واخرج الطبرانی عن ابی رافع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: صلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، اول یوم الاثنین، وصلت خدیجۃ اٰخرہ، وصلی علی یوم الثلثاء ۱؎۔
اور طبرانی نے ابورافع رضی اللہ عنہ سے تخریج کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے ابتدائی حصّے میں پہلی نماز پڑھی، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سوموار کے آخری حصے میں اور علی رضی اللہ عنہ نے منگل کے دن۔ (ت)
(۱؎ المعجم الکبیر للطبرانی عن عبیداللہ ابن ابی رافع حدیث ۹۵۲ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۱/۳۲۰)
بالجملہ یہ سوال ضرور متوجہ ہے کہ معراج سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے تھے، اقول ملاحظہ آیات واحادیث سے ظاہرکہ وہ نماز اسی انداز کی تھی اُس میں طہارتِ ثوب بھی تھی
قال تعالی فی سورۃ المدثر، وثیابک فطھّر ۲؎o
(اللہ تعالٰی نے سورہ مدثر میں فرمایا ہے ''اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو''۔ ت) وضو بھی تھا کماتقدم اٰنفا (جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ ت) استقبالِ قبلہ بھی تھا،
کمامر من حدیث ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا، و روی ابن اسحٰق فی سیرتہ قال: حدثنی عبداللّٰہ ابن نجیح المکی عن اصحابہ، عطاء ومجاھد وعمن روی ذلک، فساق حدیث اسلام عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، وفیہ، فجعلت امشی رویدا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قائم یصلی یقرؤ القراٰن، حتی قمت فی قبلتہ مستقبلہ، مابینی وبینہ الاثیاب الکعبۃ۔ قال: فلما سمعت القراٰن رق لہ قلبی ۳؎۔ الحدیث۔
جیسا کہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی حدیث گزری ہے۔ اور ابنِ اسحٰق نے اپنی سیرت میں روایت کی ہے کہ حدیث بیان کی مجھ سے عبداللہ ابن نجیح مکی نے اپنے ساتھیوں عطا اور مجاہد سے اور کچھ لوگوں سے جنہوں نے یہ روایت بیان کی ہے۔ اس کے بعد ابنِ اسحٰق نے عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ ذکر کیا ہے اس میں ہے کہ (عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں آہستہ آہستہ چلتا جارہا تھا اور رسول اللہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور قرآن کی تلاوت کررہے تھے یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے آپ کی طرف رُخ کرکے کھڑا ہوگیا، میرے اور آپ کے درمیان کعبے کے غلاف کے سوا کوئی حائل نہیں تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے قرآن سُنا تو میرا دل اس کے لئے نرم ہوگیا۔ الحدیث (ت)
(۲؎ القرآن سورہ المدثر ۷۴ آیت ۴) (۳؎ سیرت ابن اسحٰق)
(اور اللہ تعالٰی نے سورہ اعلٰی میں، جو پہلے نازل ہونے والی سورتو ں میں سے ہے، کہا ہے ''اور یاد کیا اپنے رب کے نام کو پھر نماز پڑھی''۔ ت)
(۲؎ القرآن سورۃالاعلٰی ۸۷آیت ۱۵)
قیام بھی تھا، قال تعالٰی: یایھا المزملo قم الّیل ۳؎
اے اوڑھنے والے! رات کو قیام کیا کرو''
(۳؎ القرآن، سورہ مزمل ۷۳ آیت ۱)
الاٰیات الٰی قولہ جل ذکرہ ان ربک یعلم انک تقوم ادنی من ثلثی الّیل ونصفہ وثلثہ وطائفۃ من الذین معک ۴؎۔
اور اس سے بعد کی آیتیں، اس آیت تک ''بے شک تیرا رب جانتا ہے کہ تو کبھی دو تہائی رات سے کم قیام کرتا ہے کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی رات۔ اور ان لوگوں کی ایک جماعت بھی جو تیرے ساتھ ہے۔ (ت)
(۴؎ القرآن ۷۳/۲۰)
قرأت بھی تھی۔ قال تعالٰی فی سورۃ المزمل فاقرؤا ماتیسر من القراٰن ۵؎
اللہ تعالٰی نے سورہ مزمل میں فرمایا ہے: ''پس پڑھو جتنا قرآن میسر ہوسکے''۔
( ۵؎ القرآن ۷۳/۲۰)
وقال الزرقانی تحت ماتقدم من قول مقاتل رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی، یحتمل انہ کان یقرؤ فیھما بما اٰتاہ من سورۃ اقرء، حتی نزلت الفاتحۃ ۶؎۔
اور مقاتل کا جو قول پہلے گزرا ہے کہ دو۲ رکعتیں صبح کی اور دو۲ رکعتیں رات کی فرض تھیں، اس کے تحت زرقانی نے کہا ہے ''ممکن ہے کہ نزولِ فاتحہ سے پہلے رسول اللہ ان رکعتوں میں سورۃ اقرأ کی وہ آیات پڑھتے ہوں جو نازل ہوچکی تھیں۔ (ت)
(۶؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی لہ علیہ الصلٰو ۃ والسلام المطبعۃ العامرۃ مصر ۱/۲۷۴)
رکوع بھی تھا : علی خلف فیہ، کماسیأتی، وقد تظافرت الاحادیث الحاکیۃ عماقبل الاسراء بصلاۃ رکعات او رکعتین ،منہا ما تقدم اٰنفا من حدیث ابی نعیم فصلی رکعتین ، ومن حدیث غیرہ فکان ذٰلک اول فرضھا رکعتین، وانما سمیت رکعۃ للرکوع۔
لیکن اس میں اختلاف ہے جو عنقریب آرہا ہے۔ اور جن احادیث میں معراج سے پہلے نماز پڑھنے کابیان ہے، ان میں بکثرت رکعات یا دو۲ رکعتوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک تو وہی ہے جو ابھی ابو نعیم کے حوالے سے گزری تھی کہ نماز پڑھی دو رکعتیں۔ اور ابونعیم کے علاوہ ایک دوسرے محدث کی روایت کہ ابتدا میں صرف دو۲ رکعتیں فرض تھیں۔ اور رکعت کی وجہ تسمیہ ہی یہ ہے کہ اس میں رکوع پایا جاتا ہے۔ ت)