Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
107 - 157
افادہ دہم: (موضوعیتِ حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے) غرض ایسے وجوہ سے حکم وضع کی طرف راہ چاہنا محض ہوس ہے، ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون (۱) قرآن عظیم (۲) سنتِ متواترہ (۳) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (۴) یا عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۶) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمالِ تاویل وتطبیق نہ رہے۔

(۷)    یا معنی شنیع وقبیح ہوں جن کا صدور حضور پُرنور صلوات اللہ علیہ سے منقول نہ ہو، جیسے معاذاللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔

(۸)    یا ایک جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اُس کے کذب وبطلان پر گواہی (عـہ) مستنداً الی الحس دے۔
عـہ: زدتہ لان التواتر لایعتبر الافی الحسیات کمانصوا علیہ فی الاصلین ۱۲ منہ (م)

میں نے اس کا اضافہ کیا کیونکہ تواتر کا اعتبار حسیات کے علاوہ میں نہیں ہوتا جیسے کہ انہوں نے اصول میں اس کی تصریح کی ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۹)    یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔

(۱۰)    یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔ یہ دس۱۰ صورتیں تو صریح ظہور ووضوحِ وضع کی ہیں۔

(۱۱)    یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔

(۱۲)    یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:
لحمک لحمی ودمک دمی
(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)
اقول انصافاً یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں
''کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد''
 (جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ ت) یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ ت)
 (۱۳)    یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اورحدیث ذم معلمین اطفال۔

(۱۴)    یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہِ شان کاکام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔

(۱۵)    یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلاً ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی سماع روایت کرے ، پھراُس کی تاریخِ وفات وہ بتائے کہ اُس کااس سے سننامعقول نہ ہو۔
یہ پندرہ۱۵ باتیں ہیں کہ شاید اس جمع وتلخیص کے ساتھ ان سطور کے سوانہ ملیں
ولوبسطنا المقال علٰی کل صورۃ لطال الکلام وتقاصی المرام، ولسناھنالک بصددذلک
 (اگر ہم ہر ایک صورت پر تفصیلی گفتگو کریں تو کلام طویل اور مقصد دُورہوجائے گالہذا ہم یہاں اس کے درپے نہیں ہوتے۔ (ت)
ثمّ اقول(پھر میں کہتا ہوں۔ ت)رہا یہ کہ جو حدیث ان سب سے خالی ہو اس پر حکم وضع کی رخصت کس حال میں ہے ، اس باب میں کلمات علمائے کرام تین طرز پر ہیں:

(۱)    انکار محقق یعنی بے امور مذکورہ کے اصلاً حکم وضع کی راہ نہیں اگرچہ راوی وضاع، کذاب ہی پر اُس کا مدار ہو،امام سخاوی نے فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث میں اسی پر جزم فرمایا، فرماتے ہیں:
مجرد تفرد الکذاب بل الوضاع ولوکان بعد الاستقصاء فی التفتیش من حافظ متبحرتام الاستقراء غیر مستلزم لذلک بل لابد معہ من انضمام شیئ مماسیاتی ۱؎۔
یعنی اگر کوئی حافظ جلیل القدرکہ علمِ حدیث میں دریااور اس کی تلاش کا مل ومحیط ہو،تفتیش حدیث میں استقصائے تام کرے اور بااینہمہ حدیث کا پتا ایک راوی کذاب بلکہ وضاع کی روایت سے جدا کہیں نہ ملے تاہم اس سے حدیث کی موضوعیت لازم نہیں آتی جب تک امور مذکورہ سے کوئی امر اس میں موجود نہ ہو۔ (ت)
 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث الموضوع دارالامام الطبری        بیروت    ۱/۲۹۷)
مولانا علی قاری نے موضوعاتِ کبیر میں حدیث ابن ماجہ دربارہ اتخاذ وجاج کی نسبت نقل کیا کہ اُس کی سند میں علی بن عروہ دمشقی ہے، ابن حبان نے کہا:وہ حدیثیں وضع کرتا تھا۔ پھر فرمایا:
والظاھر ان الحدیث ضعیف لاموضوع ۲؎
 (ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں)
 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی اخبار الموضوعہ    حدیث ۱۲۸۲    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۳۸)
حدیث فضیلت عسقلان کا راوی ابوعقال ہلال بن زیدہے، ابنِ حبان نے کہا وہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موضوعات روایت کرتاولہذا ابن الجوزی نے اُس پر حکم وضع کیا۔
امام الشان حافظ ابن حجر نے قولِ مسدد پھر خاتم الحفاظ نے لآلی میں فرمایا:ھذا الحدیث فی فضائل الاعمال والتحریض علی الرباط،ولیس فیہ مایحیلہ الشرع ولاالعقل،فالحکم علیہ بالبطلان بمجردکونہ من روایۃابی عقال لایتجہ، وطریقۃ الامام احمد معروفۃ فی التسامح فی احادیث الفضائل دون احادیث الاحکام ۱؎۔
یہ حدیث فضائل اعمال کی ہے، اس میں سرحد دارالحرب پر گھوڑے باندھنے کی ترغیب ہے اور ایسا کوئی امر نہیں جسے شرع یا عقل محال مانے تو صرف اس بنا پر کہ اس کا راوی ابوعقال ہے باطل کہہ دینا نہیں بنتا، امام احمد کی روش معلوم ہے کہ احادیث فضائل میں نرمی فرماتے ہیں نہ احادیث احکام میں۔ (ت)

یعنی تو اسے درج مسند فرمانا کچھ معیوب نہ ہوا۔
 (۱؎ القول المسدد    الحدیث الثامن    مطبوعہ مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن ہند     ص ۳۲)
 (۲)    کذاب وضاع جس سے عمداً نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر معاذ اللہ بہتان وافتراء کرناثابت ہو،صرف ایسے کی حدیث کو موضوع کہیں گے وہ بھی بطریقِ ظن نہ بروجہ یقین کہ بڑا جھُوٹابھی کبھی سچ بولتا ہے اور اگر قصداً افترا اس سے ثابت نہیں تو اُس کی حدیث موضوع نہیں اگرچہ مہتم بکذب و وضع ہو، یہ مسلک امام الشان وغیرہ علماء کا ہے،
نخبہ ونزھہ میں فرماتے ہیں:الطعن اماان یکون لکذب الراوی بان یروی عنہ مالم یقلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم متعمد الذلک اوتھمتہ بذلک، الاول ھوالموضوع، والحکم علیہ بالوضع انما ھو بطریق الظن الغالب لابالقطع، اذقد یصدق الکذوب، والثانی ھو المتروک ۲؎ اھ ملتقطا
طعن یا تو کذب راوی کی وجہ سے ہوگا مثلاً اس نے عمداً اپنی بات روایت کی جو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی یا اس پر ایسی تہمت ہو،پہلی صورت میں روایت کو موضوع کہیں گے اور اس پر وضع کا حکم یقینی نہیں بلکہ بطور ظن غالب ہے کیونکہ بعض اوقات بڑا جھُوٹابھی سچ بولتا ہے، اور دوسری صورت میں روایت کو متروک کہتے ہیں اھ ملتقطاً۔ (ت)
 (۲؎ شرح نخبۃ الفکر معہ نزھۃ النظر    بحث الطعن    مطبوعہ مطبع علیمی لاہور    ص ۵۴ تا ۵۹)
یہی امام کتاب الاصابہ(عـہ)فی تمیز الصحابہ میں حدیث ان الشیطان یحب الحمرۃ فایاکم والحمرۃ وکل ثوب فیہ شھرۃ (شیطان سُرخ رنگ پسند کرتا ہے تم سُرخ رنگت سے بچو اور ہر اس کپڑے سے جس میں شہرت ہو۔ ت) کی نسبت فرماتے ہیں:
قال الجوزقانی فی کتاب الاباطیل ھذا حدیث باطل واسنادہ منقطع کذاقال وقولہ باطل مردودفان ابابکر الھذلی لم یوصف بالوضع وقد وافقہ سعید بن بشیر، وان زادفی السند رجلا، فغایتہ ان المتن ضعیف اماحکمہ بالوضع فمردود ۱؎۔
جو زقانی نے کتاب الاباطیل میں کہا کہ یہ روایت باطل ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا اور ان کا باطل کہنا مردود ہے کیونکہ ابوبکر ہذلی وضاع نہیں اور اس کی سعید بن بشیر نے موافقت کی، اگرچہ سند میں انہوں نے ایک آدمی کا اضافہ کیا ہے، زیاد سے زیادہ یہ ہے کہ متن ضعیف ہے لیکن اس پر وضع کا حکم جاری کرنا مردود ہے۔ (ت)
 (عـہ) ذکرہ فی ترجمۃ رافع بن یزید الثقفی ۱۲ منہ (م)

رافع بن یزید ثقفی کے ترجمہ میں اس کا ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ الاصابہ فی تمییز الصحابہ        القسم الاول ''حرف الراء''        مطبوعہ دارصادر بیروت    ۱/۵۰۰)
علی قاری حاشیہ نزھہ میں فرماتے ہیں:
الموضوع ھو الحدیث الذی فیہ الطعن بکذب الراوی ۲؎۔
موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو۔ (ت)
 (۲؎ حاشیہ نزھۃ النظر مع نخبۃ         الفکر بحث الموضوع        مطبع علیمی لاہور    ص ۵۶)
Flag Counter