورۃ، وجعلھا من اواخر ما نزل بمکۃ، ولایظھر الجمع بان بعضھا نزل قدیما فسمعہ عمر قبل ان یسلم وتأخر نزول الباقی، واعتبر ابن عباس بالاکثر، فان امیر المؤمنین یقول فی ھٰذا الحدیث، ان صح: فاستفتح سورۃ الحاقۃ، ویذکر الاٰیات من اواخرھا، ثم یقول الی اٰخر السورۃ، فاللّٰہ تعالٰی اعلم؛
اقول : (میں کہتا ہوں: لیکن ابن عباس نے اپنی مذکورہ روایت میں بیان کیا ہے کہ سورۃ الحاقہ کا نزول اس وقت ہُوا جب سورہ بنی اسرائیل کے بعد ستائیس سورتیں نازل ہوچکی تھیں اور ابن عباس نے الحاقہ کو ان سورتوں میں شمار کیا ہے جو مکّہ کے آخری دور میں نازل ہوئی تھیں (پھر حضرت عمر نے الحاقہ کی آیات اسلام لانے سے پہلےء کس طرح سُن لی تھیں، جبکہ وہ نبوت کے چھٹے سال میں ایمان لائے تھے اور اس وقت یہ سورت نازل ہی نہیں ہُوئی تھی) اور یہ تطبیق کرنا غیر ظاہر ہے کہ ہوسکتا ہے اس کا کچھ حصّہ پہلے نازل ہوا ہو اور حضرت عمر نے اس کو سُن لیا ہو اور باقیماندہ زیادہ تر حصّہ بعد میں نازل ہوا ہو اور حضرت ابن عباس نے اکثر باقیماندہ حصے کے نزول کو ملحوظ رکھا ہو۔ غیر ظاہر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر (اسلامِ عمر والی) یہ حدیث صحیح ہے تو اس میں عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ''پس شروع کی رسول اللہ نے سورۃ الحاقہ، پھر سورۃ کے آخری حصّے کی چند آیات ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ''سورت کے آخر تک'' (یعنی اس روایت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ سورت شروع سے آخر تک اس وقت نازل ہوچکی تھی پھر مندرجہ بالا تطبیق کیسے ظاہر ہوسکتی ہے؟) پس اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بل قال مجاھد فی قولہ تعالٰی فاصدع بماتؤمر ھو الجھر بالقراٰن ۱؎۔ حکاہ فی المواھب من المقصد الاول، قال: قالوا وکان ذلک بعد ثلث سنین من النبوۃ، قال الزرقانی: تبرأ منہ لجزم الحافظ فی سیرتہ بان نزول الاٰیۃ کان فی السنۃ الثالثۃ ۲؎۔
(۱؎ المواہب اللدنیہ الجہر بالدعوۃ المکتب الاسلامی بیروت ۱/۲۲۲ و ۲۲۳)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب مراتب الوحی از مقصد اول مطبعہ العامرہ مصر ۱/۲۸۷)
بلکہ مجاہد نے کہا ہے کہ اللہ تعالٰی کا یہ فرمانا ''(اے نبی!) جس چیز کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے اس کا اعلان کرو: ''اس سے مراد قرآن کو جہراً پڑھنا ہے۔ یہ بات مواہب کے مقصدِ اول میں مذکور ہے۔ صاحبِ مواہب نے کہا: ''کہتے ہیں کہ یہ آیت نبوت کے تین سال گزرنے کے بعد نازل ہوئی''۔ اس کی شرح میں زرقانی نے کہا ہے کہ (''کہتے ہیں'' کہہ کر) ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ حافظ نے اپنی سیرت میں یقین ظاہر کیا ہے کہ یہ آیت نبوت کے تیسرے سال کے دوران نازل ہُوئی تھی۔ (ت)
بالجملہ جہاں تک نظر کی جاتی ہے نمازِ سابق اصول وارکان میں اسی نماز مستقر کے موافق نظر آتی ہے بلکہ حدیث مذکور بلفظ مواہب میں
بعد فکان ذلک اول فرضھا رکعتین
(ابتدا میں نماز کی دو۲ رکعتیں فرض ہُوئی تھیں۔ ت) کے فرمایا:
ثم ان اللّٰہ تعالٰی اقرھا فی السفر کذلک واتمھا فی الحضر ۳؎۔
پھر اللہ تعالٰی نے سفر میں دو۲ رکعتیں برقرار رکھیں اور حضر میں (چار) مکمل کردیں۔ (ت)
شرح زرقانی میں ہے: اقرھا ای شرعھا علی ھیأۃ ماکان یصلیھا ۱؎
قبل۔ ''برقرار رکھیں'' کا مطلب یہ ہے کہ ان دو۲ رکعتوں کواسی طرح مشروع قرار دے دیا جس طرح آپ پہلے سے پڑھتے تھے۔ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب مراتب الوحی مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۱/۷۴۔۲۷۳)
قبل اس سے ظاہر یہ کہ پیش از معراج دو۲ رکعتیں اسی طرح کی تھیں جیسی اب ہیں مگر بعض علماء فرماتے ہیں معراج سے پہلے رکوع اصلاً نہ تھا نہ اس شریعت میں نہ اگلے شرائع میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی اُمتِ مرحومہ کے خصائص سے ہے کہ بعد اسرا عطا ہُوا بلکہ معراج مبارک کی صبح کو جو پہلی نمازِ ظہر پڑھی گئی اُس تک رکوع نہ تھا اُس کے بعد عصر میں اُس کا حکم آیا اور حضور وصحابہ نے ادا فرمایا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسند بزار ومعجم اوسط طبرانی میں امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث اس معنی کو مفید امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی میں فرماتے ہیں:
باب اختصاصہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالرکوع فی الصلاۃ۔ ذکر جماعۃ من المفسرین فی قولہ تعالٰی وارکعوا مع الراکعین، ان مشروعیۃ الرکوع فی الصلاۃ خاص بھذہ الملۃ، وانہ لارکوع فی صلاۃ بنی اسرائیل، ولذا امرھم بالرکوع مع امۃ محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، قلت: وقد یستدل لہ بما اخرجہ البزار والطبرانی فی الاوسط عن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: اول صلاۃ رکعنا فیھا صلوٰۃ العصر، فقلت یارسول اللّٰہ ماھذا؟ قال: بھذا امرت۔ ووجہ الاستدلال انہ صلی قبل ذلک صلاۃ الظھر، وصلی قبل فرض الصلوات الخمس قیام اللیل وغیر ذلک، فکون الصلاۃ السابقۃ بلارکوع قرینۃ لخلّو صلاۃ الامم السابقۃ منہ ۲؎ اھ۔
باب، اس بیان میں کہ رسول اللہ نماز میں رکوع کے ساتھ مختص ہیں۔ مفسرین کی ایک جماعت نے اللہ تعالٰی کے فرمان ''اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ'' کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نماز میں رکوع کا ہونا اس اُمت کے ساتھ خاص ہے، اور بنی اسرائیل کی نماز میں رکوع نہیں تھا، اسی لئے ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع کریں۔ اور اس پر دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بزار نے اور طبرانی نے اوسط میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تخریج کی ہے کہ پہلی نماز جس میں ہم نے رکوع کیا وہ عصر کی نماز تھی، تو ہم نے کہا: ''یارسول اللہ! یہ کیا ہے؟'' تو آپ نے فرمایا: ''مجھے اسی طرح حکم دیا گیا ہے''۔ استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ نے اس سے پہلے ظہر کی نماز پڑھی تھی، اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے قیام لیل بھی کرتے تھے، کچھ اور نوافل بھی پڑھتے تھے، تو ان تمام نمازوں میں رکوع کا نہ ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ پہلی امتوں کی نمازوں میں رکوع نہ تھا اھ (ت)
(۲؎ الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بالرکوع مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/۲۰۵)
شرح زرقانی مقصد خامس میں ہے: الرکوع من خصائص الامۃ، وماصلاہ المصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قبل الاسراء لارکوع فیہ؛ وکذاظھر عقب الاسراء، واول صلاۃ برکوع، العصر بعدھا ۱؎۔
رکوع اس اُمّت کی خصوصیات میں سے ہے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے پہلے جو نمازیں پڑھا کرتے تھے ان میں رکوع نہ تھا، اسی طرح معراج کے بعد جو ظہر پڑھی (اس میں بھی رکوع نہ تھا) اس ظہر کے بعد آپ نے جو عصر پڑھی تو وہ پہلی نماز تھی جس میں رکوع کیا گیا۔ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۶/۵۷)
اقول: یہ حدیثِ طبرانی اگر صحیح یا حسن ہے تو استناد صحیح وحسن ہے ورنہ اس کا صریح معارض حدیث عفیف کندی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موجود کہ وہ زمانہ جاہلیت میں مکہ معظمہ میں آئے کعبہ کے سامنے بیٹھے تھے دن خوب چڑھ گیا تھا کہ ایک جوان تشریف لائے اور آسمان کو دیکھ کر رُوبکعبہ کھڑے ہوگئے ذرا دیر میں ایک لڑکے تشریف لائے وہ اُن کے دہنے ہاتھ پر قائم ہوئے تھوڑی دیر میں ایک بی بی تشریف لائیں وہ پیچھے کھڑی ہُوئیں پھر جوان نے رکوع فرمایا تو یہ دونوں رکوع میں گئے پھر جوان نے سر مبارک اُٹھایا تو ان دونوں نے اُٹھایا جوان سجدے میں گئے تو یہ دونوں بھی گئے انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے حال پُوچھا کہا یہ جوان میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ لڑکے میرے بھتیجے علی اور یہ بی بی خدیجۃ الکبرٰی ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہما، میرے یہ بھتیجے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کے مالک نے انہیں اس دین کا حکم دیا ہے اور اُن کے ساتھ ابھی یہی دو مسلمان ہُوئے ہیں۔
اخرج ابن عدی فی الکامل وابن عساکر فی التاریخ عن عفیف الکندی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: جئت فی الجاھلیۃ الٰی مکۃ، وانا ارید ان ابتاع لاھلی من ثیابھا وعطرھا، فاتیت العباس، وکان رجلا تاجرا، فانی عندہ جالس انظر الی الکعبۃ، وقدکلفت الشمس وارتفعت فی السماء فذھبت اذ اقبل شاب فنظر الی السماء ثم قام مستقبل الکعبۃ، فلم البث الا یسیرا حتی جاء غلام فقام عن یمینہ، ثم لم یلبث الا یسیرا حتی جاء ت امرأۃ فقامت خلفھما، فرکع الشاب فرکع الغلام والمرأۃ، فرفع الشاب فرفع الغلام والمرأۃ، فسجد الشاب فسجد الغلام والمرأۃ، فقلت: یاعباس! امر عظیم، فقال: امرعظیم، تدری من ھذا الشاب؟ ھذا محمد بن عبداللّٰہ، ابن اخی، تدری من ھذا الغلام؟ ھذا علی ابن اخی، تدری من ھذہ المرأۃ؟ ھذہ خدیجۃ بنت خویلد، زوجتہ۔ ان ابن اخی ھذا حدثنی ان ربہ، رب السمٰوٰت والارض، امرہ بھذا الدین۔ ولم یسلم معہ غیرہ ھؤلاء الثلثۃ ۱؎۔
ابنِ عدی نے کامل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں عفیف کندی رضی اللہ عنہ سے تخریج کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ آیا، میں مکہ کے کپڑے اور عطر خریدنا چاہتا تھا اس لئے عباس کے پاس آیا کیونکہ وہ تجارت کیا کرتے تھے ابھی میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور سُورج خوب روشن تھا اور آسمان پر بلند ہوچکا تھا کہ اچانک ایک نوجوان آئے اور آسمان کی طرف دیکھا پھر قبلہ رُو ہوکر کھڑے ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکے آئے اور جوان کے دائیں طرف کھڑے ہوگئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک خاتون آئیں اور دونوں کے پیچھے کھڑی ہوگئیں، جوان نے رکوع کیا تو لڑکے اور خاتون نے بھی رکوع کیا، وہ جوان رکوع سے کھڑے ہوئے تو وہ دونوں بھی کھڑے ہوگئے، جوان سجدے میں گئے تو وہ دونوں بھی سجدے میں چلے گئے۔ میں نے کہا: ''اے عباس! یہ تو کوئی بڑا معاملہ ہے''۔ عباس نے کہا: ''ہاں، بڑا معاملہ ہے، جانتے ہو یہ جوان کون ہے؟ یہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے۔ جانتے ہو یہ لڑکا کون ہے؟ یہ علی ہے میرا بھتیجا۔جانتے ہو یہ خاتون کون ہے؟ یہ خدیجہ بنتِ خویلد ہے، جوان کی بیوی۔ میرے اس بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ اس کے رب نے، جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے، اس کو اِس دین کا حکم دیا ہے، اور ابھی ان تین کے علاوہ کسی نے اس دین سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
(۱؎ الکامل فی ضعفاء الرجال ترجمہ ایاس بن عفیف الکندی مطبوعہ المکتبۃ الاثریۃ شیخوپورہ ۱/۴۱۰)