علامہ عبدالباقی زرقانی شرح مواہب (عـہ۱) لدنیہ میں فرماتے ہیں:
احادیث الدیک حکم ابن الجوزی بوضعھاورد علیہ الحافظ بماحاصلہ انہ لم یتبین لہ الحکم بوضعھااذلیس فیھا وضاع ولاکذاب نعم ھوضعیف من جمیع طرقہ ۳؎۔
روایات دیک (مرغ) کو ابن جوزی نے موضوع قرار دیا ہے اور حافظ نے ان کا رد کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس کا مرفوع قرار دینا بیان نہیں کیاکیونکہ اس میں نہ کوئی وضاع ہے اور نہ کذاب، ہاں وہ جمع طرق کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ (ت)
(۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الثانی آخر الفصل التاسع مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۳/۴۵۰)
عـہ۱: المقصد الثانی آخر الفصل التاسع ۱۲ منہ (م) دوسرے مقصد کی ساتویں فصل کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
اُسی میں حدیث (عـہ۲) کان لایعود الابعد ثلث ۴؎ (سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تین دن کے بعد عیادتِ مریض فرماتے تھے۔ ت) پر اس طعن کے جواب میں کہ اس میں مسلمہ بن علی متروک واقع ہے، فرمایا:
اوردہ ابن الجوزی فی الموضوعات وتعقبوا''بانہ ضعیف فقط،لاموضوع، فان مسلمۃ لم یجرح بکذب کماقالہ الحافظ ولاالتفات لمن غربزخرف القول فقال ھو موضوع کماقال الذھبی وغیرہ ۱؎۔
ابنِ جوزی نے اسے موضوعات میں شامل کیا ہے محدثین نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے کہاکہ یہ صرف ضعیف ہے موضوع نہیں کیونکہ مسلمہ پر جرح بالکذب نہیں جیساکہ حافظ نے کہااور نہ توجہ کی جائے اس شخص کی طرف جس نے ملمع کاری سے دھوکاکھایا اور کہاکہ یہ موضوع ہے جیسا کہ ذہبی وغیرہ نے کہا۔ (ت)
عـہ۲: المقصد الثامن من الفصل الاول فی طبہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی
آٹھویں مقصدکی پہلی فصل سے طب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں اس کاذکرہے ۱۲منہ (ت)
(۴؎شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۵۸)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۵۹)
اُسی میں بعد کلام مذکور ہے:
المدارعلی الاسناد فان تفردبہ کذاب اووضاع فحدیثہ موضوع وان کان ضعیفا فالحدیث ضعیف فقط ۲؎۔
مدار سندِ حدیث پر ہے اگر اسے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفردہے تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی۔ (ت)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃعامرہ مصر۷/۵۹)
انہیں ابن علی خشنی نے حدیث لیس عیادۃ الرمد والدمل والضرس (تین اشخاص کی عیادت لازم نہیں جس کی آنکھ میں تکلیف ہو جس کو پھوڑا نکل آئے اور داڑھ درد والے کی۔ ت)کو مرفوعاً روایت کیا اور ہقل نے یحیٰی بن ابی کثیر پر موقوف رکھا، تو شدّت طعن کے ساتھ مخالفت اوثق نے حدیث کو منکر بھی کردیا ولہذا بیہقی نے موقوف کو ''ھو الصحیح'' (وہ صحیح ہے۔ ت) بتایا، امام حافظ نے فرمایا:
اس کی تصحیح کاموقوف ہونا ہے جوکہ اس کے موضوع ہونے کو ثابت نہیں کرتی کیونکہ مسلمہ اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس پر کذب کاطعن نہیں،لہذا ثابت ہواکہ ابن جوزی کا ان کو موضوع قراردیناوہم ہے اھ اسے امام زرقانی نے پہلی حدیث سے کچھ پہلے نقل کیا ہے۔ (ت)
(۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۵۸)
امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خلیفہ منصور عباسی سے ارشاد کہ اپنا منہ حضور پُرنور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیوں پھیرتا ہے وہ تیرا اور تیرے باپ آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں،اُن کی طرف منہ کر اور اُن سے شفاعت مانگ کر اللہ تعالٰی ان کی شفاعت قبول فرمائے گا، جسے اکابر ائمہ نے باسانید جیدہ مقبولہ روایت فرمایا،ابن تیمیہ متہّورنے جزافاً بک دیا کہ ان ھذہ الحکایۃ کذب علٰی مالک''۔
(اس واقعہ کا امام مالک سے نقل کرنا جھُوٹ ہے۔ ت) علامہ (عـہ۱) زرقانی نے اُس کے رَد میں فرمایا:
ھذا تھوّر عجیب، فان الحکایۃ رواھا ابوالحسن علی بن فھر فی کتابہ فضائل مالک باسناد لاباس بہ، واخرجھا القاضی عیاض فی الشفاء من طریقہ عن شیوخ عدۃمن ثقات مشایخہ فمن این انھاکذب ولیس فی اسنادھا وضاع ولاکذاب ۱؎۔
یہ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ اس واقعہ کو شیخ ابوالحسن بن فہرنے اپنی کتاب ''فضائلِ مالک'' میں ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں کمزوری نہیں اور اسے قاضی عیاض نے شفاء میں متعدد ثقہ مشائخ کے حوالے سے اسی سند سے بیان کیاہے لہذااسے جھُوٹا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟حالانکہ اسکی سند میں نہ کوئی رواوی وضاع ہے اور نہ ہی کذّاب۔ (ت)
(عـہ۱) المقصد العاشر الفصل الثانی فی زیارۃ قبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ
دسویں مقصد کی فصل ثانی فی زیادۃ قبرالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
(۱؎شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الثانی المقصد العاشر مطبوعہ مطبعہ عامرہ مصر ۸/۳۴۸)
افادہ نہم میں امام الشان وامام خاتم الحفاظ کا ارشاد گزرا کہ راوی متروک سہی کسی نے اُسے وضاع تو نہ کہا، امام آخر کا قول گزرا کہ مسلمہ ضعیف سہی اس پر طعنِ کذب تو نہیں، نیز تعقبات (عـہ۲) میں فرمایا:
لم یجرح بکذب فلایلزم انیکون حدیثہ موضوعا ۲؎۔
اس پر کذب کا طعن نہیں لہذا اس کی روایت کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔ (ت)
(عـہ۲) باب فضائل القراٰن ۱۲ منہ
باب فضائل القرآن میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
(۲؎التعقبات علی ا لموضوعات باب فضائل القرآن مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص۸)
(۳) بہت علماء جہاں حدیث پر سے حکمِ وضع اٹھاتے ہیں وجہ رد میں کذب کے ساتھ تہمتِ کذب بھی شامل فرماتے ہیں کہ یہ کیونکر موضوع ہوسکتی ہے حالانکہ اس کا کوئی راوی نہ کذاب ہے نہ متہم بالکذب۔ کبھی فرماتے ہیں موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا یہاں ایسا نہیں تو موضوع نہیں۔ افادہ دوم میں امام زرکشی وامام سیوطی کا ارشاد گزرا کہ حدیث موضوع نہیں ہوتی جب تک راوی متہم بالوضع نہ ہو۔ افادہ پنجم میں گزرا کہ ابوالفرج نے کہا ملیکی متروک ہے،تعقبات میں فرمایامتہم بکذب تونہیں۔افادہ نہم میں انہی دونوں ائمہ کا قول گزرا کہ راوی متروک سہی متہم بالکذب تو نہیں۔ وہیں امام خاتم الحفاظ کے چار۴ قول گزرے کہ راویوں کے مجہول ، مجروح ، کثیرالخطا، متروک ہونے سب کے یہی جواب دیے۔ نیز تعقبات (عـہ۳) میں ہے:
حدیث فیہ حسن بن فرقدلیس بشیئ، قلت،لم یتھم بکذب، واکثر مافیہ ان الحدیث ضعیف ۱؎۔
اس حدیث کی سند میں حسن بن فرقد کوئی شیئ نہیں،میں کہتا ہوں کہ یہ متہم بالکذب نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (ت)
(عـہ۳) آخر البعث ۱۲ منہ
باب البعث کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ(ت)
(۱؎ التعقبات علی الموضوعات باب البعث مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۵۳)
اس حدیث کی سندمیں عطیہ اور بشر دونوں ضعیف ہیں،میرے نزدیک اس حدیث پر وضع کا حکم نافذکرنا محلِ نظر ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی پر بھی کذب کی تہمت نہیں۔ (ت)
(عـہ۱) آخر التوحید ۱۲ منہ باب التوحید کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
(۲؎ التعقبات علی الموضوعات باب التوحید مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۴)
اسی میں (عـہ۲) ہے: حدیث اطلبواالعلم ولوبالصّین،فیہ ابوعاتکۃمنکر الحدیث ''قلت'' لم یجرح بکذب ولاتھمۃ ۳؎۔
حدیث ''علم حاصل کرو اگرچہ چین جانا پڑے'' اس کی سند میں ابوعاتکہ منکر الحدیث ہے میں کہتا ہوں اس پر کذب اور تہمت کا طعن نہیں ہے۔ (ت)
(۳؎ التعقبات علی الموضوعات باب العلم مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۴)
(عـہ۲) اول العلم ۱۲ منہ باب العلم کی ابتداء میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)
اُسی میں (عـہ۳) ہے : حدیث فیہ عمار لایحتج بہ قال الحافظ ابن حجر، تابعہ اغلب واغلب شبیہ بعمارۃ فی الضعف، لکن لم ارمن اتھمہ بالکذب ۴؎۔
اس حدیث کی سند میں عمارہ ہے، لہذا یہ قابلِ استدلال نہیں،حافظ ابنِ حجر کہتے ہیں کہ اس کی اغلب نے متابعت کی ہے اور اغلب ضعف میں عمارہ کے مثل ہے، لیکن میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جس نے اس پر کذب کی تہمت لگائی ہو۔ (ت)
عـہ۳: اول باب البعث
(۴؎التعقبات علی الموضوعات باب البعث مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ص ۵۱)
علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں حدیث
عالم قریش یملؤ الارض علماً
(عالم قریشی زمین کو علم سے بھردے گا۔ت)کی نسبت فرمایا:
یتصور وضعہ ولاکذاب فیہ ولامتھم ۵؎
اس کا موضوع ہوناکیونکر متصور ہو حالانکہ نہ اُس میں کوئی کذاب نہ کوئی متہم۔
(۵؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الثامن فی انبائہ بالاشیاء المغیبات مطبوعۃ المطبعۃ العامرہ مصر ۷/۲۵۹)