علّامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں (عـہ۲) فرماتے ہیں:
فی اسنادہ جھالۃ لکنہ اعتضد فصار حسنا ۴؎۔
اس کی اسناد میں جہالت مگر تائید پاکر حسن ہوگئی۔
(عـہ۲) تحت حدیث ابنوا المساجد واخرجوا القمامۃ منھا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
(۴؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر للمناوی حدیث ابنو المساجد کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ ۱/۱۷۰)
افادہ چہاردہم ۱۴:(حصولِ قوت کو صرف دو سندوں سے آنا کافی ہے)حصولِ قوّت کیلئے کچھ بہت سے ہی طرق کی حاجت نہیں صرف دو۲ بھی مل کر قوت پاجاتے ہیں،اس کی ایک مثال ابھی گزری، نیز تیسیر میں فرمایا:
ضعیف لضعف عمروبن واقد لکنہ یقوی بورودہ من طریقین ۱؎۔
یعنی حدیث تو اپنے راوی عمروبن واقد متروک کے باعث ضعیف ہے مگر دو۲ سندوں سے آکر قوّت پاگئی۔
(۱؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر للمناوی حدیث اکرموا المعزٰی کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ ۱/۲۰۴)
اُسی میں حدیث ''اکرموا المعزی وامسحوا برغامھا فانھا من دواب الجنۃ ۲؎
''اسنادہ ضعیف لکن یجبرہ ماقبلہ فیتعاضدان ۳؎۔
(بکری کی عزت کرو اور اس سے مٹی جھاڑوکیونکہ وہ جنتی جانور ہے۔ ت)بروایت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یزید بن نوفلی کے سبب تضعیف کی پھر اس کے شاہد بروایت ابی سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرمایا:سند اس کی بھی ضعیف ہے لیکن پھر پہلی سند اس کی تلافی کرتی ہے تو دو۲ مل کر قوی ہوجائیں گے۔
(۲؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر حدیث ۱۴۲۱ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۲/۹۱)
(۳؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر حدیث اکرمو المعزٰی کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ ۱/۲۰۴)
جامع صغیر میں حدیث ''اکرموا العلماء فانہ ورثۃ الانبیاء ۴؎''
(علماء کا احترام کرو کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ ت) دو۲ طریقوں سے ایراد کی،اوّل: ابن عساکر عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ دوم: خط یعنی الخطیب فی التاریخ عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ علّامہ مناوی وعلّامہ عزیزی نے تیسیر وسراج المنیر میں زیر طریق اول لکھا:
ضعیف لکن یقویہ مابعدہ ۵؎
(ضعیف ہے مگر پچھلی حدیث اسے قوّت دیتی ہے) زیرِ طریق دوم فرمایا:
ضعیف لضعف الضحاک بن حجرۃ لکن یعضدہ ماقبلہ ۶؎
(ضحاک بن حجرۃ کے ضعف سے یہ بھی ضعیف ہے مگر پہلی اسے طاقت بخشتی ہے۔ ت) متتبعِ کلماتِ علماء اس کی بہت مثالیں پائے گا۔
(۴؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر حدیث ۱۴۲۸ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۲/۹۳)
(۵؎ السراج المنیر شرح جامع الصغیر زیرِ حدیث اکرموا العلماء مطبوعہ ازہریہ مصر ۱/۲۷۰)
(۶؎ السراج المنیر شرح جامع الصغیر زیرِ حدیث اکرموا العلماء مطبوعہ ازہریہ مصر ۱/۲۷۰)
افادہ پانزدہم ۱۵: (اہلِ علم کے عمل کرنے سے بھی حدیثِ ضعیف قوی ہوجاتی ہے) اہلِ علم کے عمل کرلینے سے بھی حدیث قوت پاتی ہے اگرچہ سند ضعیف ہو۔ مرقاۃ (عـہ) میں ہے:
رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب والعمل علی ھذا عند اھل العلم، قال النووی واسنادہ ضعیف نقلہ میرک، فکأن الترمذی یرید تقویۃ الحدیث بعمل اھل العلم، والعلم عنداللّٰہ تعالٰی کماقال الشیخ محی الدین ابن العربی انہ بلغنی عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، انہ من قال لاالٰہ الاللّٰہ سبعین الفا، غفراللّٰہ تعالٰی لہ، ومن قیل لہ غفرلہ ایضا، فکنت ذکرت التھلیلۃ بالعدد المروی من غیران انوی لاحد بالخصوص،فحضرت طعاما مع بعض الاصحاب وفیھم شاب مشھوربالکشف، فاذاھو فی اثناء الاکل اظھر البکأ، فسألتہ عن السبب، فقال اری امی فی العذاب،فوھبت فی باطنی ثواب التھلیلۃ المذکورۃ لھا فضحک وقال انی اراھاالاٰن فی حسن المآب فقال الشیخ فعرفت صحۃالحدیث بصحۃ کشفہ وصحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث ۱؎۔
یعنی امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے اور اہلِ علم کا اس پر عمل ہے سید میرک نے امام نووی سے نقل کیا کہ اس کی سند ضعیف ہے توگویا امام ترمذی عملِ اہل علم سے حدیث کو قوت دینا چاہتے ہیں واللہ تعالٰی اعلم اس کی نظیر وہ ہے کہ سیدی شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا مجھے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حدیث پہنچی ہے کہ جو شخص ستّر ہزار بار لاالٰہ الا اللّٰہ کہے اس کی مغفرت ہو اور جس کے لئے پڑھا جائے اس کی مغفرت ہو، میں نے لاالٰہ الاللّٰہ اتنے بار پڑھا تھااُس میں کسی کے لئے خاص نیت نہ کی تھی اپنے بعض رفیقوں کے ساتھ ایک دعوت میں گیا اُن میں ایک جوان کے کشف کا شُہرہ تھاکھاناکھاتے کھاتے رونے لگا میں نے سبب پُوچھا، کہااپنی ماں کو عذاب میں دیکھتا ہُوں، میں نے اپنے دل میں کلمہ کا ثواب اُس کی ماں کو بخش دیا فوراً وہ جوان ہنسنے لگا اور کہا اب میں اُسے اچھی جگہ دیکھتا ہوں، امام محی الدین قدس سرہ فرماتے ہیں تو میں نے حدیث کی صحت اُس جوان کے کشف کی صحت سے پہچانی اور اس کے کشف کی صحت حدیث کی صحت سے جانی۔
عـہ: باب ماعلی الموموم من المتابعۃ اول الفصل الثانی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
(۱؎ مرقات شرح مشکوٰۃ الفصل الثانی باب ماعلی الماموم من المتابعۃ مطبوعہ امدادیہ ملتان ۳/۹۸)
امام سیوطی تعقبات (عـہ) میں امام بیہقی سے ناقل تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض وفی ذلک تقویۃ للحدیث المرفوع ۲؎
(اسے صالحین نے ایک دوسرے سے اخذ کیا اور اُن کے اخذ میں حدیث مرفوع کی تقویت ہے)
(عـہ) باب الصلاۃ حدیث صلاۃ التسبیح ۱۲ منہ
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات باب الصلوٰۃ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۱۳)
اُسی (عـہ) میں فرمایا:قدصرح غیرواحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علٰی مثلہ ۱؎۔
معتمد علما نے تصریح فرمائی ہے کہ اہلِ علم کی موافقت صحتِ حدیث کی دلیل ہوتی ہے اگرچہ اُس کے لئے کوئی سند قابلِ اعتماد نہ ہو۔
یہ ارشاد علما احادیث احکام کے بارے میں ہے پھر احادیثِ فضائل تو احادیثِ فضائل ہیں۔
(عـہ) باب الصلاۃ حدیث من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقداتی بابا من ابواب الکبائر اخرجہ الترمذی وقال حسین ضعفہ احمد وغیرہ والعمل علی ھذا الحدیث عنداھل العلم فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقدصرح غیر واحد ۳؎ الخ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
باب الصلوٰۃ کی اس حدیث کے تحت ذکر ہے جس میں ہے کہ جس نے دو۲ نمازیں بغیر عذر کے جمع کیں اس نے کبائر میں سے ایک کبیرہ کا ارتکاب کیا، اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسین نے کہا احمد وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اہلِ علم کا اس حدیث پر عمل ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث نے اہلِ علم کے قول کے ذریعے قوت حاصل کی ہے اور اس کی تصریح متعدد محدثین نے کی ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
(۱؎ التعقبات علی الموضوعات باب الصلوٰۃ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۱۲)
(۳؎ التعقبات علی الموضوعات باب الصلوٰۃ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۱۲)
افادہ شانزدہم ۱۶: (حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت سند ونہایت صحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:
خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات ۲؎۔
حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
(۲؎ شرح عقائد نسفی بحث تعداد الانبیاء مطبوعہ دارالاشاعت العربیۃ قندھار ص۱۰۱)
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد۱؎
(احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔
(۱؎منح الروض الازہرشرح فقہ اکبر الانبیاء منزھون عن الکباروالصغائر مصطفی البابی مصر ص۵۷)
(دربارہ احکام ضعیف کافی نہیں) دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔
(فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیثِ ضعیف مقبول وکافی ہے) تیسرا مرتبہ فضائل ومناقب کا ہے یہاں باتفاقِ (عـہ۱) علماء ضعیف (عـہ۲)حدیث بھی کافی ہے،مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گایاکسی نبی یاصحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا،یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے،ایسی جگہ صحت حدیث میں کام کرکے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشیئ،جیسے بعض جاہل بول اُٹھے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں،یہ اُن کی نادانی ہے علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں، یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، عزیز ومسلم کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ہے، (عـہ۳) رسالہ قاری ومرقاۃ وشرح ابنِ حجر مکی وتعقبات ولآلی امام سیوطی وقول مسدّد امام عسقلانی کی پانچ عبارتیں افادہ دوم وسوم وچہارم ودہم میں گزریں،عبارتِ تعقبات میں تصریح تھی کہ نہ صرف ضعیف محض بلکہ منکر بھی فضائلِ اعمال میں مقبول ہے،بآنکہ اُس میں ضعف راوی کے ساتھ اپنے سے اوثق کی مخالفت بھی ہوتی ہے کہ تنہا ضعف سے کہیں بدتر ہے،
عـہ۱:ای ولاعبرۃ بمن شذ ۱۲منہ (یعنی کسی شاذ شخص کااعتبار نہیں ۔ت)
عـہ۲: الاجماع المذکور فی الضعیف المطلق کمانحن فیہ ۱۲منہ
عـہ۳:مسئلہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تحقیق وتنقیح فقیر کے رسالہ البشری العاجلہ من تحف اجلہ ورسالہ الاحادیث الراویہ لمدح الامیر المعاویہ ورسالہ عرش الاعزاز والاکرام لاول ملوک الاسلام ورسالہ ذب الاھواء الواہیہ فی باب الامیرمعاویہ وغیرھامیں ہے وفقنااللہ تعالی بمنہ وکرمہ لترصیفھاوتبیینھاونفع بھاوبسائر تصانیفی امۃ الاسلام بفھمھا و بتفہیمھا امین باعظم القدرۃ واسع الرحمۃ امین صلی اللہ تعالی وبارک وسلم علی سیدنامحمدوالہ وصحبہ وسلم ۱۲منہ رضی اللہ تعالی عنہ (م)
امام اجل شیخ العلماء والعرفاء سیدی ابوطالب محمد بن علی مکی قدس اللہ سرہ الملکی کتاب جلیل القدر عظیم الفخر قوت القلوب (عـہ۴) فی معاملۃ المحبوب میں فرماتے ہیں:
الاحادیث فی فضائل الاعمال وتفضیل الاصحاب متقبلۃ محتملۃ علی کل حال مقاطیعھا ومراسیلھا لاتعارض ولاترد، کذلک کان السلف یفعلون ۱؎۔
(۱؎ قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب فصل الحادی والعشرون مطبوعہ دارصادر مصر ۱/۱۷۸)
فضائل اعمال وتفضیلِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی حدیثیں کیسی ہی ہوں ہر حال میں مقبول وماخوذ ہیں مقطوع ہوں خواہ مرسل نہ اُن کی مخالفت کی جائے نہ اُنہیں رَد کریں، ائمہ سلف کا یہی طریقہ تھا۔