بالجملہ اس قدر پر اجماعِ محققین ہے کہ حدیث جب اُن دلائل وقرائن قطعیہ وغالبہ سے خالی ہو اور اُس کا مدار کسی متہم بالکذب پرنہ ہوتو ہرگز کسی طرح اُسے موضوع کہنا ممکن نہیں جو بغیر اس کے حکم بالوضع کردے یا مشدد مفرط ہے یا مخطی غالط یا متعصب مغالط واللّٰہ الھادی وعلیہ اعتمادی۔
افادہ یازدہم:(بارہا موضوع یا ضعیف کہنا صرف ایک سند خاص کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے) جو حدیث فی نفسہٖ ان پندرہ۱۵ دلائل سے منزّہ ہو محدّث اگر اُس پر حکم وضع کرے تو اس سے نفس حدیث پر حکم لازم نہیں بلکہ صرف اُس سند پر جو اُس وقت اس کے پیشِ نظر ہے،بلکہ بارہا اسانید عدیدہ حاضرہ سے فقط ایک سند پر حکم مراد ہوتا ہے یعنی حدیث اگرچہ فی نفسہٖ ثابت ہے، مگر اس سند سے موضوع وباطل اور نہ صرف موضوع بلکہ انصافاًضعیف کہنے میں بھی یہ حاصل حاصِل ائمہِ حدیث نے ان مطالب کی تصریحیں فرمائیں تو کسی عالم کو حکم وضع یا ضعف دیکھ کر خواہی نخواہی یہ سمجھ لینا کہ اصل حدیث باطل یا ضعیف ہے، ناواقفوں کی فہم سخیف ہے،میزان الاعتدال امام ذہبی میں ہے:
ابراھیم بن موسٰی المروزی عن مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہماحدیث ''طلب العلم فریضۃ'' قال احمد بن حنبل ''ھذا کذب'' یعنی بھذا الاسناد والا فالمتن لہ طرق ضعیفۃ ۱؎۔
ابراہیم بن موسٰی المروزی مالک سے نافع سے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی ہیں کہ امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو حدیث طلب العلم فریضۃ کو کذب فرمایااس سے مراد یہ ہے کہ خاص اس سند سے کذب ہے، ورنہ اصل حدیث تو کئی سندوں ضعاف سے وارد ہے۔(ت)
امام شمس الدین ابوالخیر محمدمحمد محمد ابن الجزری استادامام الشان امام ابن حجر عسقلانی رحمہمااللہ تعالٰی نے حصن حصین شریف میں جس کی نسبت فرمایا:
فلیعلم انی ارجو ان یکون جمیع مافیہ صحیحا ۲؎
(معلوم رہے کہ میں امیدکرتاہوں کہ اس کتاب میں جتنی حدیثیں ہیں سب صحیح ہیں)
(۲؎ حصن حصین مقدمہ کتاب نولکشور لکھنؤ ص ۵)
حدیث حاکم وابن مردودیہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ تعزیت نامہ ارسال فرمایاذکر کی، مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری اُس کی شرح حرزثمین میں لکھتے ہیں:
صرح ابن الجوزی بان ھذا الحدیث موضوع ''قلت'' یمکن ان یکون بالنسبۃ الٰی اسنادہ المذکور عندہ موضوعاً ۱؎۔
ابنِ جوزی نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ''میں کہتا ہوں'' ممکن ہے اس مذکورہ سند کے اعتبار سے ان کے نزدیک موضوع ہو۔ (ت)
(۱؎ حرزثمین مع حصن حصین تعزیۃ اہل رسول اللہ عند وفاۃ نولکشور لکھنؤ ص ۴۱۰)
اسی طرح حرزوصین میں ہے، نیز موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں:
مااختلفوا فی انہ موضوع ترکت ذکرہ للحذر من الخطر لاحتمال ان یکون موضوعا من طریق وصحیحا من وجہ اٰخر ۲؎ الخ
جس کے موضوع ہونے میں محدثین کا اختلاف ہے تو میں نے اس حدیث کا ذکر اس خطرہ کے پیشِ نظر ترک کیا کہ ممکن ہے یہ ایک سند کے اعتبارسے موضوع ہو اور دوسری سندکے اعتبار سے صحیح ہو الخ (ت)
علّامہ زرقانی حدیث احیائے ابوین کریمین کی نسبت فرماتے ہیں:
قال السھیلی ان فی اسنادہ مجاھیل وھو یفیدضعفہ فقط،وبہ صرح فی موضع اٰخر من الروض وایدہ بحدیث ولاینافی ھذا توجیہ صحتہ لان مرادہ من غیر ھذا الطریق،ان وجد، اوفی نفس الامر لان الحکم بالضعف وغیرہ انما ھو فی الظاھر ۳؎۔
سہیلی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں راوی مجہول ہیں جو اس کے فقط ضعف پر دال ہیں اور اسی بات کی تصریح الروض میں دوسرے مقام پر کی ہے اور اس کوحدیث کے ساتھ تقویت دی اور یہ صحتِ حدیث کی توجیہ کے منافی نہیں کیونکہ اس کی مراد اس سند کے علاوہ ہے اگر وہ موجود ہو ورنہ نفس الامر کے اعتبار سے کیونکہ ضعف وغیرہ کا حکم ظاہر میں ہوتا ہے۔ (ت)
(۳؎ شرح زرقانی علی المواہب باب وفاۃ امّہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۱/۱۹۶)
(مسواک کے ساتھ نماز بے مسواک کی ستّر۷۰ نمازوں سے بہتر ہے) ابونعیم نے کتاب السواک میں دو۲ جید وصحیح سندوں سے روایت کی، امام ضیاء نے اسے صحیح مختارہ اور حاکم نے صحیح مستدرک میں داخل کیا اور کہا شرطِ مسلم پر صحیح ہے۔ امام احمد وابن خزیمہ وحارث بن ابی اسامہ وابویعلی وابن عدی وبزار وحاکم وبیہقی وابونعیم وغیرہم اجلّہ محدثین نے بطریق عدیدہ واسانید متنوعہ احادیث اُمّ المومنین صدیقہ وعبداللہ بن عباس وعبداللہ بن عمرو جابربن عبداللہ وانس بن مالک وام الدرداء وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تخریج کی، جس کے بعد حدیث پر حکمِ بطلان قطعاً محال، بااینہمہ ابوعمر ابن عبدالبرنے تمہید میں امام ابن معین سے اُس کا بطلان نقل کیا،علّامہ شمس الدین سخاوی مقاصد حسنہ میں اسے ذکر کرکے فرماتے ہیں:
قول ابن عبدالبر فی التمھید عن ابن معین،انہ حدیث باطل، ھو بالنسبۃ لماوقع لہ من طرقہ ۱؎۔
یعنی امام ابن معین کا یہ فرمانا(کہ یہ حدیث باطل ہے اُس سند کی نسبت ہے جو انہیں پہنچی۔)
ورنہ حدیث تو باطل کیا معنے ضعیف بھی نہیں، اقل درجہ حسن ثابت ہے۔
(۴؎ مسند احمد بن حنبل از مسند عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مطبوعہ دارالفکر بیروت ۶/۲۷۲)
(۱؎ المقاصد الحسنۃ للسخاوی حدیث ۶۲۵ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ص ۲۶۳)
اور سُنیے حدیث حسن صحیح مروی سنن ابی داؤد ونسائی وصحیح مختارہ وغیرہا صحاح وسنن : ان رجلا اٰتی النبی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فقال ان امرأتی لاتدفع (عـہ) یدلامس قال طلقھا قال انّی احبھا قال استمتع ۲؎ بھا۔
ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری بیوی کسی بھی چھُونے والے کے ہاتھ کو منع نہیں کرتی۔ فرمایا: اُسے طلاق دے دے۔ عرض کیا: میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: اس سے نفع حاصل کر۔ (ت)
(عـہ) ای کل من سألھا شیئا من طعام اومال اعطتہ ولم ترد ھذا ھوالراجح عندنا فی معنی الحدیث۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ (م)
یعنی جو شخص بھی اس سے طعام یا مال مانگتا ہے وہ اسے دے دیتی ہے رَد نہیں کرتی، حدیث کے معنی میں ہمارے نزدیک یہی راجح ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
کہ باسانید ثقات وموثقین احادیث جابر بن عبداللہ وعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے آئی، امام ذہبی نے مختصر سُنن میں کہا: ''اسنادہ صالح'' (اس کی سند صالح ہے۔ ت) امام عبدالعظیم منذری نے مختصر سنن میں فرمایا:
''رجال اسنادہ محتج بھم فی الصحیحین علی الاتفاق والانفراد ۳؎
(اس روایت کے تمام راوی ایسے ہیں جن سے بخاری ومسلم میں اتفاقا اور انفراداً استدلال کیا ہے۔ (ت)
(۳؎ مختصر سنن ابی داؤد للحافظ المنذری باب النہی عن ترویج من لم یلد من النساء الخ مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل۳/۶)