امام ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا: حسن صحیح (حسن صحیح ہے۔ ت) اس حدیث کو جو حافظ ابوالفرج نے امام احمد رحمہ اللہ تعالٰی کے ارشاد ''
ولیس لہ اصل ولایثبت عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم''
(اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ت)( کی تبعیت سے لااصل لہ (اس کی کوئی اصل نہیں۔ ت) کہا امام الشان حدیث کا صحیح ہونا ثابت کرکے فرماتے ہیں:
لایلتفت الٰی ماوقع من ابی الفرج ابن الجوزی، حیث ذکر ھذا الحدیث فی الموضوعات، ولم یذکر من طرقہ الاالطریق التی اخرجھا الخلال من طریق ابی الزبیر عن جابر، واعتمد فی بطلانہ علی مانقلہ الخلال عن احمد، فابان ذلک عن قلّۃ اطلاع ابن الجوزی وغلبۃ التقلید علیہ، حتی حکم بوضع الحدیث بمجرد ماجاء عن امامہ، ولوعرضت ھذہ الطرق علی امامہ لاعترف علی ان للحدیث اصلا،ولکنہ لم تقع لہ فلذلک لم ارلہ فی مسندہ، ولافیمایروی عنہ ذکرااصلا لامن طریق ابن عباس ولامن طریق جابرسوی ماسألہ عندالخلال وھو معذور فی جوابہ بالنسبۃ لتلک الطریق بخصوصھا ۱؎ اھ ذکرہ فی اللالی (عـہ)۔
ابوالفرج ابن جوزی کی اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی کہ انہوں نے اس حدیث کو موضوعات میں شامل کیا ہے اور اس کی دیگر اسناد ذکر نہیں کیں ماسوائے اس سند کے جس کے حوالے سے خلال نے ابوالزبیر عن جابر روایت کیا اور اس کے بطلان میں اسی پر اعتماد کرلیا جو خلال نے احمد سے نقل کیا ہے، تو یہ بات ابن جوزی کے قلتِ مطالعہ اور غلبہ تقلید کو واضح کررہی ہے حتی کہ انہوں نے اپنے امام سے منقول محض رائے کی بنیاد پر حدیث کو موضوع کہہ دیا حالانکہ یہ سندیں اگر ان کے امام کے سامنے پیش کی جاتیں تو وہ فی الفور اعتراف کرلیتے کہ حدیث کی اصل ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا اس وجہ سے یہ حدیث اصلاً ان کی مسند میں نہیں آئی اور نہ ہی اُن روایات میں جو ان سے مروی ہیں نہ سند ابن عباس سے اور نہ ہی سند جابر سے ماسوائے اس سند کے جس کے بارے میں خلال نے سوال کیا تھا اور امام احمد اس کے جواب میں معذور ٹھہرے کیونکہ ان کا جواب اسی سند کے اعتبار سے ہے اور اسے لآلی میں ذکر کیا ہے۔ (ت)
(عـہ) فی اوخر النکاح باب النکاح کے آخر میں اس کا ذکر کیا ہے (ت)
(۱؎ اللآلی المصنوعہ کتاب النکاح مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر ۲/۱۷۳)
(نتیجۃ الافادات) بحمداللہ تعالٰی فقیر آستان قادری غفراللہ تعالٰی لہ کے ان گیارہ(۱۱) افادات نے مہرنیمروز وماہِ نیم ماہ کی طرح روشن کردیا کہ احادیثِ تقبیل ابہامین کو وضع وبطلان سے اصلاً کچھ علاقہ نہیں، اُن پندرہ۱۵ عیبوں سے اس کا پاک ہونا تو بدیہی اور یہ بھی صاف ظاہر کہ اس کا مدار کسی وضاع، کذاب یا متہم بالکذب پر نہیں۔ پھر حکمِ وضع محض بے اصل وواجب الدفع، ولہذا علمائے کرام نے صرف ''لایصح'' فرمایا یہاں تک کہ وہابیہ کے امام شوکانی نے بھی بآنکہ ایسے مواقع میں سخت تشدّد اور بہت مسائل میں بے معنی تفرد کی عادت ہے، فوائد مجموعہ میں اسی قدر پر اقتصار کیا اور موضوع کہنے کا راستہ نہ ملا، اگر بالفرض کسی امام معتمد کے کلام میں حکمِ وضع واقع ہُوا ہوتو وہ صرف کسی سند خاص کی نسبت ہوگا نہ اصل حدیث پر جس کے لئے کافی سندیں موجود ہیں جنہیں وضع واضعین سے کچھ تعلق نہیں کہ جہالت وانقطاع اگر ہیں تو مورثِ ضعف نہ کہ مثبت وضع۔ بعونہٖ تعالٰی یہاں تک کی تقریر سے موضوعیتِ حدیث کی نسبت منکرین کی بالاخوانیاں بالابالا گئیں، آگے چلیے وباللہ التوفیق۔
افادہ دوازدہم۱۲: (تعدّدِ طُرق سے ضعیف حدیث قوّت پاتی بلکہ حسن ہوجاتی ہے)حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعف رکھتے ہوں تو ضعیف ضعیف مل کر بھی قوت حاصل کرلیتے ہیں،بلکہ اگر ضعف غایت شدّت وقوّت پر نہ ہوتو جبر نقصان ہوکر حدیث درجہ حسن تک پہنچتی اور مثل صحیح خود احکامِ حلال وحرام میں حجّت ہوجاتی ہے۔
مرقاۃ میں ہے: تعدد (عـہ۱) الطرق یبلغ الحدیث الضعیف الی حد الحسن ۱؎۔
متعدد روایتوں سے آنا حدیثِ ضعیف کو درجہ حسن تک پہنچادیتا ہے۔
(عـہ۱) اٰخر الفصل الثانی، باب مالایجوز من العمل فی الصلاۃ ۱۲ منہ (باب مالایجوز من العمل فی الصلوٰۃ کی فصل ثانی کے آخر میں اسے ذکر کیا ہے۔ ت)
(۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ فصل الثانی من باب مالایجوز من العمل فی صلاۃ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۳/۱۸)
آخر موضوعات کبیر میں فرمایا:
تعدد الطرق ولوضعفت یرقی الحدیث الی الحسن ۲؎۔
طرقِ متعددہ اگرچہ ضعیف ہوں حدیث کو درجہ حسن تک ترقی دیتے ہیں۔
بیشک جمہور محدثین نے حدیث ضعیف کو کثرتِ طرق سے حجت مانا اور اسے کبھی حسن سے ملحق کیا اس قسم کی ضعیف حدیثیں امام بیہقی کے سنن کُبرٰی میں بکثرت پائی جاتی ہیں جسے انہوں نے ائمہ مجتہدین واصحاب ائمہ کے مذاہب پر دلائل بیان کرنے کی غرض سے تالیف فرمایا۔
(عـہ۲) الفصل الثالث من فصول فی الاجوبۃ عن الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
(۳؎ المیزان الکبرٰی للشعرانی فصل ثالث من فصول فی الاجوبۃ عن الامام مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۶۸)
امام ابن حجر مکی صواعقِ محرقہ میں دربارہ حدیث توسعہ علی العیال یومِ عاشوراء امام ابوبکر بیہقی سے ناقل:
ھذہ الاسانید وان کانت ضعیفۃ لکنھا اذاضم بعضھا الٰی بعض احدثت قوۃ ۴؎۔
یہ سندیں اگرچہ سب ضعیف ہیں مگر آپس میں مل کر قوّت پیدا کریں گی۔
(۴؎ الصواعق المحرقہ الباب الحادی عشر فصل اول مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان ص ۱۸۴)
بلکہ امام جلیل جلال سیوطی تعقبات (عـہ۳) میں فرماتے ہیں:
المتروک اوالمنکر اذاتعددت طرقہ ارتقی الی درجۃ الضعیف الغریب، بل ربما ارتقی الی الحسن ۱؎۔
یعنی متروک یا منکر کہ سخت قوی الضعف ہیں یہ بھی تعدد طرق سے ضعیف غریب، بلکہ کبھی حسن کے درجہ تک ترقی کرتی ہیں۔
(عـہ۳) باب المناقب حدیث النظر علی عبادۃ ۱۲ منہ
(۱؎ التعقبات علی الموضوعات باب المناقب مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۷۵)
افادہ سیزدہم۱۳: (حدیث مجہول وحدیث مبہم تعدد طُرق سے حسن ہوجاتی ہے اور وہ جابر ومنجبر ہونے کے صالح ہیں) جہالت راوی بلکہ ابہام بھی اُنہیں کم درجہ کے ضعفوں سے ہے جو تعدد طرق سے منجبر ہوجاتے ہیں اور حدیث کو رتبہ حسن تک ترقی سے مانع نہیں آتے،یہ حدیثیں جابر ومنجبردونوں ہونے کے صالح ہیں،افادہ پنجم میں امام خاتم الحفاظ کا ارشاد گزرا کہ حدیث مبہم حدیث ضعیف سے منجبر ہوگئی، امام الشان کا فرمانا گزرا کہ حدیث مبہم حدیث ضعیف کا جبر نقصان کرے گی۔ ابوالفرج نے حدیث:
لیث عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ولدلہ ثلثۃ اولاد فلم یسم احدھم محمدا فقدجھل ۲؎۔
حضرت مجاہد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے تین۳ بیٹے ہوں اور ان میں سے کسی کا نام محمد نہ رکھے اس نے جہالت سے کام لیا۔ (ت)
پر طعن کیا کہ لیث کو امام احمد وغیرہ نے متروک کیا اور ابن حبان نے مختلط بتایا، امام سیوطی( عـہ۱) نے اس کا شاہد بروایت نضر بن شنقی مرسلاً مسند حارث سے ذکر کرکے ابن القطان سے نضر کا مجہول ہونا نقل کیا، پھر فرمایا:
ھذا المرسل یعضد حدیث ابن عباس ویدخلہ فی قسم المقبول ۳؎۔
یہ مرسل اُس حدیث ابن عباس کی مؤید ہوکر اسے قسم مقبول میں داخل کرے گی۔
(۲؎ کتاب الموضوعات باب التسمیۃ بمحمد مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱/۱۵۴)
(عـہ۱) لآلی کتاب المبتداء
(۳؎ اللآئی المصنوعۃ کتاب المبتدائ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۰۲)