Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
106 - 157
امام بدر زرکشی کتاب النکت علی ابن الصلاح، پھر خاتم الحفاظ لآلی عــہ۱ میں فرماتے ہیں:
بین قولنا لم یصح وقولنا موضوع بون کبیر، وسلیمن بن ارقم وان کان متروکا فلم یتھم بکذب ولاوضع ۱؎ اھ ملخصا۔
محدثین کے قول ''لم یصح'' اور ''موضوع'' کے درمیان بڑا فرق ہے سلیمان بن ارقم اگرچہ متروک ہے لیکن وہ متہم بالکذب اور متہم بالوضع نہیں اھ ملخصا (ت)
عــہ۱: فیہ تحت حدیثہ ایضا والذی نفسی بیدہ ماانزل اللّٰہ من وحی قط علی نبی بینہ وبینہ الابالعربیۃ الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس میں اسی حدیث کے تحت یہ بھی ہے کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ تعالٰی نے کسی نبی پر وحی نہیں فرمائی مگر اس کے اور اس کے نبی کے درمیان عربیت تھی الحدیث (ت)
 (۱؎ اللآلی المصنوعۃ   کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۱۱)
ابوالفرج نے ایک حدیث میں طعن کیا کہ ''الفضل متروک'' (فضل متروک ہے۔ ت) لآلی عــہ۲ میں فرمایا:
فی الحکم بوضعہ نظر، فان الفضل لم یتھم بکذب ۲؎۔
اس کو موضوع قرار دینا محلِ نظر ہے، کیونکہ فضل مہتم بالکذب نہیں۔ (ت)
عــہ۲:  فیہ ایضا تحت حدیث ابن شاھین لماکلم اللّٰہ تعالٰی موسٰی یوم الطور کلمہ بغیر الکلام الذی کلمہ یوم ناداہ الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس میں حدیث ابن شاہین کے تحت یہ بھی ہی کہ جب اللہ تعالٰی نے موسٰی علیہ السلام سے طور کے دن گفتگو فرمائی تو یہ کلام اس کلام کی طرح نہ تھا جو انکے ساتھ ندا کے وقت کیا تھا، الحدیث ۱۲ منہ (ت)
 (۲؎ اللآلی المصنوعۃ   کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر     ۱/۱۲)
تعقبات عــہ۳ میں ہے :

اصبغ شیعی متروک عندالنسائی فحاصل عــہ۴ کلامہ ''انہ ضعیف لاموضوع'' وبذلک صرح البیھقی ۳؎۔
اصبغ شیعہ ہے، امام نسائی کے ہاں متروک ہے، ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ضعیف ہے موضوع نہیں، اور اسی بات کی تصریح بیہقی نے کی ہے۔ (ت)
عــہ۳: ذکرہ فی اول باب صلاۃ۔   باب الصلاۃ کے شروع میں اسے ذکر کیا ہے (ت)

عــہ۴ : الکنایۃ للذھبی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)   اس سے امام ذہبی کی طرف کنایہ ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الصلوٰۃ        مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۱۱)
حدیث چِلّہ صوفیہ کرام قدست اسرارہم کہ : من اخلص للّٰہ تعالٰی اربعین یوما ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علٰی لسانہ ۱؎۔
جس شخص نے چالیس۴۰ دن اللہ تعالٰی کیلئے اخلاص کیا اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری ہوجائیں گے۔ (ت)
 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۷)
ابنِ جوزی نے بطریق عدیدہ روایت کرکے اس کے رواۃ میں کسی کے مجہول، کسی کے کثیر الخطا، کسی کے مجروح، کسی کے متروک ہونے سے طعن کیا، تعقبات میں سب کا جواب یہی فرمایا کہ
''مافیھم متھم بکذب ۲؎''
یہ سب کچھ سہی پھر اُن میں کوئی مہتم بکذب تو نہیں کہ حدیث کو موضوع کہہ سکیں۔ یوں ہی ایک حدیث (عــہ)کی علت بیان کی:
بشربن نمیرعن القاسم متروکان ۳؎
 (بشربن نمیر نے قاسم سے روایت کی اور یہ دونوں متروک ہیں۔ ت) تعقبات میں فرمایا:
بشرلم یتھم بکذب ۴؎
 (بشر مہتم بالکذب نہیں۔ ت) حدیث ابی ہریرہ
''اتخذاللّٰہ ابراھیم خلیلا''
الحدیث (اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل بنایا، پوری حدیث۔ ت) میں کہا
تفرد بہ مسلمۃ بن علی الخشنی وھو متروک ۵؎
 (اس میں مسلمہ بن علی الخشنی منفرد ہے اور وہ متروک ہے۔ ت) تعقبات میں فرمایا:
مسلمۃ وان ضعف فلم یجرح بکذب ۶؎
 (مسلمہ اگرچہ ضعیف ہے مگر اس پر جرح بالکذب نہیں۔ ت) حدیثِ ابی ہریرہ
''ثلٰثۃ لایعادون''
(تین چیزیں نہیں لوٹائی جائیں گی۔ ت) پر بھی مسلمہ مذکور سے طعن کیا، تعقبات میں فرمایا:
لم یتھم بکذب، والحدیث ضعیف لاموضوع ۷؎
(یہ مہتم بالکذب نہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں۔ ت)
عــہ: یعنی حدیث ابی امامۃ من قال حین یمسی صلی اللّٰہ تعالٰی علی نوح وعلیہ السلام لم تلدغہ عقرب تلک اللیلۃ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

اس سے مراد حدیث ابی امامہ ہے جس میں ہے کہ جس شخص نے شام کے وقت یہ کہا: ''صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی نوح وعلیہ السلام'' تو اسے اس رات بچھّو نہیں ڈسے گا ۱۲ منہ (ت)
 ( ۲؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۷)

(۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ   ص ۴۶)

( ۴؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ص ۴۶)

(۵؎ التعقبات علی الموضوعات     باب المناقب   مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۵۳)

( ۶؎ التعقبات علی الموضوعات     باب المناقب   مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۵۳)

(۷؎ التعقبات علی الموضوعات      باب الجنائز      مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۱۷)
سبحان اللہ! جب انتہا درجہ کی شدید جرحوں سے موضوعیت ثابت نہیں ہوتی، تو صرف جہالت راوی یا انقطاع سند کے سبب موضوع کہہ دینا کیسی جہالت اور عدل وعقل سے انقطاع کی حالت ہے ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون۔

تذییل: یہ ارشادات تو ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالٰی کے تھے، ایک قول وہابیہ کے امام شوکانی کا بھی لیجئے، موضوعات ابوالفرج میں یہ حدیث کہ جب مسلمان کی عمر چالیس۴۰ برس کی ہوتی ہے اللہ تعالٰی جنون وجذام وبرص کو اس سے پھیر دیتا ہے اور پچاس۵۰ سال والے پر حساب میں نرمی اور ساٹھ۶۰ برس والے کو توبہ وعبادت نصیب ہوتی ہے، ہفتاد۷۰ سالہ کو اللہ عزوجل اور اُس کے فرشتے دوست رکھتے ہیں، اسی۸۰ برس والے کی نیکیاں قبول اور برائیاں معاف، نوّے۹۰ برس والے کے سب اگلے پچھلے گناہ مغفور ہوتے ہیں، وہ زمین میں اللہ عزوجل کا قیدی کہلاتا ہے اور اپنے گھر والوں کا شفیع کیا جاتا ہے، بطریق عدیدہ روایت کرکے اُس کے راویوں پر طعن کئے کہ یوسف بن ابی ذرہ راوی مناکیر لیس بشیئ ہے اور فرج ضعیف منکر الحدیث کہ واہی حدیثوں کو صحیح سندوں سے ملادیتا ہے اور محمد بن عامر حدیثوں کو پلٹ دیتا ہے ثقات سے وہ روایتیں کرتا ہے جو اُن کی حدیث سے نہیں اور عرزمی متروک اور عباد بن عباس مستحق ترک اور عزرہ کو یحیٰی بن معین نے ضعیف بتایا اور ابوالحسن کو فی مجہول اور عائز ضعیف ہے۔ شوکانی نے ان سب
مطاعن کو نقل کرکے کہا: ھذا غایۃ ماابدی ابن الجوزی دلیلا علی ماحکم بہ من الوضع، وقد افرط وجازف فلیس مثل ھذہ المقالات توجب الحکم بالوضع بل اقل احوال الحدیث ان یکون حسنا لغیرہ ۱؎۔ انتہی
یعنی ابن جوزی نے جو اس حدیث پر حکمِ وضع کیا اُس کی دلیل میں انتہا درجہ یہ طعن پیدا کیے اور بے شک وہ حد سے بڑھے اور بیباکی کو کام میں لائے کہ ایسے طعن حکمِ وضع کے موجب نہیں، بلکہ کم درجہ حال اس حدیث کا یہ ہے کہ حسن لغیرہٖ ہو۔
 (۱؎ زہر النسرین فی حدیث المعمرین للشوکانی)
واللّٰہ الھادی الٰی سبیل الھدٰی۔
Flag Counter